حج کے فضائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یکم شوال سے اشہرہ حج شروع ہوتے ہیں' جن ایام میں یہ رسالہ آپ کے ہاتھوں میں ہوگا انشاء اللہ حج مبارک کے ایام ہونگے۔ اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں' پہلی بنیاد کلمہ شہادت، دوسری بنیاد نماز، تیسری بنیاد روزہ، چوتھی بنیاد زکو ٰة اور پانچویں بنیاد حج ہے۔

حج صاحب استطاعت پر فرض ہوتی ہے۔اوقات مخصوصہ میں مقامات مخصوصہ میں افعال مخصوصہ کے ساتھ ادا کی جانے والی یہ جانی و مالی عبادت نہایت عاشقانہ اور والہانہ ہوتی ہے۔عشاق اپنا سب کچھ محبوب پر نچھاور کرتے ہیں۔ بیت اللہ العزیز رب ذوالجلال کی تجلیات کے نزول کا محل ہے۔ رب تعالیٰ نے حضرت آدم کی پیدائش اور جنات کی پیدائش سے قبل اپنے اس گھر کی زمین کو پیدا فرمایااور اسی سے ساری کائنات کو پھیلایا اور اپنے اس گھر کو اپنے تجلیات' فیوض و برکات کا محور قرار دیا۔ اس کے اردگرد دیوانہ وار گھومنے اور طواف کو عبادت عظیم قرار دیا۔ اس کو دیکھنے' اس کے استسلام اور ملتزم کے ساتھ چمٹنے اور لپٹنے کودل و جان کا سرور بنایا۔حج عالمگیر نوعیت کی بین الاقوامی ہم اہنگی' ربط اور تعلق پیدا کرنے والی عبادت ہے۔ دنیائے انسانیت آج تک اس عاشقانہ اداؤں پر ورطۂ حیرت میں ہے۔ یہ عبادت اپنے ظاہر کے حوالے سے جہانگیری اور باطن کے حوالے سے سراپا روحانی ہے۔ ایک حاجی بیت اللہ العزیزدیکھتے ہوئے سراپا سرور جان ہوتا ہے اور جھوم کے کہتا ہے
تازم بچشم خود کہ جمال تودیدہ است
اُفتم بپا کے خود کہ جمال تو دیدہ است
صد بار بوسہ زنم دست خویش را
کو دافت گرفتہ بہ سو یئم کشید ہ است

نبی کریم ۖ کے ارشاد مبارکہ کی روشنی میں کہ: جسے حج مبرور نصیب ہو یعنی ایسی حج جو گناہوں اور غلطیوں سے پاک و صاف ہو تو حاجی اپنے گھر ایسے لوٹتا ہے کہ جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے یعنی بے گناہ اور معصوم ۔سنن ترمذی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل ہے کہ ''رجع کیوم ولدتہ امہ''۔ بخاری شریف کی ایک حدیث شریف میں ارشاد منقول ہے کہ '' الحج المبرور لیس لہ جزآء الا الجنة'' یعنی حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔

اس لیے ایک حاجی کو حج جانے سے قبل اپنے جملہ حقوق کا جائزہ لیکر ادائیگی کا انتظام کرنا چاہیے۔حج پر جاتے ہوئے دل و جان' آنکھ و زبان اور ہاتھ پاؤں کی حفاظت کرے۔کچھ امور کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے ہجوم اور کھینچا تانی سے بالکل اجتناب کریں، خواتین پردے کا خصوصی خیال رکھیں ۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی ۖ میں عورتوں کے لیے مختص کی ہوئی جگہ پر نمازیں ادا کریں، ورنہ اپنے کمرے میں بھی عورتوں کو وہ اجر ملے گا جو مسجد میں نمازیں ادا کرنے سے ملتا ہے۔ اور گھر میں ہی بہتر ہے۔ حالت احرام میں کیپ پر سے نقاب ڈالے یا مخصوص انداز سے بنایا ہوا نقاب کا اہتمام کریں تاکہ چہرہ پر کپڑا بھی نہ لگے اور پردے کا بھی انتظام ہو۔ اس حوالے سے مختصر اور اتنی گزارش ہے کہ ٹی وی اور دیگر الیکڑانک میڈیا پر آنے والے اسکالرز یا حج کے مقدس فرض کے نام پر بنائی جانے والی فلموں کے ذریعے مسائل حج معلوم کرنے کے بجائے علماء کرام اور اپنے اپنے مساجد کے خطباء کرام اور آئمہ سے مسائل پوچھ لیں اور حج کے تما م امور کے حوالے سے ان بوریہ نشیں علماء سے پوری پوری رہنمائی لے لیں۔ہر مسلمان کے لئے رب ذوالجلال آسان فرمادے۔

حج کا مبارک عمل ایک مسلمان کے لیے بڑی سعادت اور نیک بختی کے لمحات ہونے کے ساتھ فکر کے لمحات بھی ہوتے ہیں کہ آپ کے لائے ہوئے دین پر عمل کتنا ہوا ' کیا حق ادا ہوا، ہماری شکل و صورت کیسی ہے۔ نظریہ اور اعمال کیسے ہیں ۔ آپ ۖ کے دیے ہوئے تعلیمات وا حکامات کا کیا حق ادا کیا۔ غلامی کے سلیقے اور آداب بجا لائے ہیں تو کیسے ہیں۔ اس مقام پر تو ادب کا معاملہ نہایت نزاکت اور اہمیت کا معاملہ ہے۔ یہاں تو رب تعالیٰ کا بھی حکم ہے ادب کا خیال رکھو۔نہایت توجہ اور فکر کے لمحات ہیں۔

ندامت سے خوف کا عالم اور آقا کے رحمت کی چھاؤں اور ہواؤں میں آپ ۖ کے رفقاء حضرات شیخین کے سامنے سلام کرکے گزرنا بھی اس طرح مشکل ہے کہ شیخین کا دشمن اپنے بغض و عداوت کے ساتھ دنیا کو مسموم کر رہے ہیں۔ اس بغض و عداوت کو مزید پھیلانے کے لیے'' بیداری'' کے مجالس لگائے جاتے ہیں۔ مگر آج مسلمان حکمت و جرأت، خدائی سنت کے مطابق دفاع کرنے اور رسول ۖ کی سنت کے مطابق ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی توصیف و محبت کو توشہ بنانے کے بجائے مصلحت کے شکار ہیں۔ شیخین کے باغیوں سے بعد و فرق روا رکھنے کے بجائے سیاسی تعلقات جوڑنے لگے اور ان کے ساتھ مصاحبت کریں اور ایسے تاثر کو ابھاریں کہ ان کی مخالفت ناعاقبت اندیشی اور بچگانہ حرکت کہیں۔ معاذاللہ۔ ان کے ساتھ اصولی اختلاف کو فروعی اختلاف ظاہر کریں اور جنت والے مقام پر حاضری پر دل ضرور شرمندہ ہوتاہوگا۔ مسلمان جب بارگاہ رسالت میں سلام پیش کرتے ہیں تو اس کا لطف و سرور تووہی جانیں، یہ ذوق کسی کو بیان کرنے کا نہیں، ہم یہی کہ سکتے ہیں ، بندے مؤمن کی حیات نو ہوتی اور خاصان رسل کی تو عید ہوتی ہے۔ سلام پیش کرنے کے بعد ایک امتی کی دل وجان کی کیفیت رب تعالیٰ ہی جانتے ہیں ۔حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے خوب فرمایا۔
محمد از تومی خواہم خدارا
خدایا از تو عشق مصطفےٰ را

رب تعالیٰ ہر مسلمان کے لیے یہ سفر آسان فرمائے اور قبولیت سے نوازے۔ آمین یارب العالمین
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ نصرة الاسلام کے شمارہ نمبر ٤، 2012 کے لیے بطور اداریہ لکھا گیا ہے۔ قاضی
Qazi Nisar Ahmad
About the Author: Qazi Nisar Ahmad Read More Articles by Qazi Nisar Ahmad: 16 Articles with 13584 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.