تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے اور
تعلیم یافتہ ہونے سے قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں تعلیم نہیں ہوتی وہ معاشرہ،
ملک پستی کی طرف جاتا ہے۔ اسلام میں تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے
جب کہ پہلی وہی کا آغاز بھی غار حرا میں آپﷺ پر ’’اقرا‘‘ سے ہوا اور انسان
کے لیے تعلیم کی فرضیت کو واضح کر دی۔ دور حاضر میں اس تعلیم سے بالکل
کنارہ کشی اختیار کی جا چکی ہے یہ وہ تعلیم ہے جس کا قرآن میں ذکر کیا گیا
ہے۔ جب کہ عصر حاضر میں دی جانے والی تعلیم قرآنی تعلیمات سے یکسر مختلف ہے۔
ہمارے معاشرے میں تعلیم کا کیا کردار ہے؟ معاشرتی تعمیر میں تعلیم یافتہ
افراد کا کیا کردار نظر آتا ہے؟ تعلیمی میدان میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
دیکھا جائے تو ہمارا ملک تعلیمی بدحالی کا شکار ہے ، بد قسمتی سے دیگر
معاملات کی طرح ہمارے علمی معاملات میں بھی سیاسست کی نظر ہیں، اگر کوئی
حکومت تعلیم کے میدان میں کوئی عملی اقدامات کرتی ہے تو بعد میں آنے والی
حکومت اسے سرے سے ختم کر کے اپنے نئے تجربات شروع کر دیتی ہے۔ یہاں تعلیم
کی کمی وجہ سے جہالت زیادہ ہے۔ عوامی شعور احساس ذمہ داری نہ ہونے کے برابر
ہے۔ تعلیم ہی سے شعور پیدا ہوتا ہے۔جس کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں
معاشرتی بیماریاں عام ہیں۔ میں نے اپنے ملک میں علمی میدان میں کمی پر غور
کیا مجھے ایک حدیث نبویﷺ ملی مجھے بہت اچھی طرح سمجھ آیا کہ ہمارے معاشرے
میں اتنی جہالت کی کیا وجہ ہے۔ سیدنا ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے
فرمایا، اس ہدایت اورتعلم کی مثال جس کے ساتھ اﷲ نے مجھے بھیجا، اس بارش کی
مانند ہے جو کسی زمین پر برسی۔ اس زمین کا وہ حصہ جو عمدہ تھا، اس نے پانی
کو اپنے اندر جذب کیا اور گھاس اور دیگر جڑی بوٹیاں اگائیں اور اس کا ایک
حصہ جو سخت تھا اور پانی کو جذب نہیں کر سکا، اس نے پانی کو اکھٹا کر لیا،
تو اس کے ذریعے سے اﷲ نے لوگوں کو نفع دیا، انہوں نے خود بھی پیا، جانوروں
کو بھی پلایا اور کھیتوں کو بھی سیراب کیااور وہ بارش زمین کے زمین کے ایک
اور حصے کو بھی پہنچی، جو چٹیل تھا (ایسا ہموار اور صاف جہاں پانی ہی نہ
ٹھرے) جس نے پانی اکھٹا کیا اور نہ کوئی گھاس اگائی۔ پس یہی مثال اس شخص کی
ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور اس ہدایت سے اﷲ نے اسے نفع پہنچایا، جس
کے ساتھ اﷲ نے مجھے بھیجا، پس اس نے خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو
بھی سکھلایا اور اس کی مثال، جس نے اس کی طرف سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا
اور نہ اﷲ کی اس ہدایت کو قبول کیا جس کے ساتھ اﷲ نے مجھے رسول بنا کر
بھیجا۔ (بخاری و مسلم)
اس روایت کے پیش نظر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں نہ ہی تعلیم کے حوالے سے
کوئی ایسی پالیسی تیار کی جاتی ہے جس سے تعلیمی ترقی ممکن ہو جہاں تعلیم
حاصل کرنے والا اپنا علم دوسروں تک پہنچائے نہ ہی ہماری عوام تعلیم کی طرف
متوجہ ہے۔ اگر کہیں تعلیم پائی بھی جاتی ہے تو وہاں تعلیم کا معیار ہی ایسا
ہے کہ طالب علم اسکول کا سال بھر منہ ہی نہیں دیکھتا اور سال کے آخر میں
نقل کر کے پاس ہو جاتا ہے ایسا طالب علم کیا تعلیم پھیلائے گا یا کیسی
تبدیلی لائے گا؟ اور اگر کوئی تعلیم میں دلچسپی رکھتا بھی ہے تو تعلیم اتنی
مہنگی ہے کہ غریب آدمی کماکر کھائے یا بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرے؟
نتیجہ جہالت بنتا ہے اسی جہالت کی وجہ سے معاشرہ بد امنی کی طرف گامزن ہے۔
شعور نہ ہونے کی وجہ سے آبادیاں گندگی سے بھری ہوئی ہیں جگہ جگہ کچرے کے
ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ ہر سال تعلیمی بجٹ کی منظوری ہوتی ہے۔ تعلیمی ادارے
موجود ہیں، لیکن تعلیم کے لیے خاطر خواہ اقدامات کہیں نظر نہیں آتے، بے
شمار اسکول تو ایسے ہیں جن کا اندراج کاغذوں کی حد تک ہے لیکن زمین پر اس
کا وجود نہیں آتا۔ تعلیم کو ایک کھلواڑ بنا دیا گیا ہے۔ جہاں دیہات میں
تعلیمی اداروں کو بیٹھک بنا دیا گیا ہے اور شہروں میں تعلیمی اداروں کے
سامنے کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، مگر حکام کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی
جاتی۔
ہمارے ملک میں 75% بچے اور بچیاں دسویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول
چھوڑ دیتے ہیں جب کہ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے 70% فیصد طالب علم دوسری
جماعت کی انگریزی سے ناواقف ہیں۔ جبکہ طلباء میں نقل کا رجحان بہت زیادہ
ہے۔ نقل عام ہونے کی وجہ سے طلباء پورا سال غیر حاضر رہتے ہیں جب کہ امتحان
آنے پر اساتذہ نقل کروا کر طلباء کو پرچے حل کرواتے ہیں ۔ان گاؤں دیہات میں
طلباء کی اکثریت داخلہ فارم جمع کروانے کے بعد امتحان کی تاریخ آنے پر نقل
کے ذریعے پیپر دینے کی زحمت کرتے ہیں اور اگر کوئی طالبعلم بغیر نقل کے
امتحان دینے کی صلاحیت رکھتا بھی ہو تو محنت کرنے کے بجائے وہ نقل کو ذیادہ
ترجیح دیتا ہے طلباء کی اکثریت ایسی ہے۔ جن کا ذہن بنا ہو ہے کہ اگر بغیر
محنت کیے نقل کر کے پرچہ حل ہو جاتا ہے تو اتنا کچھ یاد کرنے کی کیا
ضرورت۔۔۔! ماضی میں نقل پر ڈگری حاصل کرنے والے طلباء کی اکثریت ایسی ہوتی
ہے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیز میں نہیں جا سکتی ان کا معیار تعلیم
اتنا اچھا نہیں ہوتا جو انہیں آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ پاکستان کے
بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
نوجوانو! تم مستقبل کے معمار ہو، لیکن حالیہ دور میں ان مستقبل کے معماروں
کو نقل کی راہ پر گامزن کر دیا گیا ہے۔ یہی نوجوان جنہوں نے پاکستان کی
ترقی میں کام کرنا تھا، انہیں مستقبل کا چور بنایا جا رہا ہے ، کیا یہی
نوجوان ملک کی تقدیر بدلنے میں کردار ادا کریں گے، جو تعلیم سے ناواقف ہوں
، جنہوں نے نام کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے نقل کرنا سکھائی جا رہی ہو،اور
جنہیں تعلیم کے نام پر رشوت دینا سکھائی جا رہی ہو۔اگر یہی حالت برقرار رہی
تو اس ملک کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔ اساتذہ سے اپیل ہے کہ اپنی
ذمہ داری کا احساس کر تے ہوئے طلباء کی غیر حاضری اور نقل کی روک تھام کے
لیے اپنے فرائض احسن طور پر انجام دیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ دیگر
معاملات کی طرح تعلیم کو اولین ترجیح دے۔ تعلیم کی بہتری کے لیے پالیسی
مرتب کرے تا کہ ایک صحت مند تعلیم یافتہ معاشرے کی تشکیل کی جا سکے اور
شعوری بیداری کو ممکن بنایا جا سکے۔ اور ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن
ہو جائے۔
|