مدرز ڈے
(Muhammad Azeem Hasil Puri, )
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ماؤں کا عالمی دن
جولیا وارڈ نامی خاتون ممتاز شاعرہ عظیم مصور انسانی حقوق کی انتھک کارکن
کی والدہ ۱۸۷۰ء میں مئی کے دوسرے اتوار فوت ہو گئی۔ وہ اپنی ماں سے بہت
زیادہ محبت کرتی تھی۔ اس نے ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو خاص اپنی امی کے
نام موسوم کر لیا۔ اور سارا دن اسی کی یاد میں مناتی اورمحبت کا اظہار کرتی
اورآہستہ آہستہ یہ دن امریکہ کے علاوہ دوسرے ممالک میں رواج پانے لگا۔
مدرڈے کو امریکہ میں ۱۸۷۷ء میں باقاعدہ منانے کا رواج شروع ہو گیا۔ ۱۹۰۷ء
میں اناجا روس خاتون نے جو امریکہ میں تعلیم کے پیشے سے وابستہ تھی مدرڈے
کے حوالے سے ایک باقاعدہ تحریک شروع کی۔ اور پھر اس نے اپنے آبائی علاقہ
فلاڈیفیا میں پہلی مرتبہ بڑی شان وشوکت سے مدرڈے منایا جس سے امریکہ کی کئی
ریاستوں میں بھی یہ منایا گیا اب اس دن کے پیش نظر امریکہ بھر کے کلیساؤں
میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا آغاز شروع ہونے لگا اور لوگوں کا مطالبہ بڑھنے
لگا کہ امریکی صدر خود مدر ڈے کا اعلان کرے اور اسے سرکاری سطح پر منایا
جائے آخر کار امریکی صدر ووڈولسن نے ماؤں کے احترام میں ۱۹۱۴ء میں مئی کے
دوسرے اتوار کو قومی دن قرار دے دیا۔
جبکہ اس سے پہلے قدیم یونان میں کئی دیوتاؤں کو جنم دینے والی سائی بیلے کا
یادگاری دن بھی منایا جاتا تھا۔ رومن لوگ جونو دیوی کی یاد میں ایک دن
مخصوص کر کے اپنی اپنی ماؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ہندوستان میں بھی
’’ماتا تیر تھا‘‘ کا دن ماں کو پوجنے کا دن قرار دیا جا چکا ہے جو آج تک
منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں اس دن کو ’’مدرنگ سنڈے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اور مدرنگ سنڈے کی روایت ۱۶ ویں صدی سے قائم ہے اس موقع پر سب لوگوں کو کام
کام چھوڑ کر پورا دن اپنی ماؤں کے ساتھ گزارنے کی تلقین کی جاتی ہے اورماؤں
کو تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔یہ تو مغربی دنیا تھی کہ جس میں بوڑھے والدین
سال بھر مدرڈے اور مدرنگ سنڈے کو انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب وہ دن آئے کہ
ہماری اولاد ہمیں اولڈ ہاؤس میں ملنے اور تحائف پیش کرنے آئے مگر اسلام اور
اسلامی معاشرے میں ماں سے محبت کے لیے ہر طلوع ہونے والا دن ’’مدرڈے‘‘
ہے۔آج پاکستان اوردنیا بھر کے مسلم ممالک بھی مدرڈے مناتے ہیں مگر وہ اس
موقع پر یہی پیغام دیتے کہ اسلام نے ہر دن کو مدرڈے بنایا ہے جس دن کا آغاز
ماں کے دیدار اور دعا سے خالی ہو وہ دن خیر وبرکت سے خالی ہی رہ جاتا ہے۔
میرے رب نے ماں کو ایسا رتبہ دیا
محبت سے ماں کو دیکھنے کو عبادت بنا دیا
قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ماں باپ کا
ذکر کیا ہے ،آئیے ان میں سے چند مقامات پڑھتے ہیں:
پہلا مقام: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی
ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھااور تکلیف ہی سے جنا اور اس کا پیٹ میں
رہنا اور دودھ چھڑانا ڈھائی برس میں ہوتا ہے یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا
ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتاہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے
توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اورمیرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا
شکرگزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کوتوپسند کرے اور میرے لئے میری
اولاد میں صلاح (و تقویٰ) دے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں
فرمانبردار ہوں۔‘‘ (الأحقاف: ۱۵)
دوسرا مقام: اﷲ تعالیٰ کا ارشاد :
’’اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور
ماں باپ کیساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو
پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا، اور ان سے بات
ادب سے کرنا۔ اور عجز و نیاز سے اُن کے آگے جھکے رہو اور اُن کے حق میں دعا
کروکہ اے اﷲ! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے )پرورش کیا ہے تو بھی
اُن ( کے حال )پر رحمت فرما ۔‘‘ (الاسراء: ۲۳،۲۴)
واہ ماں تیری شان․․!
میں نے انٹر نیٹ پر ایک جملہ پڑھا دل کو بھا گیا وہ جملہ آپ کو سنائے بغیر
نہیں رہ سکتا ۔جملہ یہ تھا:
’’ماں سے محبت کرو کیونکہ ماں کی پریشانی دیکھ کر اﷲ پاک نے ’’صفا ومروہ‘‘
کو حج کا رکن بنا دیا۔‘‘
سبحان اﷲ! اﷲ رب العزت نے جب اماں ہاجرہ کو اپنے ننھے بچے اسماعیل کی پیاس
نہ دیکھی گئی اورپانی کی تلاش میں صفا مروہ کی پہاڑی پر دوڑنے لگی اچانک
انھوں نے دیکھا کہ زمزم کے مقام پر ایک فرشتہ کھڑا ہے فرشتے نے ماں کی اس
پریشانی کو دیکھا ، اپنا پر یا ایڑی زمین پر ماری تو زمزم کا چشمہ جاری ہو
گیا آپ خوش ہو گئیں اور اسے حوض کی صورت دینے لگیں اور چلو چلو بھر بھر کر
مشکیزے میں ڈالنے لگیں ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی پھر نکل آتا، نبی
اکرمؐنے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ سیدنا اسماعیل کی ماں پر رحمت فرمائے اگر وہ زمزم کو بہنے
دیتیں تو وہ ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت اختیار کر لیتا۔‘‘ (البخاری: ۳۳۶۴)
اﷲ تعالیٰ نے ماں کی پریشانی دیکھ کر پانی کا چشمہ بھی قیامت تک جاری کر
دیا اورایسا پانی جو پینے سے پہلے جو مانگو اﷲ عطا کر دیتا ہے اور پریشانی
کے وقت دوڑتے ہوئے جہاں جہاں ماں کے قدم لگے اﷲ تعالیٰ نے اسے حج کا رکن
بنا دیا کہ حج وعمرہ میں صفا مروہ پر دوڑے کا نہیں اس کا حج ہی قبول نہیں
کروں گا۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ﴾․ (البقرۃ: ۱۵۸)
’’بے شک صفااور مروہ اﷲ کے نشانات میں سے ہیں۔‘‘
ہمارے پیغمبرجناب محمدؐ نے جب اس دنیائے فانی میں آنکھ کھولی تو یتیم ہو
گئے باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا لیکن والدہ محترمہ موجود تھیں جب آپؐچھ
سال کے تھے تو آپ کی والدہ فوت ہو گئیں ان کا انتقال ’’ابواء‘‘ کے مقام پر
ہوا۔ یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے آپ کی والدہ اپنے بیٹے (محمدؐ) کو
ننھیال سے ملانے کے لیے لائی تھیں۔ ننھیال بنوعدی بن نجار میں سے تھے۔ آپ
وہاں سے واپس آرہی تھیں کہ سفر میں وفات پا گئیں۔ سیرت ابن ہشام ۱۹۳/۱ حسن
اگرچہ حقیقی والدہ سے حسن سلوک، ان کی خدمت اور ان کی اطاعت فرمانبرداری کا
آپؐ کو موقعہ نہیں ملا لیکن رسول اﷲؐ کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ کا آپ ؐبہت
زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔
جب آپؐکی شادی سیدہ خدیجہ ؓسے ہوئی تو حلیمہ سعدیہ طویل عرصہ بعد رسول
اﷲؐکی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کے علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے فصلیں تباہ
ہو چکی تھیں۔ مویشی مر چکے تھے ۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال سے سیدہ حلیمہ
سعدیہ ؓنے رسول اکرمؐکو آگاہ کیاتوآپ نے اپنی بیوی سیدہ خدیجہ سے بات کی،
انھوں نے چالیس بکریاں اور سواری کے لیے اونٹ انھیں دیے تو وہ خوش ہو کر
اپنے گھر واپس گئیں۔
طبقات ابن سعد ۱۱۲/۱۔۱۱۴
اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ آپؐ اپنی اس رضاعی ماں کا احترام اس قدر
فرماتے کہ جب وہ آتیں تو سارے کام چھوڑ دیتے ، اپنی کالی کملی کندھوں سے
اتار کر زمین پر بچھا دیتے بڑی عزت واحترام سے پیش آتے ، لوگ سوال کرتے یہ
بوڑھی عورت کون ہے ؟ تو بتایا جاتا کہ یہ رسول اﷲؐکی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ
ہے۔مجمع الزوائد : ۱۵۴۱۳،اسی طرح آپؐ کی وہ آیا جس نے آپ کو پالا تھا ام
ایمن (برکت) آپ اسے بھی ماں کا رتبہ دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے:’’ام
ایمن میری حقیقی ماں کے بعد میری ماں ہے۔‘‘
الاستیعاب : ۳۲۵۲۔
میں جب بھی اپنے ماں کے قدم چومتا ہوں
مت پوچھو میں کب اور کہاں جھومتا ہوں
میں اپنی ماں کی دعاؤں کے طفیل
جیسے خود جنت میں گھومتا ہوں (جگہ سردار گڑھی)
جنت ماں کے قدموں میں
کہتے ہیں حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو ایک مرتبہ کہا جنت سے کوئی چیز لاؤ وہ
جلدی سے گئے اورمٹھی بھر مٹی لے آیا اورکہنے لگا : اباجان یہ جنت کی مٹی ہے
حضرت لقمان نے پوچھا کہاں سے لائے ہو؟ توبیٹے نے کہا: یہ میں اپنی ماں کے
قدموں سے لایا ہوں سچ ہے اﷲ تعالیٰ نے جنت ماں کے قدموں میں رکھی ہے یعنی
جسے جنت کی تلاش ہو وہ ماں باپ کی خدمت اور ان سے حسن سلوک کر لیا کرے۔
سیدنامعاویہ بن جاہمہؓ کو آپؐنے فرمایا: ’’تیرا کچھ نہ رہے (ہائے افسوس)
اپنی ماں کے قدموں سے چمٹ جا! جنت وہیں ہے۔‘‘ترمذی، (۲۷۸۱) وابن ماجہ
(۲۷۸۱)
حضرت رفاعہؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے حارث عکلی کو ان کی والدہ کے جنازہ میں
بہت زیادہ روتے ہوئے دیکھا تومیں نے ان کو کہا حضرت آپ کیوں اتنا رو رہے
ہیں؟ تو فرمانے لگے :
’’میں کیوں نہ روؤں جب کہ مجھ پر آج جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ بند
کر دیا گیا ہے۔‘‘
(ففیہما فجاہد: ص۹۱)
مجھے ایک دن ہمارے دوست یحییٰ طاہر صاحب نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ ہمارا
چھوٹا بیٹا مصعب جو ابھی ۴ / ۵ سال کا ہے ایک دن پانی گلاس میں لیا اورکپڑا
بھگو کر اپنی ماں کے قدموں کو صاف کر رہا تھا میں نے پوچھا یہ کیا کر رہے
ہو․؟تو کہنے لگا ’’میں اپنی جنت صاف کر رہا ہوں۔‘‘
میرے خالق نے ماں کو ایسا مقام دیا
جنت کو ماں کے قدموں میں رکھ دیا
بیٹا مجھے بھوک نہیں ہے
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ مجھے
کھانے کو کچھ دو ہمیں حاجت ہے ، سخت تنگی کا شکار ہیں، سیدہ عائشہ rفرماتی
ہیں کہ اس عورت کے ساتھ اس کی دوبیٹیاں بھی تھیں میں اپنے گھر میں تلاش کیا
تو صرف ایک کھجور ملی میں لا کر اسے دے دی اس نے اسے پکڑا اور اپنی دونوں
بیٹیوں کے درمیاں تقسیم کر کے دے دیا اورخود اس سے کچھ بھی نہ کھایا(بیٹیاں
اپنی ماں کے منہ طرف دیکھنے لگیں کہ ماں نے ہمیں دے دیا ہے مگر کچھ خود
نہیں کھایا تو ماں نے زبان حال سے کہا بیٹا مجھے بھوک نہیں ہے سبحان اﷲ !
ماں کی قربانیوں پہ قربان جاؤں)
مت نظر انداز کرنا کبھی ماں کی تکلیفوں کو
جب یہ بچھڑتی ہے تو ریشم کے تکیوں پر بھی نیند نہیں آتی
اماں جی عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پھر وہ عورت اٹھ کر چلی گئی اتنے میں نبی
کریمؐ تشریف لے آئے میں نے سارا قصہ حیرانی سے سنایا توآپؐنے فرمایا:’’جو
کوئی اپنی بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح بھی آزمائش میں مبتلا ہو تو اس نے پھر
بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ
بن جائیں گیں۔مسلم : ۱۴۷،۲۶۲۹۔
بوعلی سینا نے کہا
بوعلی سینا نے کہا کہ محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے اپنی زندگی میں تب
دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا بیٹا مجھے سیب پسند
ہی نہیں۔
حارثہ بن نعمانؓ کو اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے
جنت میں خاص اعزار دیا ہے،سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲؐ نے
فرمایا: میں نے خواب میں جنت دیکھی وہاں میں نے قرآن پڑھنے کی آواز سنی،
میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: حارثہ بن نعمان ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’نیکی کا یہی بدلہ ہے، نیکی کا یہی بدلہ ہے، یہ اپنی ماں کے ساتھ سب لوگوں
سے زیادہ اچھا سلوک کرتا تھا۔‘‘
صحیح ابن حبان(۴۷۹/۱۵)و سلسلۃ الصحیحۃ( ۹۱۳)
ماں کا خادم لمبا عرصہ حج نہ کر سکا
سیدنا ابوہریرہؓحد درجہ اپنی ماں کی خدمت کرتے تھے وہ ضعیف العمر تھیں جس
کی وجہ سے انھیں چھوڑ کر کہیں نہ جاتے تھے حتی کہ کئی بار حج کا ارادہ کیا
لیکن ان کاخیال کون رکھے گا حج پر نہ جا سکے ۔حدیث میں آیا ہے: ’’ابوہریرہؓ
نے اس وقت تک حج نہیں کیا جب تک ان کی والدہ زندہ تھیں وہ فوت ہوئیں توآپ
نے حج کیا۔‘‘ صحیح بخاری (۲۵۴۸) ومسلم (۱۶۶۵) الجمع بین الصحیحین (۲۱۸۷)
خوش قسمت ہے وہ انسان جسے ماں باپ کی خدمت کی توفیق مل جائے۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
مدینہ کا گورنر ماں کے دروازے پر
مروان بن حکم جب مدینہ سے باہر جاتے تو سیدنا ابوہریرہ tکو مدینہ میں اپنا
جانشین مقرر کر جاتے۔ ابوہریرہ اپنی والدہ کے نہایت مطیع اور فرمانبردار
تھے۔ ان کی والدہ علیحدہ مکان میں رہتی تھی۔ ابوہریرہؓ کا گھر ان کے قریب
ہی تھا۔ اب ذرا مدینہ طیبہ کے قائم مقام گورنر کی شان ملاحظہ کریں۔
اپنے گھر سے نکلتے تو سیدھے اپنی والدہ کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے
اور صدا لگاتے ۔
’’میری پیاری امی جان آپ پر سلامتی ، اﷲ کی طرف سے رحمت اور برکت نازل ہو
۔‘‘
جواب میں والدہ فرماتیں:میرے بیٹے ! تم پر بھی اﷲ کی طرف سے سلامتی، رحمت
اور برکت نازل ہو۔
ابوہریرہ کہتے ہیں: اورآپ پر اس طرح اپنی رحمتیں نازل فرمائے جس طرح آپ نے
بچپن میں
میری پرورش کی۔والدہ جواب میں فرماتیں:اﷲ تم پر بھی رحمتیں نازل فرمائے جس
طرح تم نے میری بزرگی کے ایام میں میری عزت وتوقیر کی ہے۔الأدب المفرد
للبخاری ح: ۱۲
تیری باتوں کی کرامت کی تو پھر بات ہی کیا ماں
مجھ کو تو تیرے قدموں کی مٹی بھی شفا دیتی ہے
ماں کے لیے باغ کی قربانی
نبی کریمؐ کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہt کا بیٹا اسامہ بن زیدؓاپنی ماں
ام ایمن کا فرمانبردار بیٹھا ماں جو کہتی بیٹا کرتا ایک دن ماں نے کہا بیٹا
’’جمار‘‘ کھانے کی خواہش ہے جمار اس مغز کو کہتے ہیں جو کھجور کے درخت کے
درمیانی حصے میں ہوتا ہے(یعنی لکڑی کا گودا) وہ مغز اسی صورت میں نکالا جا
سکتا ہے جس درخت کو جڑ سے کاٹ دیا جائے ان کا مدینہ منورہ میں کھجور کا ایک
عمدہ باغ تھا جس میں تقریباً ایک ہزار کھجوروں کے درخت تھے۔چنانچہ اسامہ بن
زیدؓ نے ماں کی خواہش کی خاطر کھجور کا پھلدار درخت کاٹ ڈالا اور اس سے مغز
نکال کر ماں کو دے دیا۔ جب لوگوں نے پھلدار درخت کو اس طرح کٹا دیکھا تو
برا محسوس کیا اور اس کی وجہ دریافت کی تو سیدنا اسامہ بن زیدؓنے کہا:
’’اس دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز جس کی میں طاقت رکھتا ہوں اگر میری ماں
فرمائش کر ے گی تومیں اسے ضرور دوں گا۔‘‘ المعجم الکبیر للطبرانی ۱۵۹/۱
:۳۷۰۔
یا رب میری ماں کو لازوال رکھنا میں رہوں نہ رہوں میری ماں کا خیال رکھنا
میری خوشیاں بھی لے لو میری سانسیں بھی لے لو مگر میری ماں کے گرد سدا
خوشیوں کا جال رکھنا
ماں سے دعا لیا کرو
اترنے ہی نہیں دیتی مجھ پر کوئی آفت
میری ماں کی دعاؤں نے آسمان کو روک رکھا ہے
ماں اور باپ دونوں کی دعا اپنی اولاد کے حق میں فورا قبول ہوتی ہے بدنصیب
ہیں وہ لوگ جو اپنی ماؤں کو ستاتے ہیں اوران کی دعاؤں سے محروم ہو جاتے
ہیں۔
لبوں پہ اس کے بددعا نہیں ہوتی
بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی
آئیے میں آپ کو ایک ماں بیٹے کی بات سناتا ہوں ، ماں کی لاکھ دعاؤں کے
نتیجے میں اﷲ نے ان کو ایک بیٹا عطا فرمایا: بچہ کھیلنے کودنے کی عمر کو
ہوا تو ماں نے نذر مان لی کہ اے اﷲ میں اپنے بیٹے کو تیرے دین کے لیے وقت
کروں گی۔ یہ حافظ قرآن اورحافظ حدیث بنے گا اورپھر تیرے دین کی تبلیغ اور
اشاعت میں ساری زندگی صرف کر دے گا۔مگر اچانک بچپن ہی میں بیٹے کی آنکھوں
کی بینائی چلی گئی۔ ماں جس نے لاکھوں سپنے دیکھے تھے بارش میں مٹی کے گھر
کی طرح بہت نظر آنے لگے۔ ماں کی ممتا تڑپ ٹھی رات مصلے پر رب کے حضور سجدہ
ریز ہو گئی اور کہنے لگی اے اﷲ! آج ایک ماں اپنے بیٹے کی بینائی مانگنے کے
لیے تیرے در پر آ کھڑی ہوئی ہے خالی ہاتھ لوٹانا تیری شان کریمی نہیں ہے۔
سجدہ میں اونگھ آگئی خواب میں سیدنا ابراہیم آگئے اور ہاں اماں سر سجدے سے
اٹھا لیجیے اﷲ نے آپ کے بیٹے کوبینائی عطا کر دی ہے۔
رب کریم سنتا ہے ہر ماں کی بات کو
خالق ہی جانتا ہے سب اس کی صفات کو
اس کا جواب آتا ہے عرش بریں سے پھر
ماں جب پکارتی ہے کبھی پاک ذات کو
آپ کو پتہ ہے یہ بیٹا کون تھا یہ محمد بن اسماعیل امام بخاری تھے۔ اور ان
کی ماں تھی جس کے ایک سجدہ نے اﷲ کو راضی کر کے اپنے بیٹے کی بینائی واپس
لوٹا دی۔ پھر اﷲ تعالیٰ امام بخاریؒ کی آنکھوں کی بینائی اس قدر تیز کر دی
تھی۔ کہ وہ چاند کی رات میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے
اپنی کتاب تاریخ کبیر چاند کی چاندنی میں بیٹھ کر لکھی ہے۔ تاریخ بغداد
۱۰/۲۔
ماں کا گستاخ کا عبرتناک انجام
عوام بن حوشب کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ ایک بستی میں ٹھہرا ہوا تھا ‘ اس
بستی کے قریب ایک قبرستان تھا۔قبرستان کے پاس ہی ایک گھر میں میرا قیام
تھا۔میں نے دیکھا کہ عصر کی نماز کے بعد قبرستان کی ایک قبر پھٹی اور اس کے
اندر سے ایک انسان نکلا ۔اس کا سر گدھے کا اوربقیہ جسم انسانوں جیساتھا ۔اس
نے گدھے کی طرح تین دفعہ ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکالی پھر قبر بند ہوگئی
۔
قبرستان کے پاس ہی ایک بوڑھی خاتون کا گھر تھا۔وہ اپنے گھر کے پاس بیٹھ کر
سوت کاتا کرتی تھی ۔میں نے جب یہ منظر دیکھا تو ڈر گیا۔میں اندر ہی اندر
گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا۔ میں ابھی اس سوچ میں تھا کہ ایک عورت نے مجھ سے
کہا تم اس بوڑھی خاتون کو دیکھ رہے ہو جو سوت کات رہی ہے؟
میں نے کہا: ہاں دیکھ تو رہا ہوں، کیا اس کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ہے؟عورت
نے بتایا:یہ بوڑھی خاتون اس آدمی کی ماں ہے جسے ابھی تم نے قبر سے نکل کر
گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکالتے دیکھا ہے۔میں نے پوچھا: آخر یہ
آدمی ایسا کیوں کرتا ہے؟
عورت نے بتایا: بات یہ یہ ہے کہ یہ آدمی شراب نوشی کا عادی تھا۔ جب بھی یہ
شراب پیتا اس کی بوڑھی والدہ اسے منع کرتی اور اس سے کہتی کہ بیٹا ! اﷲ کا
خوف کرو،آخر کب تک تم شراب نوشی کرتے رہوگے؟ ماں کی بات سے اس کا بیٹا شدید
غصہ میں آجاتا اور ماں سے کہتا کہ تم کیوں گدھے کی طرح بولتی رہتی ہو۔
بالآخر ایک دن یہ شخص مر گیا اورجب سے یہ دفن ہوا ہے روزانہ عصر کے بعد اس
کی قبر کھل جاتی ہے یہ تین مرتبہ گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز
نکالتا ہے پھر اس پر قبر بند ہوجاتی ہے۔
علامہ اصہبانی ؒکہتے ہیں کہ اس قصے کو ابوالعباس الاصم نے نیشاپور میں حفاظ
کے ایک جم غفیر کے سامنے بیان کیا اور ان میں سے کسی نے اس واقعہ کو نہیں
جھٹلایا۔
[الترغیب والترہیب ، باب الترہیب من عقوق الوالدین (۲۵۱۷) قال الالبانی حسن
موقوف ]
|
|