ثقافتی تخریب کاری

ہم سب کے ذہنوں میں دن رات یہ سوال اٹھتا ہے:کہ عالمی استکبار ہماری تہذیب و ثقافت کے خلاف تخریبی رویہ اختیار کرنے کے لئے کیوں کمر بستہ ہے اور ہمارے مذہب و تمدن کو نابود کرنے کی کوششیں کیوں ہو رہی ہیں؟

یہ سوال، دیکھنے میں بہت اچھا اور مناسب لگ رہا ہے، کیوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ استکباری جنگ کا منصوبہ بنانے والے لوگوں اور عالمی استکبار کے نزدیک، ہمارے تمدن اور اسلامی ثقافت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کے لئے یہ بات کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ وہ اس کے بدلہ میں کوئی تہذیب و ثقافت پیش کریں؛ بلکہ وہ تو سرے سے کسی تہذیب و ثقافت اور تمدن کے پیشوا اور امن کے سفیر ہی نہیں ہیں کہ کسی تمدن کے بارے میں سوچیں۔ ان میں برائے نام بھی تہذیب نہیں پائی جاتی ہے کہ ان کو کسی تمدن اور تہذیب کے مٹانے کے بارے میں غور و خوض کی ضرورت پڑے، اس )تہذیب و ثقافت اسلامی ) کے بدلہ کسی اور تمدن اور ثقافت کو لانے کی سو چیں؛ بلکہ یہ لوگ ہمیشہ مال و دولت اور سرمایہ کو ہر ممکن طریقہ سے ڈھونڈھ نکالنے میں خاصی مہارت کے حامل، شباب و کباب کے متوالے، سنہرے اور کالے سونے کو ہر جگہ ،اور ہر صورت اور ہر قیمت پر اکٹھا کرنے کی جستجو اور تلاش میں رہتے ہیں۔

جو بھی شرق و غرب کے بارے میں شناخت رکھتا ہے، بغیر کسی چوں چرا کے اس حقیقت کو جانتا ہے۔ اسے بھی چھوڑیں، وہ سادہ لوح لوگ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ مغرب کا سرمایہ داری اور شرق کا اشتراکیت کا نظام (کمیونزم) یہ دونوں ہماری زندگی میں انسانی اور اخلاقی کردار ادا کرتے ہیں! وہ بھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ در حقیقت، غرب و شرق اس ملت اسلامیہ کی زندگی میں مذہبی خراب کاری، تباہی اور ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑنے والے ارتباطی پلوں کو ڈھانے اور بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے سے، کن منافع اور مصالح کی تلاش میں ہیں؟

میری نظر میں یہ قضیہ بھی ان کی اسی سنہرے اور کالے سونے کو لوٹنے، اس کو غارت کرنے اور اس کو ہتھیانے کے لئے دانت تیز کرنے کی طرف پلٹتا ہے کہ سنہرے اور کالے سونے پر قبضہ جمالیں۔
بیشک اگر مذہب اور دین کی بنیادیں گہرائی میں اتری ہوئی ہوں تو اس کے ذریعہ امت مسلمہ ہر قسم کی غارت گری، بربادی اور نظامی حملوں کاقطعی طور پر مقابلہ کی صلاحیت اور استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ خاصیت، ہر گہری جڑ رکھنے والی تہذیب و تمدن میں پائی جاتی ہے۔ (یعنی جو قوم و ملت ان صفات اور خصوصیات کی حامل ہو اس میں ان صلاحیتوں کا پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ مترجم)

اسی بناپر، جب تک ایک امت اپنے گذشتہ اور اپنے تہذیب و ثقافت اور تمدن سے باہمی ربط رکھے اور اس سے منسلک رہ کر اپنی تاریخی اور ثقافتی شخصیت کی طرف متوجہ رہے تو اس کے بارے میں آگاہی ضرور حاصل کرلے گی۔ وہ قوم ہر قسم کے حملے، ناجائز قبضے اور غلط فائدے اٹھانے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اجنبی لوگوں کے سیاسی اور فکری نفوذ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑی ہوگی؛ یعنی فوراً قیام کرنے پر آمادہ ہو جائے گی اور اس طرح سے فتح و ظفر اور کامیابی اس کے قدم چومنے لگے گی۔

مغربی افراد، اپنا تسلط جمانے اور مسلمانوں کے درمیان نفوذ پیدا کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان وارد ہو گئے، تاکہ ان کو ہر طرف سے لوٹیں اورطرح طرح کے بہانے بنا کر ہر ممکنہ تدبیر کے ذریعہ ان کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ البتہ مغربی دنیا یہ جانتی ہے کہ امت مسلمہ کسی بھی اجنبی اور غیرکی دخالت کو برداشت نہیں کرسکتی۔ لہٰذا وہ ہر قسم کے قبضہ اور تسلط کے مقابلہ میں قیام کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ وہ قوم اس نکتہ کی طرف متوجہ ہے کہ اس میں پائیداری، استحکام اور استواری کی بنیاد، دین، تہذیب و ثقافت اور عقل و خرد کی سوغات دینے والا صرف اسلامی تمدن ہی ہے، جو اس قوم کے دل و دماغ میں راسخ ہے۔ لہذا اس بات کا امکان بھی نہیں پایا جاتا ہے کہ اجنبی لوگ مسلمانوں کے خزانوں اور ان کے مال و دولت کی طرف تیکھی نظر سے دیکھ لیں یعنی ان کی دولت پر ڈاکہ ڈالنے کامنصوبہ بنائیں، لیکن اس مقام پر یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ امت مسلمہ پہلے ہی سے اپنے آپ اور اپنے اولاد کی افکار کو اپنے قبضہ میں لے کر اس پر کڑا پہرا لگائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس بات کا بھی امکان نہیں پایا جاتا کہ مسلمانوں کے مال و دولت اور ثروت کی طرف کوئی اجنبی، غلط فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی راستہ کھوج نکالے؛ اس سے پیشتر ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے راستہ کو دین اور مذہب کے اصولوں پر استوار کر لیں اور اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے، احساس ذمہ داری کے تحت اپنی وراثتوں کی حفاظت کریں۔

عالمی سامراج و استکبار کے منصوبوں کو بروئے کار لانے اور ان کو ہر قیمت پر کامیاب بنانے والے، ان تمام حقیقتوں کو بخوبی جانتے ہیں اور اس مشکل کو بر طرف کرنے اور اس استقامت سے مقابلہ کی فکر کو جڑ سے مٹانے کے لئے بڑی ہی سنجیدگی سے مشغول ہیں؛ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ اور ہر لمحہ اپنی تحریک کی کامیابی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا بھی عینی فرض بنتاہے کہ وہ دشمن اور اس کے حربہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوں اور ہر وقت اپنے اس ابدی اور ازلی دشمن سے مقابلہ کے لئے تیار رہیں ۔
حسن جمشید
About the Author: حسن جمشید Read More Articles by حسن جمشید: 5 Articles with 8149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.