عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (20)
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ ؓ بیمار
ہوئیں تو شیرِ خدا نے آپ ؓ سے فرمایا ۔ کچھ کھانے کو دِل کرتا ہے تو بتائیں
سیدہ فاطمہ ؓ نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں کرتا لیکن حضرت علی ؓ نے جب بار
بار اصرار کیا تو سیدہ فاطمہ ؓ جگر گوشہ رسول ﷺ نے عرض کی میرے بابا جان نے
مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ ؓ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں ممکن ہے آپ ؓ اسے
پورا نہ کر سکیں تو آپ ؓ کو رنج ہو اِس لیے میں کچھ نہیں کہتی ۔ لیکن جب
حضرت علی ؓ نے بار بار کہا اور سیدہ فاطمہ ؓ کو قسم دی تو بی بی صاحبہ نے
انار کا ذکر کیا ۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان کبھی لڑائی نہ
ہوئی اور دونوں نے خوشگوار زندگی بسر کی ۔ آپ ؓ بے پناہ عبادت گزار تھیں شب
و روز بے شمار نمازیں پڑھا کرتی تھیں اپنے بابا جان کے ہمراہ 10ہجری میں
آخری حج فرمایا ۔ سید کائنات ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جنت میں عورتوں کی
سردار فاطمہ ؓ ہوں گی ۔آپ ؓ کی رضا سے خدا راضی ہوتا ہے جس نے آپ ؓ کو ایذا
دی اس نے رسول ﷺ کو ایذا دی سرور کائنات ﷺ اپنی بیٹی سے بہت زیادہ محبت
کرتے تھے جب نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا تو اُس وقت سیدہ حضرت
زینبؓ کی عمر مبارک دس سال ، سیدہ رقیہ ؓ کی عمر مبارک سات سال، سیدہ حضرت
ام کلثوم ؓ کی عمر مبارک چھ سال اور حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کی عمر مبارک پانچ
سال تھی ۔ یہ سب شہزادیاں اپنے بچپن کے سنہرے دور سے گزر رہیں تھیں ۔ جب
بھی اپنے والد ماجد سے مشرکین مکہ کی زیادتیوں اور بد سلوکیوں کے متعلق
کوئی بات سنتیں تو بے چین ہو جاتیں ۔
تاجدار انبیاء ﷺ کی تمام صاحبزادیاں ؓ عنفوان شباب میں ہی وصال بحق ہو گئیں
بوقت وصال سیدہ حضرت زینبؓ کی عمر مبارک اکتیس سال‘ سیدہ حضرت رقیہ ؓ کی
عمر بائیس سال ‘سیدہ حضرت ام کلثوم ؓ کی عمر مبارک اٹھائیس سال اور سیدہ
فاطمہ ؓ کی عمر مبارک چھبیس سال تھی ۔حضرت فاطمہ ؓ کیونکہ سب سے چھوٹی تھیں
اور زیادہ عرصہ بابا جان کے سایہ رحمت میں رہیں آپ چھوٹی اور لاڈلی بیٹی
تھیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے فاطمہ ؓ میری جان کا ٹکڑا
ہے سرور دو عالم ﷺ اکثر نمازفجر کے بعد سیدہ کے گھر جا کر آواز دیا کرتے
تھے اور فرط مسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا نے تمھیں ہر طرح کی گندگی سے
پاک کر دیا ہے ۔خدا کے نزدیک سیدہ فاطمہ ؓ کا بہت بڑا مقام تھا بار بار یہ
دیکھا گیا کہ جب حضرت سیدہ ؓ نماز میں مشغول ہوتیں تو فرشتے ان کے بچوں کی
نگہبانی کیا کرتے ‘جھولا جھلاتے اور جب آپ ؓ سو جاتیں یا قرآن مجید کی
تلاوت فرماتیں تو فرشتے ان کی چکی پیسا کرتے آپ ؓ تھیں ہی بہت عظمت والی جب
بچی تھیں تو تاجدار انبیاء ﷺ کے زخم دھویا کرتی تھیں اُنہیں حوصلہ دیا
کرتیں تھیں ۔ جب لڑکی اور بیوی بنیں تو اپنے وقت کے سب سے بہادر شخص شیر
خدا ؓ کو زرہ بکتر پہناتی تھیں اور جب خاتون اور ماں بنیں تو تاریخ عالم کے
سب سے بڑے شہید کی پرورش کیا کرتی تھیں سیدہ فاطمہ ؓ جس نے زندگی سے معاشرے
سے لوگوں سے عمر بھر کچھ نہیں مانگا نہ لیا بلکہ زندگی کے ہر دور میں صرف
دیا ہی دیا ۔زمین اپنے محور پر گھومتی رہی دن رات میں ڈھلتے چلے گئے یہاں
تک کہ تاجدار کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کے بابا جان کا رفیق اعلی کی طرف جانے کا
وقت آگیا۔جب بابا جان صاحب فراش ہوئے تو لاڈلی بیٹی کا دن رات کا چین ختم
ہو گیا۔ سیدہ کے چہرہ مبارک پر اداسی اور غم کی پر چھائیوں نے ڈیرے ڈال لیے
۔ بات بات پر روپڑتیں رخساروں پر آنسوڈھلک آتے ۔ سید کائنات ﷺکو جب بیٹی کی
حالت ِ غم کا پتہ چلا وصال سے ایک دن پہلے قبل سیدہ فاطمہ ؓ کو اپنے پاس
بلایا اور کان میں کچھ فرمایا تو سیدہ فاطمہ ؓ پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں ۔
رحمت مجسم ﷺ نے جب دیکھا کہ لاڈلی بیٹی کی حالت غیر اور غم سے نڈھال ہو گئی
ہے اور آنسو ساون کی برسات کی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہے تو پھر قریب
بلایا اور کان میں کوئی اور بات کی تو لاڈلی بیٹی فوری ہنس پڑیں ۔ حضرت
عائشہ صدیقہ ؓ نے جب بعد میں وجہ پوچھی تو سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا پہلی
مرتبہ ابا جان ﷺ نے فرمایا میں اِس مرض سے اپنے خداکے پاس چلا جاؤں گا تو
میں رونے لگی تو دوسری مرتبہ بابا جان ﷺ نے فرمایا میرے خاندان میں تم سب
سے پہلے آکر مجھ سے ملو گی تو میں خوشی سے ہنس پڑی ۔وصال کے قریب جب نبی
کریم ﷺ درد اور بیماری سے بار بار بے ہوش ہو جاتے تو سیدہ فاطمہ ؓ اپنے
بابا جان ﷺ کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتیں ‘جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا بے اختیار
مبارک ہونٹوں سے نکلتا ہائے میرے باپ کی بے چینی سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد
فرمایا تمھارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہو گا ۔ جب تاریخ عالم کی الم ناک
ترین ساعت طلوع ہوتی اور محبوب خدا ﷺ اپنے رفیق اعلی کے پاس تشریف لے گئے
تو لاڈلی بیٹی پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ‘عظیم ترین سایہ سر سے اُٹھ گیا‘ شدت
کرب نے بے حال کر دیا آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا لاڈوں سے پلی بیٹی
یتیم ہو گئی ۔حالت غم میں لبوں پر یہ الفاظ بکھر گئے یااتباہ یا اتباہ آپ ﷺ
نے حق کے بلاوے کو قبول فرمایا آپ ﷺ نے جنت میں اقامت فرمائی و اتباہ آپ ﷺ
کی رحلت کی خبر جبرائیل امین ؑ کو کون پہنچائے گا واہ اتباہ آپ ﷺ کے بعد
وحی کس پر لائے گا اے اﷲ فاطمہ ؓ کی روح کو حضور اکرم ﷺ کی روح سے ملا دے ۔
اے اﷲ مجھے حضور اکر م ﷺ کا دیدا ر نصیب فرما اے اﷲ اپنے حبیب ﷺ کے ثواب سے
دور نہ فرما اور روز قیامت حضور ﷺ کی شفاعت سے محروم نہ کرنا۔ جب عاشقان
رسول رحمت دو جہاں ﷺ کی تدفین کے بعد فارغ ہوئے تو سیدہ فاطمہ ؓ نے حضرت
انس ؓ سے پوچھا کیا تم کو رسول اﷲ ﷺ پر خاک ڈٖالتے اچھا معلوم ہوا یہ سننا
تھا کہ صحابہ کرام دردِ فراق سے مثل ماہی بے آب تڑپ اٹھے ۔حضرت سیدہ ؓشادی
کے بعد جب بھی اپنے بابا جان سے ملنے آتیں تو جدا گانہ رنگ اور چہرے مبارک
پر خوشی کے رنگ بکھرے ہوتے لیکن آج بابا جان کے جانے کے بعد جب بی بی پاک ؓ
تصویر غم بنی لرزاں و ترساں حجرہ حضرت عائشہ ؓ میں داخل ہوئیں تو ایک تا زہ
تربت تھی جو آنکھوں کے سامنے تھی ضبط کا بندھ ٹوٹ گیا دیوانہ وار بڑھ کر
مٹی مبارک کو اُٹھا کر آنکھوں سے لگا یا ۔آنکھوں سے ساون بھادوں کی طرح
آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی بابا جان کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور مبارک
لبوں پر یہ اشعار مچل گئے ۔
ترجمہ: جس نے ایک مرتبہ بھی خاک پائے احمد مجتبٰی ﷺ سونگھ لی تعجب کیا ہے
اگر وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے وہ مصائب جو مجھ پر ٹوٹے ہیں یہ
مصیبتیں اگر دنوں پر ٹوٹتیں تو ایام راتوں میں تبدیل ہو جاتے ۔
بی بی سیدہ فاطمہؓ حسرت و محبت سے مزار اقدس کو آنسوؤں بھری آنکھوں سے دیکھ
رہی تھیں کہ اچانک آپؓ کے مبارک ہونٹوں پر فاطمہ بنتِ الاحجم ؓکے یہ اشعار
آگئے ۔
ترجمہ : آپ ﷺ میرے لیے ایک ایسے پہاڑ تھے جس کے سائے میں میں پناہ گیر ہوتی
تھی آپ ﷺ نے مجھے چلچلاتی دھوپ میں چلنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا آپ ﷺ کی حیات
مبارکہ میں عزت و عظمت کی حا مل تھی اور وسیع بیا بانوں کو بلا خوف تنہا طے
کر جاتی تھی آپ ﷺ میری قوت اور پناہ گا ہ تھے آج میں اتنی بے کس بے سہارا
ہو گئی ہوں کہ کمترین دشمن سے بچاؤ کے لیے بھی فکر مند ہوں اور ظالم سے
محفوظ رہنے کے لیے میرے پاس کوئی ڈھال نہیں سوائے اپنے دست ناتواں کے جب
قمری کے ٹہنی پر بین سنتی ہوں تو پکار اُٹھتی ہوں کہ ہائے یہ صبح کیسی
غمناک ہے ۔ |
|