وطن عزیز پاکستان کا صوبہ
بلوچستان ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا ۔ اس بار صوبہ بلوچستان کا
علاقہ تربت دہشت گردوں کا ہدف رہا۔ جہاں دروندوں نے دن بھر کے تھکے ہوئے
مزدوروں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ سورہے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق
تربت میں ایک زیر تعمیر پروجیکٹ پر کام کرنے والے مزدوروں کو دہشت گردوں کے
ایک گروہ نے رات ڈیڑھ بجے نشانہ بنایا۔ جس میں بیس افراد جاں بحق جبکہ باقی
تین زخمی ہوگئے۔جاں بحق افراد کا تعلق سندھ اور پنجاب سے تھا۔ جن کی میتیں
گھروں میں پہنچانے کے بعدکہرام مچا۔ ان گھروں میں قیامت صغریٰ کے مناظر
تھے۔ روتے پیٹتے رشتہ دار اور سسکتی ماؤں کے غم دیکھے نہیں جاسکتے تھے۔ ہر
کوئی اس سوچ میں تھا۔ کہ ٓاخر قصور کیا تھا ان بچاروں کا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان کے مطابق مزدوروں کی حفاظت پر مامور
سیکیورٹی اہلکاروں اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
لیکن دہشت تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمین گاہوں کی طرف فرار
ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ میڈیا کو دیئے گئے ایک بیان میں صوبائی وزیر داخلہ
کا کہنا تھا کہ واقعے کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے اور یہ کہ مذکورہ
کارروائی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے فنڈڈ دہشت گردوں نے کی ہے۔ یاد رہے
کہ ان مزدوروں کی سیکیورٹی پر مامور 8اہلکارغفلت برتنے پر فوری گرفتار
کرلیے گئے تھے۔
مذکورہ بالا دہشت گردانہ کارروائی بلوچستان میں کوئی پہلی بار نہیں ہوئی ۔
بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار ملک کے مختلف حصوں باالخصوص بلوچستان میں دہشت
گرد اس قسم کی کارروائیاں کرچکے ہیں اور ان میں سے بیشتر کے تانے بانے
ہندوستان سے جاکے ملتے ہیں۔ اور اس کا اندازہ آپ صوبائی وزیر داخلہ کے
ہالیہ بیان کے علاوہ ماضی میں دیئے گئے حکومتی اور اعلیٰ سیکیورٹی
عہدیداران کے بیانات سے لگا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے ۔ کہ ان
سب واقعات اور اس کے بعد مختلف حکومتی بیانات کے بعد جب ہم اپنی خارجہ
پالیسی بالخصوص نواز حکومت کی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالتے ہے۔ تو وہاں
ہندوستان کے لیے سوائے ہمدردی کے اور کچھ نظرنہیں آتا۔ یہاں ایک بات کی
وضاحت کرتا چلوں کہ کوئی بھی پاکستانی یہ نہیں چاہتا کہ ہم جاکر ہندوستان
پر یلغار کردیں، بلکہ ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ چونکہ ہندوستان ہمارا
ہمسایہ ملک ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ بہتر تعلقات ہونے چاہیے۔ لیکن اس کے بر
عکس اگر ہم بات کریں ہندوستان کی۔ تو وہاں ہمیں ہر سطح پر سوائے پاکستان کی
مخالفت کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو عالمی سطح پر
سیکولرزم کا علمبردار ملک ظاہر کرنے والے ملک میں جب وزیر اعظم جیسے
انتہائی اہم عہدے کا چناؤہوتاہے تو جیت اسکی ہوتی ہے ۔جو مسلم امہ بالخصوص
پاکستان دشمنی میں اپنی مثال آپ ہو۔لہذا ایک ایسے ملک کہ جس کے منشور میں
یہ بات شامل ہو ۔کہ جلد یا بدیر پاکستان کو ختم یا اس کے جغرافیائی سرحدوں
کو تبدیل کرنا ہے ۔ایسے ملک سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم لاکھ
ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے، اس کے روئیے میں کبھی تبدیلی واقع
نہیں ہوگی۔ بلکہ وہ ہمیشہ پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دے گا۔
یہ ہندوستان ہی تھا کہ جسکی مکاریوں اور چالبازیوں کی وجہ سے ایک طرف ہمیں
سقو ط ڈھاکہ جیسا عظیم سانحہ دیکھنا پڑا، تو دوسری جانب سیاچن اور کشمیر
وغیرہ میں ہمیں بھارتی غاصبانہ قبضے کا سامنا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستانی
پانیوں پر غیر قانونی ڈیم بنانا اور آئے روز سرحدی علاقوں میں بلااشتعال
کارروئیاں کرنا ہندوستان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ خود اگر ملک کے اندر نگاہ
ڈالی جائے تو بھارت ہر لمحے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وطن عزیز کو غیر مستحکم
کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتا ہے ۔ جس کی ایک مثال سانحہ تربت کی شکل
میں ہمارے سامنے ہیں۔ جس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ قبول کرچکی ہے۔
گوکہ اس سانحے کے فوری بعد ہماری سیکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی میں اس
حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے بعض دہشت گردوں کو مارگرایا ہے۔ لیکن ضرورت
اس امر کی ہے کہ حکومت وقت نہ صرف بھارت کے ساتھ اس اہم مسئلے کو پر زور
طریقے سے اٹھائے، بلکہ عالمی برادری کی توجہ بھی بھارت کے جارحانہ عزائم کی
طرف دلائے۔ یہی نہیں بلکہ حکومت کو بیانات سے آگے بڑھ کربلوچستان کی
پسماندگی کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے ہونگے۔ ساتھ ہی ساتھ بلوچ
عوام کو روٹی ،کپڑے، مکان، تعلیم اور علاج جیسے انتہائی اہم اور بنیادی
حقوق فاالفور مہیاں کرنے ہونگے۔ تاکہ کسی بھی مشکل میں وہ بھی افواج
پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر دشمن کے عزائم ناکام بنانے کے قابل
ہو۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تووہاں پر
ہندوستانی عزائم کو ناکام بنارہے ہیں۔ لیکن سیاسی قیادت کو اس سلسلے میں
ابھی اور بھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان
کے بعض علاقے اور وہاں کے لوگ اس دور جدید میں بھی بعض بنیادی سہولیات سے
محروم ہی نہیں ناآشنا بھی ہے اور اس کی ایک جھلک ہم ماشکیل میں ہونے والے
زلزلے کے بعد وہاں کی عوام کی حالت زارجان کر دیکھ چکے ہیں۔ |