عالمی سطح پر افکار باہوؒ کی ترویج

اسلام کا آغاز اﷲ کے آخری نبیﷺ کی بعثت کے ساتھ جزیرۃ العرب سے ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایمان کی مضبوطی اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی کے سامنے قیصر و قصری کے جبر و استبداد کابھی خاتمہ ہوگیا۔آسمان کی نگاہوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ اسلام کی نور بارکرنیں عرب کی سرحدیں عبور کرکے افریقہ کے تپتے صحراؤں میں بسنے والے وحشیوں کو بھی انسانی اقدار سے روشناس کر رہی تھیں۔ اسی طرح برصغیر میں ابتداء عربوں کے ذریعے اسلام پہنچا۔ بعد ازاں تاریخ اسلام میں کچھ ایسی شخصیات گزریں جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں ۔ جن کی مساعی جمیلہ اور مخلوق خدا کی روحانی و فکری تربیت نے دور رس نتائج چھوڑے۔ ہزارہا نشیب و فراز آئے مگر صدیوں پر محیط یہ سارے حوادثاتِ زمانہ انسانوں کے دلوں سے ان کی عقیدت و محبت نکال نہ سکے۔ خصوصی طور پر بر صغیر کی سرزمیں تو بلامبالغہ ہے ہی’’فیضان اولیاء‘‘۔جہاں مختلف سلاسل طریقت کی عظیم المرتبت ہستیوں کے کارہائے نمایاں قابل صد تحسین ہیں۔ لاہور شہرمیں داتا گنج بخشؒ ، دہلی میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اور سرہند میں حضرت مدد الف ثانیؒ کا تذکرہ کیے بغیر برصغیر کی تاریخ اسلام نامکمل رہتی ہے۔ اسی طرح پنجاب کے دیہی علاقے جھنگ اور شورکوٹ میں ایک عظیم صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ نے پنجابی کو مقامی زبان کی حیثیت سے ذریعہ تبلیغ بنایا جبکہ فارسی اس زمانے کی سرکاری زبان تھی۔ تبلیغ و اشاعت میں ماحول کے تقاضوں کے مطابق زبان کا چناؤ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی لیے کلام باہوؒ شاعری ہو یا نثرفارسی اور پنجابی زبان میں آج بھی موجود ہے ۔ نسب کے لحاظ سے آپ قطب شاہی اعوان ہیں جن کا شجرہ نسب حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔ یہ حضرت علیؓ کی غیر فاطمی آل میں سے ہیں۔ آپ کے والدین ہجرت کر کے شور کوٹ تشریف لائے تھے۔ آپ کا تصنیف و تالیف کے حوالے سے اپنے دور کے دیگر مصنفین کی طرز پر طریقہ یہ تھا کہ شروع میں پیش لفظ کے طور پر اپنی تعارفی سطور رقم فرماتے اور پھر کتاب یا رسالے کی غرض و غائت پر روشنی ڈالتے۔ اکثر اپنے نام کے ساتھ اعوان ضرور لکھتے مثلا نور الھدی کلاں میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’ سچ کہتا ہے مصنف تصنیف سروری قادری فقیر باہو فنا فی ہو ولد بازید محمد اعوان ساکن قلعہ شور۔ (اﷲ تعالی ہر فتنہ سے محفوظ رکھے)۔ اس طرح کی مختصر رد و بدل کے ساتھ عبارات آپ کی تصانیف میں ملتی ہیں جس سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ آپ کا تعلق اعوان قبیلہ سے ہے۔جہاں تک روحانی مراتب کا تعلق ہے آپ خود فرماتے ہیں کہ
دست بیعت کرد ما را مصطفی شد اجازت باہو را از مصطفی
خواند ست فرزند مارا مجتبی خلق را تلقیں بکن بہرخدا
(میں نے محمد مصطفیﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور نوری حضوری فرزند قرار دیا۔ مجھے نبی کریمﷺ کی طرف سے یہ اجازت عطا ہوئی کہ مخلوق خدا تک اس فیضان کو پہنچاؤں) مرشد کامل کے حوالے سے حضرت سلطان باہو ؒ کا نظریہ بہت واضح تھا۔آپ کے نزدیک مرشد کامل وہ ہستی ہوتی ہے جو انسانوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ رب ذوالجلال سے جوڑ دیتی ہے۔تربیت شیخ سے انسان کے دل میں ذکر فکر اورلطائف و مراقبات کے ذریعہ ایمان کی وہ طاقت آجاتی ہے جس پر حملہ آور ہونے کیلئے نفس و شیطان بھی بے بس اور معذرت خواہ دکھائی دیتے ہیں۔
آپ اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں
مرشد کامل اوہ سہیڑیے، جیہڑا دو جگ خوشی دکھاوے ہو پہلے غم ٹکڑے دا میٹے ، وت رب دا راہ سمجھاویوے ہو
اس کلر والی کندی نوں، چا چاندی خاص بناوے ہو جس مرشد اتھے کجھ نہ کیتا باہو، اوہ کوڑے لارے لاوے ہو
( آپ فرماتے ہی کہ مرشد کامل اس ہستی کو بنا نا چاہیے جو دین و دینا کے رستوں کی راہنمائی کرے۔ وہ رزق حلال کی تلاش میں داد رسی اور راہ حق پر چلنے کی تلقین بھی تلقین کرے۔ اپنی پر فیض نگاہ سے اس مٹی کے وجود کو چاند کی طرح چمک عطا کردے۔ جو مرشد دنیاکی زندگی میں راہ حق کی راہنمائی کرنے سے قاصر ہے وہ جھوٹے وعدے اور تسیاں تو دے سکتا ہے لیکن مرشد کامل کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا)

دنیابھر کی طرح برطانیہ و یورپ میں بھی آپ کے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور مئی کے مہینے میں یہاں آپ کے عرس کا بھی باضابطہ اہتمام ہوتا ہے۔ آپ کے وصال کے بعد اب تک دنیا کے کونے کونے میں آپ کا چشمہ فیض جاری ہے۔ خصوصا وہ ہستیاں جن کے وجود میں آپ کا خون محو گردش ہے انہوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق جہاں تک بن پڑا تعلیمات باہو کا پرچار کیا۔ اس وقت برطانیہ و یورپ کے درجنوں شہروں میں آپ کے نام کی نسبت سے علمی درسگاہیں او روحانی مراکز قائم قائم ہیں جو یہاں کی ضروریات کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں۔ آپؒ کے نام پرکئی فلاحی ادارے دنیا بھر کے بے کس، مجبور اور مستحق انسانوں کی مدد میں مصروف ہیں ۔ بلا مبالغہ حضرت سلطان باہو ؒ کے اس فیضان کو سرزمین یورپ میں روشناس کرانے کا سہر ہ آپ کے جن فرزندوں کے حصے میں آیا وہ پیر سلطان فیاض الحسن قادری اور پیر سلطان نیاز الحسن قادری ہیں۔ 1983 سے لے کر اب تک دن رات کی محنت شاقہ سے جہاں تک ممکن ہو سکا فیضان باہو کی کرنوں کو پہنچایا۔
 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240857 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More