تذکرہ ان کا جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے
==========================
2 مئی کا دن کچھ عرصے سے ہر سال بہت سی یادیں،بہت سی باتیں اور بہت سے غم
لے کر طلوع ہوتا ہے۔ کسی کی قربانیاں،اسکے عزائم،اس کی بہادری و جوانمردی
سب ایک ایک کرکے یاد آتے ہیں اور خوب رلاتے ہیں۔ اس سال بھی یہ دن ایسا ہی
ایک سوگوار دن تھا اس پر مستزاد یہ کہ نصف دن گزرنے کے بعد ایک اور بڑے
صدمے سے دوچار ہونا پڑ ا اور وہ یہ تها کہ حضرت والا مرشدی و حبیبی حکیم
محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ خاص اور محبوب ساتھی میر صاحب اپنے
شیخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ کر ساتھ چل دئیے۔
اور دل کی کیفیت کچه یوں ہو گئی:
آ، عندلیب مل کر کریں آہ و زاری
حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کی اپنے شیخ سے اور شیخ کی وصال کے بعد انکے
مریدین سے محبت، شفقت،اپنائیت و انسیت کا جو تعلق تها وہ تو ایک کالم میں
سمونے سے عاجز ہوں یہ تذکرہ تو ایک کتاب کا محتاج ہے۔
لیکن اس وقت مقصود ذکر اس سعادت کا ہے جو اسی پریشانیوں والے دن کے اختتام
سے قبل ٹهنڈی ہوا کے جهونکے کی طرح حاصل ہوئی۔ ایک نہایت محترم و مکرم عالم
و مفتی بھائی کے توسط سے مکمل شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایک مدرسے میں ہونے
والی ختم بخاری شریف میں حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم کا
درس حدیث مبارکہ اور مکمل بیان و نصائح سننے کا شرف حاصل ہوا۔ جناب محترم
کے بارے میں کافی عرصے قبل سنا تھا کہ حضرت ایک دن درس دے رہے تھے کہ یکایک
ان کے وجود سے ایک بہت عمدہ و مسحور کن خوشبو پھوٹنی شروع ہوئی جس نے
شرکائے درس کو بهی حیران کر دیا اور اس واقعہ کے عینی شاهدین بهی بیشمار
ہیں۔
حضرت کا انداز بیان، امت کے لئے دل میں تڑپتا درد، سب کو بس جنت کا پتہ
دینے کی جستجو اور ساتھ ہی بار بار کہا جانے والا جملہ ”اللہ قبول فرمائے،
اللہ قبول فرمائے“ ان سب کی حلاوت و چاشنی حقیقتا الفاظ میں ناقابل بیان ہے۔
تقریبا دو گھنٹے کا عرصہ حضرت کے الفاظ کے جادو میں مسحور ہوکر ایسے گزرا
گویا دس پندرہ منٹ تھے۔
آٓس پاس کی مثالوں سے، آسان ترین اور خوبصورت امثلہ سے لوگوں کو اللہ
تعالی،اللہ کے دین اور اللہ والوں کی طرف مائل کرتا انداز ان کی امت محمدیہ
سے بے حد و حساب محبت و الفت کا پتا دے رہے تھے۔
یہ تو چند ذاتی تاثرات تهے،اس بیان سے پہلے بهی مجهے حضرت کے بارے میں
جاننے کابہت اشتیاق تها چنانچہ تلاش بسیار کے بعد ان کے ایک شاگرد کے الفاظ
مجهے مل گئے وہ بعینہ یہاں نقل کر رہی ہوں:
”شفیق الامت حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتھم العالیہ(شیخ
الحدیث جامعہ مدنیہ جدید و جامعہ محمدیہ چوبرجی،خلیفہ مجاز بیعت حضرت صوفی
محمد سرور صاحب دامت برکاتھم العالیہ)
حضرت کو اللہ تعالی نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے لیکن ورع و
تقوی،ادب،تواضع،عاجزی اورامت پر شفقت میں ان کا کوئی مثیل ابھی تک نہیں
دیکھا،علماء،صلحاء اور اہل اللہ کے محبوب ہیں تو طلباء اور مریدین جانیں
نچھاور کرتے ہیں جو ایک مرتبہ صحبت اٹھا لیتا ہے ہمیشہ کے لیے گرویدہ ہو
جاتا ہے،اگرچہ اصلاحی تعلق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت صوفی محمد
سرور صاحب دامت برکاتھم العالیہ سے ہے لیکن متعدد مشائخ[سات کے قریب] کی
جانب سے اجازت بیعت حاصل ہے جن میں حضرت سید انور حسین شاہ صاحب نفیس رقم
المروف نفیس الحسینی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث و التفسیر امام اہلسنت حضرت
مولانا سرفراز خان صاحب صفدر رحمہ اللہ شامل ہیں .
حضرت نفیس الحسینی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:"حسن تو ہمارے لاہور کی سوغات
ہے"..
اکابر علماءِ دیوبند سے عشق ہے اور ان کے تذکروں کو مجالس اور اسباق میں
زندہ رکھ کر سامعین کے دلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں .تصلب فی الدین کے
ساتھ اعتدال بھی حضرت ہی کے ہاں جمع ہوتے دیکھا ہے.اور تعلیم و تعلم کی یہ
حالت ہے کہ عرصہ دراز تک ابتدائی پانچ درجات کے اکیس اسباق روزانہ تنہا
پڑهاتے رہے ہیں.
آپ نے چونکہ خوشبو والے واقعہ کا دریافت کیا اس لیے اب چلتے ہیں واقعہ کی
جانب……
حضرت کو عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک خاص قسم کا شرح صدر
حاصل ہے اور اس کو بہت البیلے انداز میں بہت کثرت سے بیان فرماتے ہیں
..انداز یہ ہوتا ہے کہ کتابی دلائل سے ہٹ کر ان متقدمین اور اکابر علمائے
دیوبند کا تذکرہ فرماتے ہیں جن کی قبروں سے تدفین کے وقت خوشبو پھوٹی
تھی،اور تذکرہ کے آکر میں اپنے مخصوص انداز میں فرماتے ہیں:یہ ہیں وہ
ہستیاں جن کے ساته اللہ نے ہمیں جوڑ رکها ہے..ایک دن سبق میں ایسے ہی تذکرہ
شروع ہوا اور کئی بزرگوں کا تذکرہ ہو چکا تو خود حضرت سے ایک ایسی خوشبو
پھوٹی کہ اس جیسی خوشبو کا پایا جانا شاید و باید...
حضرت کو تو اس کا ادراک نہ ہوا البتہ طلباء کرام نے خوب مشاہدہ کیا اور ایک
طالب علم نے پرچی لکھ کر بھیجی کہ جب آپ بیان فرما رہے تھے تو آپ سے خوشبو
آ رہی تھی..حضرت نے پرچی دیکھے بغیر جیب میں ڈال لی..خود فرماتے ہیں عصر کے
بعد میں کمرے میں بیٹھا تھا کہ جیب سے خوشبو آنا شروع ہو گئی میں نے جیب سے
چیزیں نکالیں تو وہ خوشبو اسی پرچی میں سے آ رہی تھی اور اس سے پورا کمرہ
خوشبو سے معطر ہو گیا..میں وہ پرچی لے کے حضرت نفیس شاہ صاحب کی خدمت میں
چلا گیا..وہاں پر شیخ الحدیث مولانا عبد المجید لدھیانوی رحمہ اللہ اور
مولانا منیر احمد منور مدظلہ بھی موجود تھے..میں نے وہاں جا کر پرچی نکالی
تو پورا کمرہ اور بالائی گیلری بھی خوشبو سے معطر ہو گئی...
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:"یہ عقیدے کی خوشبو ہے".
اس وقت میں نے ارادہ کر لیا کہ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک
کتاب لکھوں گا اور اس کا نام رکھوں گا خوشبو والا عقیدہ یعنی عقیدہ حیات
النبی صلی اللہ علیہ وسلم"...
|