اردو قومی زبان کیوں نہیں؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
اردو کو قومی زبان کا درجہ
دلوانے کیلئے ایک عرصہ سے عاشقان اردو کا قافلہ رواں دواں ہے پاکستان کی
طلبہ تنظیموں کا مشترکہ اتحاد متحدہ طلبہ محاذ ایک عرصہ سے ملک کا نظام
تعلیم اسلامی اقداروروایات پر مبنی قومی زبان میں تشکیل دینے کا مطالبہ ایک
عرصہ سے کر رہا ہے ،کئی سالوں سے جلسے ،جلوس،احتجاجی ریلیاں،سیمینارز کا
اہتمام بھی کیا گیا پاکستان کی طلبہ تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ،اسلامی
تحریک طلبہ،اے ٹی آئی،جے ٹی آئی،ایم ایس او،ایم ایس ایم ودیگر نے اپنے اپنے
پلیٹ فارمز سے بھی تقاریب کا اہتمام کیا جن کا عنوان قومی زبان پر مشتمل
نظام تعلیم تھا یہ مطالبہ آج بھی طلبہ تنظیمیں کی زبان پر زد عام ہے طلبہ
کی طاقت سے خائف ہوکر حکومت نے کئی بار طلبہ تنظیموں پر پابندی کا ارادہ
بھی کیا مگر حکومت کو ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔طلبہ کا مطالبہ تو صرف نظام
تعلیم تک ہی محدود تھا مگر اب ماضی قریب سے قومی زبان تحریک نے سر اٹھایا
اس تحریک کا مطالبہ ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان کادرجہ دیا جائے بیک وقت
تمام اداروں میں اردو کا نفاذ یقینی بنایا جائے ہمیں اردو کے علاوہ کوئی
اغیار کی مسلط کی گئی زبان قابل قبول نہیں ہے ،قومی زبان تحریک نے ملک کے
مختلف شہروں میں اردو کی حمایت میں زبردست مہم اور تقاریب کا اہتمام کیا
اور ساتھ ہی عدالت کے دروازے پر بھی دستک دے دی قومی زبان کے معتدد اجلاسوں
اور پروگراموں میں راقم کو شرکت کا موقعہ بھی ملا جس سے راقم کو بہت علمی
فائدہ ہوا۔
قارئین کرام!یہ مطالبہ ایک جائز اور بنیادی مطالبہ ہے جسے کسی قیمت پر
فراموش نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ قوموں کی زبان اس کی ہی اصل پہچان ہوا
کرتی ہے مگر آج اردو اپنے دیس میں ہی یتیم ہوکر رہ گئی ہے جبکہ پاکستان کے
انسان ساختہ آئین 1973 میں درج ہے کہ 15 سال کے بعد اردو کو سرکاری زبان کا
درجہ حاصل ہوگا مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران جس آئین کی پاسداری کا رونا
دن رات روتے ہیں42 سال سے خود اس پر عمل نہیں کررہے یہ تو ایک اردو کی مثال
ہے اگر آئین کی اسلامی شقوں کی تشریع کی جائے تو سب حکمران آئین پاکستان سے
منحرف ثابت ہوں گے اس پر پھر کبھی تحریر کریں گے اب صرف اردو پر ہی اکتفا
کر لیتے ہیں۔
گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو زبان کوسرکاری زبان کادرجہ نہ
دینے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو
بلائیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اردو زبان
کوسرکاری زبان کا درجہ نہ دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران
جسٹس گلزار نے ریمارکس دئیے کہ 1973 کے آئین کے 15 سال بعد اردو کو سرکاری
زبان کا درجہ ملنا تھا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کیا حکومت نے یہ مدت
بڑھا دی تھی؟عوام کو آئین کی پاسداری کا کہا جاتا ہے لیکن حکومت خود آئین
پر عمل نہیں کرتی۔عدالت کو آئین کی پاسداری کرانے کا طریقہ آتا ہے ۔عدالت
نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دینے کے
ذمہ دار کون ہیں؟جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری
اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری اطلاعات سمیت کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ حکومت کو آئین میں ترمیم کرنے کا بہت شوق ہے
حکومت آرٹیکل 251 کی بھی ترمیم کرلے،جسٹس جواد نے کہا کہ قومی زبان اردو کے
حوالے سے آئین پر عملدار نہ کرنے کی تمام ذمہ داری چیف ایگزیکٹو پر عائد
ہوتی ہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے آئین سے کوئی بالا تر نہیں ،چیف ایگزیکٹو
کو بھی بلانا پڑا تو عدالت کے کٹہرے میں بلائیں گے۔مذاق بند کیا جائے اگر
ہم حکم جاری کر سکتے ہیں تو عمل کروانا بھی آتا ہے۔(روزنامہ دن لاہور 13
مئی 2015 )اگلے عدالت کا کہنا تھا کہاگرعوام کے پیسوں سے تنخواہ لینے والی
سرکار اور ہم آئین پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ہم صرف کاغذوں تک آزاد ہیں
مگر حقیقت میں آج بھی محکوم ہیں۔ سرکار نے آئین کی پاسداری نہیں کرنے تو
عوام کو بھی آزاد کردے،آج بھی عدلیہ کے ممبران سمیت انگریزی زبان سمجھنے
والے انتہائی کم ہیں فیصد طبقے کی آدھی زندگی انگریزی سمجھنے میں لگ جاتی
ہے 42 سال ہوگئے آئین پر عمل نہیں ہو سکا،صوبے بھی آئین پر عمل یقینی
بنائیں،دوہفتے نہیں دے سکتے ،عدالت نے اردو کو دفتری زبان قرار دینے بارے
وفاق اور صوبوں سے جواب طلب کرلیا۔(قومی اخبارات 14 مئی)
مندرجہ بالا حقائق چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ حکمران قوم اور قومی زبان کے
بارے میں مخلص نہیں ہیں اور نہ ہی آئین کی پاسداری کر رہے ہیں عدالت عالیہ
نے اس بارے اپنے ریمارکس دے کر دانشوران قوم کے موقف کی تائید کر دی ہے ۔اگر
بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ ہم انسانوں سے سب سے زیادہ پیار
ہمارا خالق ومالک اﷲ تعالیٰ کرتا ہے ہم انسانوں،مسلمانوں نے اﷲ کے عطاء
کردہ آئین ،دستور قرآن مجید کی پاسداری نہیں کی جس کے باعث ہم اس ذلت آمیز
حد تک آگئے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت آج کہہ رہی ہے کہ ہم آزادصرف
کاغذوں کی حد تک ہیں درحقیقت آج بھی ہم محکوم ہیں ہم اس دن آزاد ہوں جس دن
ہم قرآن مجید کو حقیقی معنوں میں اپنا آئین ودستور مان لیں گے تو۔ |
|