کچھ لوگ اپنی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے کچھ
ایسی باتیں منسوب کر دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جیسے ایک
صاحب نے ایک بات کہی کہ دعائے قنوت کبھی قرآن مجید کا حصہ تھی لیکن بعد میں
اسے قرآن مجید سے منسوخ کر دیا گیا
افسوس کا مقام ہے پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ قرآن مجید کی
دوسری آیت ہی یہ ہے کہ " اس میں کوئی شک کی بات نہیں " اور لوگ شک والی بات
کرتے ہیں نہیں سوچتے کہ ان کا انجام کیا ہوگا جبکہ دعائے قنوت کا معاملہ
بھی سورہ الفاتحہ ہی کا جیسا ہے جس کے لئیے الله تعالیٰ نے سورہ الحجر کی
آیت نمبر ٨٧ میں ارشاد فرمایا کہ " اور بیشک ہم نے تم کو سات آیتیں دیں جو
دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن " اب اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ
الله تعالیٰ نے ہم کو سات آیتیں الگ سے کیوں دیں ان کو قرآن کے ساتھ شامل
کیوں نہیں کیا تو بات یہ سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ اپنے
بندوں سے مخاطب ہے جبکہ سورہ الفاتحہ میں بندہ اپنے رب سے مخاطب ہے اسی طرح
اگر ہم دعائے قنوت کو دیکھیں تو دعائے قنوت میں بھی بندہ اپنے رب سے مخاطب
ہے تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ الله اور بندے کا مخاطب ہونا ایک جیسا ہو
جائے اور ایک ہی کتاب میں تحریر کر دیا جائے جبکہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید
میں اپنے احکامات اور ہدایت اور حکمت رکھی جبکہ بندہ تو اپنے رب سے مانگتا
ہی ہے چاہے وہ سورہ الفاتحہ ہی کیوں نہ ہو تو کیا مانگنے والا اور دینے
والا ایک جیسے ہو سکتے ہیں
جبکہ دعائے قنوت کو اگر ہم الله تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں دیکھیں تو یہ
بلکل اس طرح ہے جیسے ہم اپنی سارا دن کی کار گزاری الله تعالیٰ کے حضور پیش
کر رہے ہوتے ہیں اسی لئیے دعائے قنوت سارا دن کے اختتامی اوقات میں ادا کی
جاتی ہے جیسے الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
سورہ الحشر - ٥٩ - ----------------- آیات # ١٨ - ١٩
اے ایمان والو الله سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیجا
اور الله سے ڈرو بیشک الله کو تمھارے کاموں کی خبر ہے - اور ان جیسے نہ ہو
جو الله کو بھول بیٹھے تو الله نے انھیں بلا میں ڈالا کہ انھیں اپنی جانیں
یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں
اب اگر مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں دعائے قنوت کو دیکھیں تو شائد میری
بات کو سمجھہ سکیں جبکہ سکھائی تو سورہ الفاتحہ اور دعائے قنوت ہم کو الله
تعالیٰ ہی نے ہے بس قرآن اور دعائے قنوت اور سورہ الفاتحہ کے بیچ میں فرق
صرف اتنا ہے کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ اپنے بندوں سے مخاطب ہے اور
مذکورہ دونوں سورتوں میں بندہ الله تعالیٰ سے مخاطب ہے فرق کو سامنے رکھتے
ہوے خود فیصلہ کریں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط
جب الله تعالیٰ اپنے ساتھ کسی کی شرکت پسند نہیں کرتا تو اپنے کلام میں بھی
کسی کی شرکت پسند نہیں کرتا |