لاہور ڈویژن کے کمشنر نے کہا ہے
کہ کھیلوں کی بقا کی کلید اسکول کی سطح پر کھیلوں کے احیا اور فروغ میں ہے۔
کیونکہ کھیلوں کے سکول کی سطح پر احیا اور فروغ ہی سے نئے اور باصلاحیت
کھلاڑی سامنے آتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے بچوں پر مشتمل بچوں
کی ٹیموں کے مابین میچوں سے بہترین کھلاڑی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جس کے لیے
سکولوں میں گراؤنڈز قائم کر کے بچوں کو مواقع دیے جانے ازحد ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سکول کی سطح پر کھیلوں کی سرپرستی مستقل بنیادوں پر ہونا
چاہیے۔ انہوں نے کھیلوں کے لیے مہیامیدانوں کی نشاندہی کے لیے ایک کمیٹی
تشکیل دی اور اس کمیٹی کو ہدایت کی کہ گراؤنڈز کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اُن
کی بہتری کے لئے تجاویز بھی دی جائیں تا کہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ
سکول کی سطح پر کھیلوں کا احیا اور فروغ بھی ہو سکے۔
یقینا یہ ایک خوبصورت فیصلہ ہے۔ سکول ہر کھیلہی نہیں ہر شعبے کے لیے نرسری
کا کام کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ پچھلے کئی برس سے سکولوں کو نظر انداز کیا
جاتا رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں مَیں کارپوریشن ہائی سکول مزنگ کا طالب
علم تھا۔ آج ایسے سکولوں کو ٹاٹ سکولوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مگر
میں نے آج کے ماڈرن سکول بھی دیکھے ہیں۔ اُس وقت کے ٹاٹ سکولوں کا معیار آج
کے سکولوں سے بدرجہا بہتر تھا۔ ظاہر ہے چمک دمک میں وہ سکول ،ان سکولوں کے
اساتذہ اورطالب علم آج کے سکولوں آج کے اساتذہ اور طالب علموں سے بہت پیچھے
ہیں۔ مگر نظم و ضبط، پڑھائی، کھیلوں اور دیگر ہم نصابی اور غیر نصابی
سرگرمیوں میں آج کے سکولوں سے بہت بہتر تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے سکول میں
فزیکل ایجوکیشن کے دو اساتذہ ہوتے تھے۔ انہیں PT ماسٹر کہا جاتا تھا۔ یہ
دونوں اساتذہ انتہائی متحرک تھے۔ سکول کے وقت میں یہ نظم و نسق کے ذمہ دار
تھے۔ کلاس سے باہر غیر ضروری پھرنے والا بچہ فوری اُن کی گرفت میں ہوتا تھا۔
سارا دن سکول کے چپے چپے کا جائزہ لینا اور ہر اچھی بری صورتحال سے
ہیڈماسٹر صاحب کو باخبر رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔ گراؤنڈ اور سکول کی
صفائی پر نظر رکھنا۔ مالیوں اور صفائی کرنے والوں سے کام لینا یہ سب کام
یہی PT ماسٹر کیا کرتے تھے۔ سکول سے چھٹی ہونے کے بعد کھیلوں کا میدان سجتا
تھا۔ PT ماسٹر صاحب کی اصل ڈیوٹی اس وقت شروع ہوتی تھی۔ سکول میں چاروں طرف
کھیلیں ہو رہی ہوتیں تھیں۔ کہیں کرکٹ اور کہیں ہاکی، کہیں ٹیبل ٹینساور
کہیں بیڈمنٹن۔ بچے بڑے ذوق اور شوق سے حصہ لیتے۔ کھیلوں کا سبھی سامان سکول
کی طرف سے فراہم ہوتا۔ کھیلوں کا بہت معمولی بجٹ ہوتا تھا مگر سامان کی
فراہمی میں کبھی رکاوٹ نہ آتی تھی۔ ہیڈماسٹر صاحب یا سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب
ہفتے میں ایک دو دفعہ چکر لگا کر بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ وہ کچھ عرصہ
باقاعدہ گراؤنڈ میں موجود رہتے اور ہر بچے کی کارکردگی کا خود جائزہ لیتے۔
مہینے میں ایک آدھ دفعہ سکول کے مین دروازے پر جو سکول کے اوقات میں بند
رہتا تھا۔ دستک ہوتی، چوکیدار جھانکتا اور فوراً تیزی سے دروازہ کھول کر
آنے والے شخص کو سیلوٹ کرتا اور اس کی سائیکل تھام لیتا۔ آنے والا مسکرا کر
سلام کا جواب دیتا۔ چوکیدار سائیکل سنبھال کر دروازہ بند کرتا اور پوری
ہوشیاری سے دروازے پر پہرہ دینے لگتا۔ سائیکل پر آنے والے شخص نے پینٹ بو
شرٹ زیب کی ہوتی اور وہ سیدھا سکول کا جائزہ لینے چل پڑتا۔ یہ آنے والے
صاحب انسپکٹر آف سکولز تھے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں سائیکلوں کا دور تھا اور
چیف سیکرٹری سمیت ہر شخص اپنی نئی نویلی اور اچھی سی سائیکل پر اپنے دفتر
آتا تھا۔ انسپکٹر صاحب کی آمد کا سن کر ہیڈماسٹر صاحب تیزی سے اُن کے پاس
پہنچتے اور ہمراہ ہو جاتے۔ انسپکٹر صاحب سکول کا تفصیلی معائنہ کرتے۔ ایک
ایک شخص کی کارکردگی کا جائزہ لیتے۔ غسل خانوں کی صفائی، سٹور میں ضروری
اشیاء کی موجودگی، گراؤنڈ کی صورتحال کہ ہموار ہے یا نہیں، بلڈنگ کہیں سے
مخدوش تو نہیں اور پھر کلاسوں میں اساتذہ اور بچوں کی کارکردگی۔ یہ سب کچھ
دیکھنے کے بعد ہر طرح کے احکام وہیں جاری کرتے۔ انداز گو بڑا سادہ تھا، مگر
کامیاب تھا۔ اچھے طالبعلم، اچھے کھلاڑی، اچھے مقرر، اچھے انسان، اچھے شہری،
تمام شعبوں کے مردانِ کار، ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، بیوروکریٹ سب انہی
اداروں کے پیدا کردہ تھے۔
اب عجیب دور ہے۔ تعلیم میں جدت آگئی ہے۔ افسر دفتروں کی کرسیوں سے یوں چپک
کر بیٹھے ہیں کہ ہلنے کو تیار نہیں۔ سکولوں اور کالجوں ہی میں پڑھانے والے
جب افسری کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیں تو سکولوں میں جانا توہین سمجھتے ہیں۔
اپنے پرانے ساتھیوں سے اس طرح ملتے ہیں گویا اُنہیں بتا رہے ہوں کہ ذرہ
دھیان سے میں اب تمہارا افسر ہوں۔ کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے پروفارما
بنائے جاتے ہیں۔ ہیڈماسٹروں سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ زمینی حقائق کچھ اور ہوتے
ہیں مگر کاغذی کاروائی بہت جاندار ہوتی ہے۔ پڑھنے والا اس کاغذی ترقی کو
دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ روز میٹنگ ہوتی ہے۔ تمام ہیڈماسٹر شریک ہوتے ہیں۔
سکول کئی کئی دن لاوارث ہیڈ کا انتظار کرتے ہیں۔ کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے
لیے شاندار میٹنگ میں دن صرف ہوتا ہے۔ کھانے چلتے ہیں۔ شاندار چائے کا
اہتمام ہوتا ہے۔ کافی بڑا بجت اَللوں تللوں پر خرچ ہوتا ہے۔ سپورٹس کے حصے
میں یا طالب علموں کے حصے میں کچھ بچے گا تو آئے گا۔ افسران اگر کبھی غلطی
سے سکولوں میں چلے جائیں تو انہیں ریڈ کارپٹ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ان کی
خوشنودی کے لئے اساتذہ اور بچوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے شاہانہ استقبال
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس تصنوع اور بناوٹ کے ماحول میں کچھ پنپ نہیں سکتا۔
ہر شخص اپنا اُلو سیدھا کرتا ہے۔ زمینی حقائق سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔
کمشنر صاحب یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایک اچھے کام کی ابتداء کر رہے
ہیں۔ مگر سکولوں کی گراؤنڈ زاب کہاں؟ با اثر افراد اور قبضہ گروپ گراؤنڈوں
کی بندربانٹ کر چکے ہیں۔ اگر کمشنر صاحب کو میری بات کا یقین نہ ہو تو ایک
واقعہ عرض کرتا ہوں۔
میں نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے کچھ سکول گود لیے ہوئے تھے۔ بغیر کسی سے مدد
لیے کئی سال تک اپنی جیب سے اُن سکولوں کی فلاح کے لئے جو ممکن ہوا خرچ
کرتا رہا اور قبضہ گروپوں سے لڑتا رہا۔ ڈیفنس روڈ پر واقع گورنمنٹ پرائمری
سکول ہلو کی کی زمین اڑتیس (۳۸) کنال تھی۔ چیک کر لیں اب کتنی باقی ہے۔
وہیں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کا پرانا حصہ اُن دنوں میں نے کافی جھگڑے
کے بعد بچایا تھا۔ امید ہے اب کسی نہ کسی کے ہتھے چڑھ گیا ہوگا۔ ان دو
سکولوں کی موجودہ صورتحال آپ کو سکولوں کی گراؤنڈوں کی حالتِ زار کا پتہ دے
دے گی۔ |