بگڑے بچے…… بگڑے والدین

سڑک پر ہر طرف گاڑیوں کا ہجوم تھا اور اس بے ہنگم ہجوم میں میری گاڑی بھی خراماں خراماں منزل کی طرف گامزن تھی۔ چوک آیا تو اشارے پر رکنا پڑا۔ چوک میں ہماری ہومیوپیتھک ٹریفک پولیس کا وارڈن موجود تھا مگر اس کی تمام تر کوشش کے باوجود ٹریفک کا بے ہنگم پن اور لوگوں کی جہالت اپنے عروج پر تھی۔ ہر شخص ہر قیمت پر آگے نکلنے کی مہم پر تھا۔ کسی کو بھی ٹریفک کے قوانین کی پاسداری منظور نہ تھی۔ سبز بتی پر مجھ سے آگے والی گاڑی جسے ایک پینتیس (۳۵) چالیس (۴۰) سالہ شخص چلا رہا تھا آگے بڑھی۔ بائیں طرف سے ایک گاڑی جسے ایک بیس (۲۰) سالہ نوجوان چلا رہا تھا سرخ بتی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڑک عبور کرنے کی کوشش میں تھا۔ مجھ سے اگلی گاڑی والے نے تھوڑا سا موڑ کر گاڑی اس کے آگے کھڑی کر دی کہ وہ غلط اشارے پر گاڑی آگے نہ لا سکے۔ غلط آتی ہوئی گاڑی کو روکنے کے لیے چوک میں موجود وارڈن بھی بھاگتا ہوا آیا کہ اسے روکے، مگر اسی اثنا میں اس گاڑی کا ڈرائیور بیس سال جوان باہر نکلا۔ تیزی سے راستہ روکنے والی گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیور کو بھرپور گالیاں اور دھمکیاں دیں اور گاڑی کو آگے سے ہٹانے کا کہا۔

وارڈن نے نوجوان کو دوسرے ڈرائیور کو گالیاں دینے کی بجائے اپنی گاڑی پیچھے کرنے کو کہا۔ نوجوان نے گاڑی پیچھے ہٹانے سے انکار کیا اور وارڈن سے اُلجھ گیا۔ نوجوان کو وارڈن سے اُلجھتے دیکھ کر گاڑی سے اس کا باپ اور دو چھوٹے بھائی جن کی عمریں کوئی پندرہ، بیس کے درمیان تھیں تیزی سے باہر نکلے۔ نوجوان کے باپ کے دائیں ہاتھ میں سگریٹ سلگ رہا تھا۔ اس نے بائیں ہاتھ کا مکمل استعمال کرتے ہوئے وارڈن کو تین چار تھپڑ لگا دیے۔ کچھ اور لوگ آگے بڑھے تینوں نوجوان اور ان کا باپ پوری بدتمیزی سے ہر ایک سے پیش آرہے تھے۔ ان کا راستہ روکنے والی گاڑی کا ڈرائیورگالیاں کھانے کے بعد کسی کو فون پر کہہ رہا تھا کہ سب کام چھوڑ کر سبھی لوگ یہاں پہنچو، جھگڑا ہو گیا ہے۔ ٹریفک وارڈن فون پر کسی کو صورت حال بتا رہا تھا۔ گاڑیوں کے ہارن پوری طرح بج رہے تھے کہ شاید شور مچانے سے راستہ مل جائے۔ مگر یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ جب تک کہ ٹریفک کی اس ہومیوپیتھک پولیس کی مدد کے لیے اصلی پولیس نہ آجائے۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ معاملہ کچھ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور ابھی راستہ ملنے کی امید کم ہے۔ اس لیے کوشش کر کے گاڑی بائیں طرف والی کم مصروف سڑک پر ڈالی اور نسبتاً لمبے اور محفوظ راستے سے منزل کی طرف چل پڑا۔

اپنی سوچوں میں مگن ابھی میں نے بمشکل آدھا کلومیٹر فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک نئی نویلی ہنڈا سِوک جس پر APL-2015 کی جعلی پلیٹ لگی تھی مجھے اوور ٹیک کرتی ہوئی آگے بڑھی۔ چلانے والا اسے زگ زیگ انداز میں چلا رہا تھا۔ گاڑی تیزی سے پیچھے سے آئی اور گھومتی ہوئی چھونے کی لگن میں میری گاڑی کی طرف بڑھی۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے تیزی سے بریک لگائی۔ میری یہ کاوش کامیاب رہی اور وہ میری گاڑی کو چھونے کی ناکام حسرت میں آگے بڑھ گئی۔ میں نے دیکھا گاڑی میں چار نوجوان سوار تھے۔ چلانے والے سمیت مستی میں پوری طرح ہر ایک اُچھل کود کر رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں انہیں کوسنے لگا کہ کس قدر احمق ہیں۔ ہوا کی رفتار سے گاڑی بھگا بھی رہے ہیں اور اس پر بدمستی کے عالم میں بہت زیادہ اُچھل کود۔ انہیں حادثوں سے بھی خوف نہیں آتا۔ مگر نوجوان ہر خطرے سے بے نیاز انتہائی تیز رفتاری سے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گاڑی لہراتے اُچھل کود میں مصروف گویا جہاز چلا رہے تھے۔ یکدم گاڑی بے قابو ہو گئی اور سڑک کے کنارے گیارہ ہزار وولٹ کی بجلی کی لائن کے کنکریٹ کے کھمبے سے جا ٹکرائی۔ شدید دھماکہ ہوا۔ کھمبا ٹوٹ کر ایک طرف جھکا۔ میں نے گھبرا کر گاڑی سائیڈ پر فٹ پاتھ پر چڑھا دی۔ یہ رب العزت کا احسان تھا کہ کھمبا ٹوٹنے اور لٹک جانے کے باوجود کوئی تار نہیں ٹوٹی۔ گاڑی کی چھت ٹوٹ کر ایک طرف پڑی تھی۔ شیشے ٹوٹ چکے تھے، کوئی چیز سلامت نہ تھی۔ لوگ مدد کو بھاگے۔ دو نوجوان شدید زخمی تھے، ایک کچھ بہتر تھا، چوتھے کو معمولی زخم آئے تھے۔ چوتھے کو چھوڑ کر باقی تینوں کو فوری ہسپتال بھیج دیا گیا۔ چوتھا گاڑی سے اپنے اور ساتھیوں کے موبائل سمیت بچی کھچی چیزیں سمیٹنے لگا۔ حادثے کا شکار یہ چاروں بگڑے نوجوان بھی شاید کسی ایسے ہی بگڑے ماں باپ کی اولاد تھے جو بچوں کی ہر غیراخلاقی حرکت کو نظر انداز کر دینا اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔

میں گاڑی چلاتے ہوئے ان دو چشم دید واقعات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ باپ جو ٹریفک کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے اور دوسروں کے ساتھ بدکلامی کرنے والے بیٹے کی حمایت میں ٹریفک وارڈن کو تھپڑ مارنے آیا وہ اپنے بیٹے کا ہمدرد تھا یا دشمن؟ عجیب بے حس آدمی تھا کہ بیٹے کی حرکت پر شرمسار ہونے کی بجائے اس کا ساتھ دے کر ایک جرم عظیم کا مرتکب ہو رہا تھا۔ اولاد اگر غلط حرکت کرے، قانون اور معاشرتی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری نہ کرے، اچھا انسان اور اچھا شہری ہونے کی نفی کرے تو والدین کا فرض ان کی اصلاح ہوتا ہے اور جو والدین ایسا نہیں کرتے، بچوں کو غلط ہلہ شیری دیتے ہیں ان کی قانون شکنی، بد اعمالی اور بدتمیزی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہ بچوں سے دشمنی ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے پورے خاندان کی تباہی اور بربادی کو دعوت دیتے ہیں۔ اپنے روّیے میں گھٹیا پن کے اعتبار سے باپ بیٹے میں بیٹا اگر سیر تھا تو باپ سوا سیر۔ شاید غیرقانونی اور غیر اخلاقی انداز سے کمائی ہوئی دولت بھی گمراہی کا سبب ہوتی ہے اور اس حرام کی دولت کا نشہ اپنے بے جا خمار کیسبب انسان کو اخلاقی اعتبار سے اندھا کر دیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ابھی تہذیب سے پوری طرح آشنا ہی نہیں ہوئے۔ تعلیم سے ابھی کوسوں دور ہیں۔ یہی وجہ ہمارے تمام مسائل کا سبب ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500641 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More