!!!پڑھو پنجاب ۔بڑھو پنجاب کیطرف پہلا قدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تختی اور سلیٹ کی واپسی

 ۔ ۔ ۔ ۔ وقاص شاہد ۔ ۔ ۔ ۔
ہمارا ایک بہت عزیز دوست محسن کاہلوں ایک دن بہت پریشانی کے عالم میں ہمارے پاس آیا اور آتے ہی گویا ہوا کہ بھائی مجھے آج احساس ہوا ہے کہ ماسٹر غلام رسول صاحب کیا چیز تھے میں نے پوچھا خیریت ہے آج تمھیں بچپن کے استاد صاحب کیونکر یاد آنے لگے تو کہنے لگا کہ ہمارا پڑوسی ہسپتال میں نائب قاصد کی نوکری کے لئے درخواست لکھوانے گھر آگیا تو بڑے صاحبزادے نے جو درخواست لکھ کر دی اس میں املاء کی کم از کم دس غلطیاں میں نے نکال دیں ، تب مجھے ہمارے پرائمری کے استاد صاحب کی شدت سے یاد آئی جو آدھی چھٹی کے بعد صرف املاء لکھواتے اور ہمیں نئے نئے الفاظ سیکھنے کو ملتے۔ قارئین یہ حال صرف محسن کے بیٹے کا نہیں اس جیسے 38 فیصد ایسے طلبہ و طالبات ہیں جن کو ڈھنگ کے ساتھ اپنا نام نہیں لکھنا آتا ، سننے میں یہ ایسی بات ہے جس پر کوئی عقلمند مشکل سے ہی یقین کرئے گا لیکن یہ ایسی سچائی ہے جس سے فرار ممکن نہیں کہ ہمارے پرائیویٹ ا ور سرکاری سکولوں میں سینکڑوں طالبعلم ایسے ہیں جو اپنے بارے میں چند جملوں سے زیادہ لکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، اگر صرف قومی زبان کی بات کریں تو نجی اداروں میں یہ شرح مزید بڑھ جائیگی کہ وہاں طلبہ و اساتذہ اپنی توانائیاں زیادہ تر انگریزی سیکھنے سکھانے میں صرف کرتے ہیں۔

دوسری طرف ہمارا حکمران طبقہ کوالٹی ایجوکیشن کی گردان الاپتا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت کوالٹی ایجوکیشن ہے کیا اور ایسے کون سے عوامل ہیں جو ایجوکیشن کی کوالٹی کو زیادہ موثر بنانے میں کارفرما ہو سکتے ہیں، ان سے آگاہی بھی نہایت ضروری ہے پرائمری لیول پر کوالٹی ایجوکیشن کا سادہ سے مفہوم یہ ہے کہ بچوں کو پڑھنا اور لکھنا آجائے ، وہ اسباق جو کلاس کے اندر پڑھائے جاتے ہیں ان سے مکمل آگاہی حاصل کرتے ہوئے طلبہ بہتر نتائج کے حصول کو یقینی بنا سکیں ۔ سکولوں میں درسی کتب کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کی ذہنی ، جسمانی اور روحانی آبیاری کی نام کوالٹی ایجوکیشن ہے ۔تعلیم کے ساتھ جس چیز کو ہمیشہ جوڑا جاتا ہے وہ ہے تربیت ، کیوں کہ ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب صرف تعلیم پر زور دیتے ہوئے بچوں کے بستے بھاری کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے دوسری طرف تربیت کو پس پشت ڈالنے کے باعث معاشرے کے اخلاقی بگاڑ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

۹۰ ء کی دہائی میں سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پرائمری کی ابتدائی کلاسوں میں ہی پڑھنے اور لکھنے کی بہت زیادہ پریکٹس کروا دی جاتی تھی اس کے علاوہ بنیادی حساب، جس میں جمع تفریق ضرب اور تقسیم کے سوال شامل ہوتے ان کی بار بار مشق کی بدولت طلبہ کو اس لیول کے ریاضی پر کافی حد تک دسترس حاصل ہو جاتی تھی جبکہ آج کے سرکاری سکول کے بچے ویسی مہارت نہیں رکھتے حالانکہ وہ کتابوں اور گائیڈز سے بھی خاصی مدد لیتے نظر آتے ہیں ، لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے عام سکولوں کے بچے ایسا رزلٹ نہ دے سکے، اپنی اردو اور انگریزی کی لکھائی بہتر نہ بنا سکے؟

اس کی بنیادی و جہ یہ ہے کہ وہ سلیٹ جس پر بچے ایک سوال کو درجنوں دفعہ حل کرتے پھر مٹا دیتے پھر اگلی مشق کو حل کرتے ، اس سلیٹ کو ہم نے سکولوں سے نکال باہر کیا ، تختی لکھنے کی مشق آہستہ آہستہ دم توڑتی گئی اب نہ وہ استاد رہے جنہوں نے اپنی جیب میں چاقو رکھا ہوتا اور وہ بچوں کو ’قلم‘ تراش کر دیتے جن سے بچے اپنی تختیوں کے اوپر لکھتے۔اس زمانے میں استاد صاحب تمام طلبہ کی تختیوں پر ’ پورنے ‘ ڈال کر لکھنے کی مشق کرواتے ، بچوں کی املاء اور خوبصورت لکھائی کے مقابلے کروائے جاتے جن سے ان میں سیکھنے کا جذبہ بھی بڑھتا اور کلاس کے اند ر ایک تعمیری مقابلے کی سی فضا بھی قائم ہو جاتی۔

ابھی حال ہی میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے پرائمری اور ایلمنٹیری کی سطح تک کے طلبہ کے حل شدہ امتحانی پرچہ جات کاجائزہ لیکر ایک رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 40 فیصد بچے ایسے ہیں جو امتحان میں انشائیہ طرز کے سوالات کو سرے سے حل ہی نہیں کرتے ۔ 15 فیصد بچے ایسے ہیں جو انشائیہ سوالات کو نسبتاحل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑکیوں میں ایسے سوالات جن میں تین سے پانچ سطریں لکھنا ضروری ہوتا ہے ، کو حل کرنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ امتحان میں معروضی سوالات کو زیادہ ہونا بھی ہے جنہیں حل کرنے سے بچہ اپنے ’پاس‘ ہونے کا سامان تو کر رہا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف وہ لا شعور ی میں ’لکھائی کے امتحان میں فیل ہو تا جا رہا تھا‘۔ ایسی صورت میں طالبعلم سے زیادہ اس کا استاد قصوروار ٹھہرایا جائے گا جس نے اسکی املاء پر توجہ دی نہ ہی اسے لکھنے کی ترغیب دے سکے۔

وزیر اعلی ٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پڑھو پنجاب ۔ بڑھو پنجاب کے بینر تلے ان تمام مشکلات کو بھانپتے ہوئے پہلا قدم سیکرٹری تعلیم عبدالجبار شاہین نے تمام سرکاری سکوں میں تختی اور سلیٹ کو واپس بلا کر اٹھالیا ہے اور محکمے کے تمام افسران کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ جیسے انہوں نے خود جی او آر میں واقع دو سکولوں کو adopt کیا ہے اور خود وہاں جا کر بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ویسے ہی شعبہ تعلیم سے وابستہ تمام ذمہ داران اپنے اپنے حلقے میں دو دو سکولوں کو Adopt کریں وہاں خود جا کر پرائمری کے بچوں کو پڑھائیں ان کو تختی اور سلیٹ پر مشق کروائیں ،اس سے ایک تو ان اساتذہ کو حوصلہ افزائی ہو گی جو سالوں سے اس شعبے سے وابستہ ہیں لیکن افسران بالا کا خوف انہیں اندر ہی اندر کھائے جاتا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی اس مٹی کا قرض واپس لوٹانے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے آج وہ اس مقام پر ہیں۔ حکومت پنجاب کے اس تختی اور سلیٹ کو دوبارہ سے سکولوں میں نافذ کرنے کے اقدام کو جہاں عوام کی اکثریت صبح کے بھولے کی شام کو گھر واپسی قرار دے کر خوش آمدید کہ رہے ہیں وہیں نجی تعلیمی اداروں کے زیر اثر نام نہاد ’تعلیمی ماہرین‘ کا خیال ہے کہ طلبہ کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرواتے ہوئے آگے جانے کی بجائے پیچھے جانے کو ترجیح دی جا رہی ہے جو کہ قوم کے نونہالوں سے سخت زیادتی ہے ۔ واضح رہے کہ ایسے نام نہاد ’تعلیمی ماہرین ‘ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو تختی اور سلیٹ کو برا سمجھتے ہیں کہ ان کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ کی یونیفارم خراب ہوجاتی ہے ،ہاتھ گندے ہونے کو اندیشہ ہے علاوہ ازیں بچے لڑائی میں انہیں بطور ’ہتھیار‘ بھی استعمال کر سکتے ہیں وغیرہ وغٰیرہ۔ یہ تمام وجوہات اپنی جگہ درست ہوں گی لیکن ہم تو یہ جانتے ہیں کہ کچھ سیکھنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو گندہ کرنا بھی پڑے تو اس میں دریغ نہیں کرنا چاہیے اور لکھائی کے معاملے میں تو فارسی کا مشہور شعر ہے کہ:۔
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس

(اگر تو چاہتا ہے کہ تجھے خوبصورتی سے لکھنا آجائے اور تو خوشنویس بن جائے توپھر لکھتا رہ ، لکھتا رہ ، لکھتا رہ)

تو معزز قارئین کرام! ہم نے اپنے نو نہالوں کی ریڈینگ کے ساتھ ساتھ ان کی رائٹنگ پر بھی توجہ دینا ہے اس کے لئے ہمیں تختی اور سلیٹ کو دل کی تھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب حکومت کا بھی مشکور ہونا چاہیے کہ اس نے وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے قوم کے نو نہالوں کے حق میں درست فیصلہ کیا تاکہ پنجاب پڑھے ، لکھے اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے۔
پڑھو پنجاب ۔ بڑھو پنجاب!!!
وقاص شاہد
About the Author: وقاص شاہد Read More Articles by وقاص شاہد: 2 Articles with 1720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.