ماں

ماں کا لفظ ادا کرتے ہی ذہین محبت، شفقت اوراخلاق کے گہرے تصور میں ڈوب جاتا ہے ۔ماں کا تصور ہر ایک کو بچے کی طرف لے آتا ہے ۔ماں کی گود میں ایسا سکوں آتا ہے کہ جیسے لمبی اورتھکاورہنے والی مسافت طے کرتے ہوئے ایک درخت کی ٹھنڈی اورگھنی چھاؤں میں آبیٹھا ہو۔ماں کی محبت اور بے لوث چاہت زندگی کے تپتے صحرا میں ایک محفوظ پنا ہ گاہ فراہم کرتی ہے ۔ جب بچہ بھوک سے روتا ہے تو ماں کی چھاتیوں سے اترنے والا دودھ اس کی تسلی کے لئے کافی ہو تا ہے لیکن کوئی بوتل دودھ کی کمی کو پور انہیں کر سکتی دنیا میں ہر بچے کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ سوتے وقت اسے ماں محبت اور شفقت سے تھپتھپا ئے اور ماں کے تھپتھپائے سے بچے کو جو روحانی تسکین ملتی ہے ۔اس کی اندازہ الفاظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا۔

ماں کی محبت بھری لوری بچے کے لئے جو سکوں پیدا کرتی وہ دنیا کے تمام گلو گا رائیں ملکر بھی اپنی آواز میں وہ سُر پیدا نہیں کر سکتی جو اللہ نے ایک ماں کی آواز میں محفوظ رکھی ہے ۔ماں دنیا کا سب سے سچا رشتہ ہے۔ قدرتی طور پر بھی بچے کا روجحان زیادہ تر ماں کی طرف ہوتا ہے ۔بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو تا ہے ۔ماں کی محبت کا استعارہ ممتا کا گہوارہ اورمذاہب عالم کا روشن سیارہ ہے ۔

آپ نے کسی بچے کو درد کے مارے یا چوٹ لگ جانیکی وجہ سے روتا دیکھا ہو گا ۔لیکن جب وہ ماں کی آغوش میں جا کر سینے سے لگ جاتا ہے ۔تو اپنا سارا دور اور کربھول کر خاموش ہو جا تا ہے اور گہری نیند میں سو جاتا ہے ۔ جب بھی بچہ روتا ہے تو اس کی ماں کو تلاش کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے قدرت یہ انمول جذبے ماں اور بچے کے خون میں ہمیشہ کے لئے شاملکر دیتا ہے ۔

اسلامی معاشرے میں ماں کو اہم مقام حاصل ہے لفظ راحت و رحمت کا سرچشمہ ہے ۔ ماں کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خود خدا تعالی خالق ( بندے ) سے ستر ماؤں کے پیار کی تشبیہ دیتا ہے ۔گویا اللہ نے بھی بندے سے اپنی محبت کا اظہار ماں کی ممتا کو ہی پیمانہ بنا یا ہے-

پاکستا ن میں تعلیمی شعور نہ ہونے کے باوجود پاکستان کی مائیں چند آمود حکا یتوں اور دانا قوانین کی علم و دانش سے بھر پور باتوں کی مدد سے اولاد کی اچھی تربیت ایک خصوصی عزت و احترم کے مستحق ٹھہرے ۔ گھروں کا سارا نظام ماؤں کے کنٹرول میں ہوتا ہے ۔ماں گھر کی ایڈمنسٹر ہوتی ہے ۔ بچپن سے لے کر جوانی تک بچے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں زیادہ کردار ماں ہوتا ہے ۔ماں ہی وہ ہستی ہے جس نے بنی نوع انسان کی نسل کو آگے بڑھایا ۔بچہ سب سے پہلے اپنی ماں کی پہچان کرنے کے لئے اپنی ماں کے لمس کو محسوس کرتا ہے ۔آج کی پڑھی لکھی ماؤں اور اس سے پہلے ان پڑھ ماؤں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔لیکن جو محبت پیار پُرانی ماؤں میں نظر آتا ہے وہ آج کل کی ماؤں میں نظر نہیں آتا۔

پُرانی مائیں صبح نماز کے وقت اٹھ کر نمازکے بعد قرآن کی تلاوت کرتی تھیں اور اگر جسے قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا وہ بھی بسم اللہ بسم اللہ پڑھا کر قرآن پاک پڑھ لیتی تھی ۔قرآن پاک کی تلاوت سے فارغ ہو کر اپنے بچوں پھوک مارتی تھی اور نیت یہ ہو تی تھی کہ پرورگار ان کو نیک اور سیدھے راستے پر چلائے ۔ پھر وضو کی حالت میں صبح کا ناشتہ بناتی اور اپنے ہاتھوں سے بسم اللہ پڑھ کر اپنے بچوں کو کھلاتی ۔دودھ پلاتے وقت با پردہ جگہ کا انتخاب کرتیں پھر بچے کو سکول جانے سے پہلے نصیت کرتی اور وہ بچہ اپنے ذہین میں ہمیشہ کے لئے نشین کر لیتا ۔اور یہی وجہ تھی کہ بچہ پر خلوص اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔
لیکن کیا آج کی مائیں ایسا کرتی ہیں ۔ نہ صبح اٹھنا اور نہ نماز روزے کا پتہ ، آج کی ماؤں کااپنے بچے سے زیارہ ٹیلی ویژن پر دیھان رہتا ہے ۔آج کی عورتوں نے ٹیلی ویژن سے ہی سب کچھ سیکھا ہے ۔بچے کے پرورش کے لئے خود نہیں بلکہ ایک نوکرانی کا انتخاب کیاجاتا ہے ۔ کھانا پکانا ہے تو پہلے ٹیلی ویژن سے سیکھنا پڑے گا۔ اپنے آپ کو سنگھارنا ہے تو وہ بھی ٹیلی ویژن ہی کے ذریعے ۔ آپ کی ماؤں کے دل سے بچے کے لئے پیار، محبت، ترپ،درد سب کچھ ختم ہو چکا ہے ۔ جس بچے نے اپنی ماں کی گود کی جگہ جھولے اور لوری کی جگہ میوزک سننا ہے اس کو ماں کی آغوش کو سکون بھری نیند سونے سے محرم ہے وہ ماں کی ممتا کو کیسے سمجھ سکتا ہے ۔ جس نے وہ سکون کا مزہ پھر والدین اپنے بچوں سے امیدیں کیوں لگائے بیٹھے ہیں ۔ مجھے یہاں نپولین کا قول یاد آجاتا ہے ۔ ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دو ں گا ‘‘
سخت راستوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے
یہ میری ماں کی دعا ؤں کا اثر لگتا ہے

اک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے اک بار کہا تھاڈر لگتا ہے مجھے
ch tayyab gujjar
About the Author: ch tayyab gujjar Read More Articles by ch tayyab gujjar: 18 Articles with 21865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.