کہتے ہیں کتابیں انسان کی سب سی
اچھی دوست ہوتی ہیں۔ جو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔ سبی ساتھ چھوڑ جائے لیکن وہ
ساتھ نہیں چھوڑتی ہمیشہ آپ کے ساتھ ہی رہتی ہیں اور ہمیشہ انسان کا دل
بہلاتی ہیں۔ خوشی ہو یا غم ہر وقت آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔ ہنسانا اور رولانا
، غم کو خوشی میں تبدیل کرنا، چہرے پر خوشی بکھیرنا، آنکھوں میں آنسو لانا،
دل میں مرے ہوئے احساسات کو جگانا ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ یہ کوئی
دوسرے دوستوں کی طرح کوئی فرمائشیں نہیں کرتی۔بس اپنی جگہ پڑی رہتی ہیں
اکیلی اور اگر کوئی دوستی نبھانا سیکھنا چاہے تو بس ان سے سیکھے۔
اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ جن قوموں نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا تو
کتابوں نے بھی ان سے اپنی وفاداری کی مثال قائم کی اور آج وہ قومیں ترقی کو
منزلوں کو عبور کرکے آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور تاروں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔
مگر جو قومیں ان سے کتابوں سے دور رہی وہ بس ہماری طرح سنہری خواب تو
دیکھتی پر پورے نہیں کر پاتی ۔ ہاں پورے نہیں کر پاتی۔۔۔۔۔
کیونکہ آج میں ایک بازار میں تھا ۔جہاں ہر طرف مختلف قسم کی چیزوں کے سٹال
لگے ہوئے ٹھے۔ ہر طرف لوگو ں کا رش لگا ہوا ٹھا ۔ دوکانیں لوگو ں کی گہما
گہمی سے بری پڑی ٹھی اور ہر کوئی خریداری میں مصروف تھا۔بچہ ہو یا بوڑھا ،
مرد ہو یا عورت ہر کسی کی یہی خواہش ٹھی کہ وہ کچھ نہ کچھ خریدے ،کچھ نہ
کچھ کھائے۔بازار لوگوں کی رونقوں سے گھونج رہا ٹھا اور رہی سہی کسرخوبصورت
ٹمٹماٹی لائٹوں نے پوری کر دی جس کی روشنی سے پورا بازار چمک رہا تھااور
ایک خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔
خیر ہم بھی اسی بازار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خریداری میں مصروف
تھے اور بازار کے خوبصورت ماحول کو انجوائے کر رہے ٹھے۔خریداری کرتے کرتے
ہم ایک ایسی دوکان کے پاس پہنچے جہاں رک کر ہماری ساری رونقیں چہرے سے چلی
گئی ۔ چہرے پر مایوسی، آنکھوں میں نمی اور دماغ میں لاکھوں سوال پیدا ہونے
لگے ۔ ساری خوشی اداسی میں بدل گئی ۔ وہ منظر ہی کچھ ایسا ٹھا کہ بھولا کہ
بھی بھول نہیں پایا۔۔۔ ہاں بھول نہیں پایا۔۔۔۔۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خوبصورت شوز یعنی کے جوتوں کی دوکان ہے جو لائٹوں اور
خوبصورت روشنیوں سے جگمگا رہی ہے۔ ایسی خوبصورت دوکان میں نے اپنی لائف میں
نہیں دیکھی تھی ہر طرف شیشہ ہی شیشہ جیسے دوکان نہیں شیشے کا محل ہو۔ہر
جوتا ایک خوبصورت شیلف کے اوپر انتہائی خوبصورتی سے پڑ ہوا ٹھا اور رہی سہی
کسر اس کے اوپر لگی ہوئی لائٹ پورا کر دیتی ٹھی جس کی وجہ سے وہ انتہائی
دلکش دیکھائی دیتا ٹھا۔اور کچھ جوتے تو گول گول گھومنے والی لفٹ پر لگے
ہوئے تھے جو انتہائی دلفریب منظر پیش کر رہے تھے اور اپنی خوبصورتی سے
لوگوں کو متاثر کر رہے ٹھے۔لوگوں کا ہجوم اس دوکان میں موجود ٹھا جو
خریداری پہ خریداری کر رہا تھا ۔ اور اسی دوکان کے بالکل سامنے ایک بوڑھا
شخص زمین پر کتابوں کا سٹال لگائے بیٹھا ٹھا۔اس کی کتابیں زمین پر ایسے پڑی
تھی جسے کسی نے زمن پر کبھاڑ پھینکا ہواور اس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔وہ
آواز لگا کر لوگوں کو بلاتا مگر کوئی کتاب خریدانے نہیں آتا۔ میں نے سارے
بازار کو دیکھا تھا ہر دوکان پر لوگوں کا ہجوم تھا سوائے اس کتاب والے
کے۔وہاں کوئی نہیں تھا جو کتاب خریدے ۔۔ ہاں کوئی نہیں ٹھا۔۔۔
بس میں وہی کھڑا کھبی اس جوتو ں کی دوکان کو دیکھتا جہاں جوتے شیلف پر پڑے
ٹھے اور پھر اس کتاب والے کی طرف دیکھتا جہاں کتابیں زمین پر پڑی ٹھی ۔ ہاں
جوتے شیلف پر اور کتابیں زمین پرہاں کتابیں زمین پر۔ یہ منظر دیکھ کر میرا
دل خون کے آنسو روتا اور اقبال کا وہ شعر یاد آتا۔۔۔۔۔
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی۔
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سپارا۔
ٓآپ خود ہی سوچیں جس قوم کے لوگو ں جوتوں کو شیشیے کی الماریوں میں رکھے گے
اور کتابوں کی زمین پر وہ کیسے ترقی کر سکے گی ؟کیسے آگے بڑھ سکے گی؟ کیسے؟؟؟؟؟
کیسے؟؟؟؟؟
وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گئی بس ذلیل خوار ہوتی رہیں گی۔۔۔
اور آخر کب تک کتابیں زمین پر پڑی رہیں گی اور جوتے الماریوں میں۔ جوتوں کی
اصل جگہ زمین ہے اور وہ زمین پر ہی پڑے اچھے لگتے ہیں اور کتابوں کی اصل
جگہ آپ کی دلوں میں ہیں تو پھر انہیں دل میں سما لیجیے۔
تو آئیں پھر کتابوں سے دوستی کرتے ہیں اور انہیں زمین سے اٹھاتے ہیں اور
اپنے دلوں میں بساتے ہیں اور دنیاکو دیکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہاں دنیا کو۔۔۔۔۔۔ |