اولاد کی تربیت

قومیں تعلیم وتربیت سے بنتی ہیں،ترقی یافتہ اقوام کے ارتقاء کا راز ان کی تعلیمی پالیسیوں،تعلیمی کارکردگی اور ان کی دانش گاہوں میں فکر ونظر کی نشأونما میں مضمراور پنہاں ہوتاہے،اعلی تعلیم کی بنیادیں بھی ابتدائی تعلیم وتربیت سے منسلک ہوتی ہیں،مادیت کے اس پُرفتن دور میں والدین وسرپرستان بچوں کی تعلیم وتربیت کونظر انداز کررہے ہیں،اساتذہ اسے مشن کے بجائے پیشہ سمجھ کر تعلیم دے رہے ہوتے ہیں،بعض سکولوں کے مالکان اورکچھ مہتممانِ مدارس بھی نظریاتی جنگوں اور تہذیبوں کے تصادم والے اس زمانے میں نونہالانِ قوم کی کماحقہ اور صحیح پرورش کے بجائے تعداد کے اضافے پر نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے اخلاق اور مذہب سے بچے بے گانہ بنتے جارہے ہیں،پھرہمارے یہاں شرح خواندگی پہلے ہی بہت کم ہے، اوپر سے بقول فاروق قیصرملکی تعلیمی ادارے افریقی ممالک سے بھی تباہی وپس ماندگی میں آگے بڑھ کر کرپشن میں پہلی پوزیشن پر ہیں،وزرائے تعلیم ایسے جاہل کہ جن کو سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص تک یاد نہیں،یہ صورتِ احوال کسی المیے سے ہرگز کم نہیں،دینی مدرسوں میں عربی (في، ما في) اور عصری سکولوں میں انگریزی(یس،اوکے) کے سواکسی کو نہیں آتی،معیشت اور اقتصادیات،جن کی بنیاد یں حساب وریاضی پر استوار ہیں ،ان میں ہماری حالت بہت کمزور ہے،بیرون دنیا میں ہر کوئی اپنے لختہائے جگر کو بھیجنے کی سکت نہیں رکھتے اور جنہوں نے بھیجے ہیں،ان کی اخلاقی اور معاشی رپورٹیں دیکھ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،خصوصاً بچیوں کے حوالے سے مسئلہ بہت نازک وسنگین ہے، پھر معمارانِ وطن وقوم کا معاملہ ہے،بروقت اسے نہایت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے،دو روز قبل اس موضوع کے متعلق وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدرشیخ سلیم اﷲ خان صاحب سے ہماری تفصیلی ملاقات بھی ہوئی،طلبہ میں استعداد وصلاحیت بڑھانے کے لئے وہ انتہائی متفکر تھے،نیز پچھلے دنوں دارِ ارقم فاؤنڈیشن کے تحت تقسیم انعامات کا پروگرام تھا، جہاں راقم کومدعو کیاگیا،اساتذہ اور والدین بطور خاص بلائے گئے تھے،تعلیم وتربیت کی اہمیت پرزور دینے اور نگاہ مرکوز رکھنے کے لئے کتاب وسنت کے علاوہ جن مشاہیر کے فرمودات ان کے سامنے اس وقت عرض کئے گئے ،افادۂ عام کے لئے ان میں سے کچھ اقتباسات یہاں گرانقدر ناظرین کی خدمت میں پیش ہیں:
۱۔امام غزالی ؒ : بچوں کی تعلیم وتربیت انتہائی اہم امر ہے ،بچے والدین کے پاس امانت ہیں ،ان کا صاف دل ایسا سادہ اور پاکیزہ جوہرہے ،جو ہر نقش ونگار سے پاک ہے اور ہر نقش کے قابل ہے ، جس طرف اسے مائل کریں ، اسی طرف جھک جائے گا ، اگر اسے نیکی اور اچھائی کا عادی بنایا اور تعلیم دی گئی، تو اس پر پرورش پائے گااور یوں دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی اس کے قدم چومے گی ، اسے ملنے والے اجر وثواب میں والدین ،معلم اور ہر مؤدب شریک ہوگا، اگر اسے شر کی تعلیم دی گئی اور چوپایوں کی طرح بے کا رچھوڑ اگیا تو ناکامی اس کا مقد ربنے گی اور ہلاکت اس کا نصیب ،اس گناہ میں بچے کے نگران اور سرپرست دونوں شریک ہوں گے ۔ (اتحاف السادۃ المتقین ،ریاض النفس وتھذیب الاخلاق : ۶۷۹؍۸)۔

۲۔حضرت شیخ الہند ؒ نے مالٹاجیل سے واپس آنے کے بعد فرمایا: میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غو رکیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں، تو اس کے دوسبب معلوم ہوئے : ۱: قرآن کریم کو چھوڑ دینا ۔ ۲: آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ۔ اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی ا س کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معنیً عام کیاجائے ، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کیے جائیں ،بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایاجائے ، قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیاجائے (وحدت امت : ص ۴۰)۔

۳۔علامہ اقبال ؒ : ان مکتبوں (مدرسوں ) کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنے دو ،اگر یہ ملااور درویش نہ رہے ،تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ،اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے، تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو بر س کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور قصرالحمراء کے سوا اسلام کے پیرؤوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔(خون بہا۔۱۹۴۲؁ء )۔

۴۔مولانا محمد میاں ؒ: قرآن کریم اورآنحضرت ﷺ کے ارشادات مبارکہ نے جو ہمارا فرض مقرر کیاہے، اس کے ادا کرنے کی سب سے اچھی صورت تویہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو خود پڑھائیں ، اسلام کے احکام اور اس کے بتائے ہوئے آداب کے خود بھی پابند اور عادی ہوں او ربچوں کو بھی پابند اور عادی بنائیں ، اس طرح ہم خود اچھے اور پکے مسلمان ہوجائیں گے اور ہمیں دیکھ کر ہماری اولاد بھی اچھائی اور بھلائی کے سانچے میں ڈھلے گی ۔ہمیں صرف پرورش کا ثواب نہیں ملے گا، بلکہ اخلاقی اور روحانی تربیت کا ثواب بھی ہمارے نامہ ٔاعمال کی زینت بنے گا اور جس طرح ہمارے نیک اعمال ہمارے لئے سرمایۂ آخرت ہوں گے ،ہمارے بتائے ہوئے نیک کاموں پر جب تک ہمارے بچے عمل کرتے رہیں گے، جتنا ثواب ان کو ملے گا، اسی کے برابر ثواب ہمارے لئے بھی ذخیرۂ سعادت بنتارہے گا۔بے شک ہماری دلی آرزو رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قیمتی عطیہ اپنی اولاد کو دیں اورجب اس دنیا سے رخصت ہوں ،تو ان کے لئے دولت کے انبار چھوڑ کرجائیں ،مگر ہمیں کبھی بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ ہمارے رسول رحمۃ للعالمین ﷺ جو دنیا وآخرت کے بھیدوں سے واقف اور اپنی امت کے لئے رؤف ورحیم تھے ،آپ ﷺکی مشفقانہ وصیت یہ ہے : ’’مانحل والدٌ ولداً من نحلِِ، افضل َمن ادب حسن‘‘ یعنی کسی باپ نے اپنی اولاد کو اچھی تعلیم وتربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا۔(ترمذی ،حدیث : ۱۹۵۲)۔پس ہماری یہ تعلیم وتربیت ،اپنی اولاد کے لئے بہترین عطیہ ،سب سے زیادہ قیمتی ترکہ اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی بہت زیادہ جائیداد اور جاگیر ہوگی۔ہر گاؤں ؍بستی ؍محلے میں ایک دو قرآن کریم پڑھنے والے دین دار افراد ہوتے ہی ہیں، اگر ایسے تما م افراد اپنی تفریح یا آرام کرنے کے وقت میں سے صبح یا شام کا صرف ایک ڈیڑھ گھنٹہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے مخصوص کرلیں اور کچھ آگے بڑھ کر اپنے بچوں کے ساتھ پڑوس کے بچوں کوبھی تعلیم وتربیت کے حلقے میں شامل کرلیں تو اس طرح ہر لکھے پڑھے مسلمان کا گھر تعلیم دین کا مکتب اور تربیت گاہ بن جائے گا اور بغیر پیسہ خرچ کئے مفت میں وہ کام ہوجائے گا جس کے لئے کروڑوں اربوں روپے کی ضرورت ہے ۔(طریقۂ تعلیم ،ص ۲۳،۲۴،۲۵)۔

۵۔۔مولانا اشرف علی تھانوی ؒ : سب سے پہلے مسلمان بچے کو قرآن کریم پڑھانا چاہیئے ،ضروریات دین کی تعلیم ہونی چاہیے ،خواہ اردو میں ہو یا عربی میں ،مگر انگریزی سے قبل ہو، یہ مناسب معلوم نہیں ہوتاکہ آنکھ کھلتے ہی ان کو انگریزی میں لگادیا جائے ،اول تو قرآن شریف پڑھاؤ۔ (تحفۃ العلماء :۵۲،۵۳)۔

۶۔قاری محمد طیب قاسمیؒ : ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد بھی اکابر امت اور نبض شناسان ِقوم کی یہی اعلی ترین سیاست تھی کہ وہ جابجادینی مدارس قائم کرتے چلے گئے اور مسلمانوں کو مذہبی حیثیت سے سنبھال لیا، یہ مدارس آج بھی بحمداﷲ کامیابی کے ساتھ جاری اور اپنے کام میں مشغول ہیں اور ان میں سے کتنے ہی مدارس مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔۔۔ان مدارس کا مقصد جامع علماء تیار کرناہے، جو قوم کی ہدایت ورہنمائی کے فرائض انجام دیں ، لیکن موجودہ دور اور اس کے حالات کے لحاظ سے ان مدارس کے علاوہ ایسے مکاتب کی بھی بہت زیادہ ضرورت پیش آگئی ہے ،جو مختلف پراگندہ، بلکہ گندہ لٹریچروں کے زہریلے اثرات سے مسلمان بچوں کو محفوظ رکھ سکیں ، اگر مدارس دینیہ علماء تیار کریں ،تویہ مکاتب ِدینیہ پڑھے لکھے دین دار تیار کرسکیں ،جو گو عالم نہ ہوں ،مگر دین کی سمجھ رکھتے ہوں ۔(خطبات حکیم الاسلام : ج ۵؍۴۱۲)۔

۷۔مولاناابوالحسن علی ندویؒ : کسی ملک کے مسلمانوں کا خواہ وہاں مسلمان اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں اولین اور اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے بالغین کی دینی واقفیت اور بچوں کی دینی تعلیم کا کیا بندوبست کیاہے؟ میں اپنے حدودِ مطالعہ اور دینی واقفیت کی بناء پریہ عقیدہ رکھنے پر مجبور ہوں کہ یہ مسئلہ ان کے تمام قومی مسائل سے مقدم اور اہم ہے ،یہ ان کی زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے ،یہ ابدی نجات یا اس کی ہلاکت کا سوال ہے ،میں مسلمانوں کو یہ پیغام دیتاہوں کہ اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت ،دین وایمان کی معرفت اور پھر اس کی حفاظت اور پھر اس کی غیرت اور پھر اس پر زندگی گزارنے اور اس پر دنیا سے رخصت ہونے کے کام کو سب سے زیادہ اہمیت دیں ،یہ بات جتنی دل سے لگی ہونی چاہییے تھی، مسلمانوں کے دل سے نہیں لگی ہے ،سارا خطرہ اس بات کاہے کہ اس کی جو اہمیت ہونی چاہئے تھی ،وہ مسلمانوں میں نہیں ہے ۔۔ ۔قوموں کے اجتماعی فیصلوں نے دنیا کے نقشے اور قوموں کی تقدیریں بدل دی ہیں ، آج جس چیز کی ہم سب کو ضرورت ہے اور جو تمام موانع اور رکاوٹوں پر غالب آسکتی ہے ،وہ ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دینی تعلیم کو ہرتعلیم پر مقدم رکھیں گے اور بغیر اس ضروری تعلیم کے جس سے وہ اپنے پیدا کرنے والے کو، اپنے پیغمبر ﷺکو ، اپنے عقیدے کو اور اپنے فرائض دینی کو پہچان سکیں، خالص رواجی یا معاشی تعلیم دلانا گناہ اور اپنے مذہب سے بغاوت سمجھیں ،اگر ہمارا یہ فیصلہ ہے اور ہم اس میں سچے ہیں ،تو دنیا کی کوئی طاقت کوئی ترغیب کوئی مصلحت ،کوئی تعزیر ہم کو صراط مستقیم سے نہیں ہٹاسکتی اور ہماری نسلوں کو اسلام کی دولت سے محروم نہیں کرسکتی ۔(مکاتب کی اہمیت : ص :۴)۔

۸۔ڈاکٹر حبیب اﷲ مختارؒ۔اگر والدین یہ چاہتے ہوں کہ ان کا بچہ سچائی ،امانت ، پاک دامنی اور رحم جیسے اچھے اوصاف کا مالک ہو اور برائی سے دور رہے ،تو انہیں چاہئے کہ وہ خود اپنی ذات سے ان کے سامنے اچھائی کے کرنے ،برائی سے دور رہنے ، فضائل سے آراستہ ہونے ،برے کاموں سے بچنے ،حق کے اتباع ،باطل سے دور رہنے میں بہترین نمونہ پیش کریں اور ان کے لئے اپنے آپ کومثال ثابت کریں ، جو بچہ اپنے والدین کو جھوٹ بولتاہوا دیکھے گا، وہ ہرگز سچ نہیں سیکھ سکتا ،جو بچہ اپنے والدین کودھوکہ دیتے اور خیانت کرتے ہوئے دیکھے گا، وہ ہرگز امانت دار نہیں بن سکتا اور جو بچہ اپنے والدین سے گالم گلوچ سنے گا وہ شیریں زبانی ہرگز نہیں سیکھ سکتا۔بچہ اچھائی اور خیر کے اوصاف اسی وقت سیکھتاہے اور اخلاق وشرافت کا پیکر اسی وقت بنتاہے ،جب وہ اپنے والدین میں بہترین نمونہ پائے ،ورنہ دوسری صورت میں اگر والدین اس کے سامنے برانمونہ پیش کریں گے ،تو لازمی طور سے بچہ آہستہ آہستہ وہی رخ اختیار کرے گا اور کفروفسق اور نافرمانی کے راستے پر چلے گا۔صرف اتنی بات کافی نہیں کہ والدین خود اپنی ذات ہی سے بچے کے لئے بہترین نمونہ پیش کرکے یہ سمجھیں کہ انہوں نے اپنی ذمے داری پوری کردی، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا تعلق ورابطہ دین کے ساتھ قائم کریں ۔ ( اسلام اور تربیت اولاد : ۲؍۳۶)۔

۹۔مولانا محمد تقی عثمانی : بچپن میں ایک مرتبہ بچوں کو قرآن کریم ضرور پڑ ھاؤ،اس کے قلب کو قرآن کے نور سے منور کرو،اس کے بعد اس کو کسی بھی کام میں لگاؤ ،ان شاء اﷲ ثم ان شاء اﷲ قرآن کے انوار وبرکات اس کے اندر شامل ِحال ہوں گے ، جب قرآن اسے پڑھادیا،کان کے ذریعے ایمان کا بیج اس کے دل میں پیوست کردیا، توتجربہ یہ ہے کہ جو بچے مکتب میں قرآن کریم پڑھ کر جاتے ہیں ، وہ کسی بھی ماحول میں چلے جائیں،ایمان کابیج ان کے دل کے اندر محفوظ رہتاہے ۔اگر آپ نے شروع سے ہی بچے کو بسم اﷲ ،سبحان اﷲ ،الحمدﷲ ،کے بجائے کٹ پٹ سکھانا شروع کی ، اس کے دماغ پر کتے اور بلی کو مسلط رکھا اور قرآن کے انوار وبرکات کو اس کے دل میں داخل ہونے نہ دیا،تو اس کے دل میں ایمان کہاں سے آئے گا؟ اس کے دل میں اسلام کی محبت کہاں سے آئے گی ؟ اس کے دل میں آخرت کی فکر کیسے پیداہوگی ، پھر تووہی مادہ پرست انسان پیدا ہوگا، جو ہمیں چاروں طرف گھومتاہوا نظر آرہاہے ،جس کو اﷲ تعالی کے حضور کھڑے ہونے کا بھی احساس نہیں ہے ،جو دوسروں پر ظلم ڈھاتاہے ،اگر اپنے بچوں کے مستقبل پر رحم کرنا ہے، تو خداکے لئے انہیں جب تک قرآن کریم کی تعلیم نہ دلائیں ،اس وقت تک انہیں کسی اور کام میں نہ لگائیں ۔(اصلاحی خطبات : ج ۳؍۷۲)۔

۱۰۔مولانا منظور نعمانی ؒ :ہمیں محنتیں کرکے اور پیٹ کاٹ کریہ مکاتب قائم کرنے ہوں گے اور ان کا بوجھ اٹھانا ہوگا، اﷲ تعالی کی مدد بھی انھی کو حاصل ہوتی ہے ،جو خود بھی اس راہ میں قربانی دیں ،مکاتب قائم کرنے کے ساتھ ہمیں ایک مہم بنا کر اس کے لئے بھی بہت بڑی جدوجہد کرنی ہوگی کہ مسلمان بچے ہمارے ان ہی مکاتب میں تعلیم حاصل کریں ۔ (مکاتب کی اہمیت ،ص ۱۱)۔

’’مکتب تعلیم القرآن ‘‘کایہ سٹم ساؤتھ افریقہ میں مستحکم ہے،کچھ دیگر ملکوں میں بھی اس پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے ،ہمارے یہاں بھی اس میدان میں عرق ریزی کے ساتھ احباب جد وجہد کررہے ہیں،ملائیشیا،انڈونیشیا اور ہندوستان تک میں عربی اور قرآنیات پر مختلف انداز میں کوششیں ہورہی ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام مساعی وکاؤشوں کوباہم مربوط اور ایک دوسرے سے مستفید کیا جائے،

نیزان اداروں کے طلبہ میں جدید علوم بالخصوص سائنس، ریاضی اورانگریزی کی تعلیم بھی شایانِ شان ہو، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو،کرپشن،دہوکہ دہی،انتظامی فساد نہ ہو،نقل کے مہلک جرثومہ سے بھی یہ ادارے کوسوں دور ہوں،تب جاکر یہاں ظاہری اور روحانی ترقی اور خوشحالی آئیگی۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878443 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More