صفورہ چوک کا سانحہ
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
جمعرا ت کو پھر ایک دل دہلا دینے
والی خبر پڑھی ۔ معلوم ہوا کہ میرے شہر کراچی کو پھر خون میں نہلا دیا گیا
۔ بس کے اندر گھس کر ایک مخصوص کمیونٹی پر فائرنگ کی گئی ۔ جس کے نتیجے میں
18 خواتین سمیت 45 جاں بحق ہو گئے ۔ یہ اندوہ ناک سانحہ صفورہ چورنگی کے
قریب پیش آیا ۔ بد قسمت بس بدھ کی صبح ساڑھے 9 بجے الاظہر گارڈن سے عائشہ
منزل جماعت خانے کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔ مگر راستے میں ہی نشانہ بنا دی
گئی ۔ 55 مسافروں میں سے 45 اس جہاں سدھارے ۔ داد دیجیے بس کے زخمی کنڈکٹر
کو ۔ وہ زخمی تھا ۔ مگر پھر بھی ہمت کر کے اٹھا اور بس کو ایک نجی اسپتال
تک لے گیا ۔ بلا شبہ یہ کنڈیکٹر قابل ِ تعریف ہے ۔ پاکستانی قوم میں ایثار
بہت ہے ۔ جذبہ قربانی بھی بہت ہے ۔ایسے مواقع پر یہ جذبہ مزید اپنے رنگ
دکھاتا ہے ۔
سیاست دانوں اور ہمارے رہنماؤں نے حسب ِ معمول بیانا ت دیے ۔ ملک کے نام ور
سیاست دان اور عوام کے نمائندگان نے گرم گرم بیانات دیے ۔ وزیر ِ اعظم نے
کہا کہ اب دہشت گردی کے خلاف سخت فیصلے کرنے ہوں گے ۔ ہمارا دشمن پاکستان
کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتا ۔ کراچی آریشن کا دائرہ وسیع کیا جائے ۔
بلا شبہ اس سانحے نے سب کو اداس کر دیا ۔ یہ سانحہ تھا ہی کچھ ایسا ۔ میں
نے بے گناہوں کے خون پر بے گانوں کو بھی روتا دیکھا ہے ۔ ان 45 افراد کا
بھلا کیا قصور تھا ؟ یہ لوگ تو کسی قسم کی تخریب کاری میں ملوث بھی نہیں
تھے ۔ یہ اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ تھے ۔ ان کا کسی سے کچھ لینا دینا
نہیں تھا ۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ تحریک ِ پاکستان میں اس
کمیونٹی کا بڑی خدمات ہیں ۔ کیوں کہ پاکستان کا قیام آل انڈیا مسلم لیگ کے
مرہون ِ منت ہے ۔ آزادی سے پہلے مسلم لیگ مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ
جماعت تھی ۔ 1906 ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو سر
آغا خان سوم کو اس جماعت کا پہلا صدر بنا یا گیا ۔ ایسے لوگوں کو قتل کر کے
نہ جانے کیا بتانے کی کوشش کی گئی ۔
ہمارے ہاں تخریب کاری کے ہر واقعے کے بعد افواہوں اور الزامات کا ایک نہ
تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کے واقعات کے بعد بڑے لوگ پیشین
گوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔ جب کہ چھوٹے اور جذباتی لوگ اپنے مخالف پر
الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔جس سے نفرتیں اور آپس کا تفاوت مزید پروان
چڑھتا ہے ۔ ہم بکھرے ہوئے اور منتشر لوگ ہیں ۔ ایسے حادثات ایک طرف ہمیں
غمگین کر دیتے ہیں تو دوسری طرف ہمیں مزید منتشر کر دیتے ہیں ۔ جب صفورہ
چوک کا سانحہ پیش آیا تو اس وقت بھی ہم نے بغیر تفتیش و تحقیق کے الزام
بازی شروع کر دی ۔ اس ضمن میں میرا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ جو بھی اس انسانیت
کش سانحے میں ملوث ہے ، اسے سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ عوام بیان بازی سے
گریز کرے ۔ تحقیق و تفتیش جن کا کام ہے ، وہی کریں ۔ عوام خبریں پڑھیں ،
نیوز دیکھیں اور ملک کی سلامتی کے لیے دعا کریں ۔
نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جا چکا ہے ۔ ملوث لوگوں کے خلاف کار روائیاں
زور و شور سے جاری و ساری ہیں ۔ کراچی آریشن بھی نقطہ ِ عروج پر ہے ۔ گینگ
وار اور بھتہ خوروں کو سختی سے کچلا جا رہا ہے ۔ حساس علاقوں میں پولیس کیا
، رینجرز بھی تعینات ہے ۔ اس کے باوجود سانحہ صفورہ جیسے حادثات وقوع پزیر
ہوں تو اسے کیا کہیں ۔ جب سب کچھ جاری و ساری ہے تو پھر ایسے واقعات کیوں
کر ہو رہے ہیں ۔ جب اتنی محنت کی جارہی ہے تو ایسےواقعات نہیں ہونے چاہییں
۔ آخر بے گناہوں کا خون کب تک بہتا رہے گا ۔سکیورٹی اداروں کی محنت ِ شاقہ
کے باوجود یہ سلسلہ کیوں نہیں تھم رہا ۔ کراچی میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ
شروع ہو چکی ہے ۔ سبین محمود کے بعد یاسر رضوی بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن
چکے ہیں ۔ اس شہر ِبے اماں میں اہل ِ علم کی بھی کوئی قدر و وقعت نہیں۔
انھیں بھی شہید کر دیا جاتا ہے ۔ مگر حیرت اس بات کی ہے کہ یہ سب کچھ اس
دوران جاری و ساری ہے ، جب کہ کراچی میں وفاق کی طرف سے آپریشن بھی کئی
مہینوں سے جاری ہے ۔ کراچی کے امن وامان کے حوالے سے ہمارے سکیورٹی اداروں
کی محنت اور کوشش قابل ِ تعریف ہے ۔ کئی کرمنلز مارے جا چکے ہیں ۔ مگر
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے لوگ ذرا دیر سے خوش ہوتے ہیں ۔ یہ اس دن خوش ہوں
گے جب کراچی کی ٹارگٹ کلنگ مکمل طور پر رک جائے گی ۔ سانحہ صفورہ چوک جیسے
واقعات کا امکان بھی نہیں ہوگا ۔حکمت ِ عملی اور پلان کی بھی سخت ضرورت ہے
۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ لوگ، جو تخریب کاری میں
ملوث ہیں ، ابھی تک بچے ہوئے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو یہ اور خطر ناک بات ہے
۔جس کا ازالہ ضروری ہے ۔ ظالم کو بلا امتیاز نشانہ بننے سے ہی انصاف کا بول
بالا اور ظلم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے ۔
میری نگاہ ِ منتظر ایک پر امن کراچی دیکھنے کے لیے ترس رہی ہے ۔ ایک ایسا
کراچی ، جہاں امن ہو ، سکون ہو ۔ جہاں اہل ِ علم اور بے ضرر لوگوں کی قدر
ہو ۔ جہاں ٹارگٹ کلنگ کیا ، بھتہ خوری بھی نہ ہو اور ہر ایک خوش ہو ۔ |
|