بعض صوفیاء کے عقائد و نظریات
اور ان کے اعمال سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے اور جاتا ہے لیکن ان کے
طریقہ تبلیغ کا جائزہ لیا جائے تو ان کا طریقہ کار بہت حقیقت پسندانہ اور
نتائج کا حامل ہوتا ہے انہوں نے دوسروں کے سر جھکانے کی بجائے ان کے دلوں
کو فتح کرنے کو اپنا ہدف بنا لیا۔ وہ جانتے تھے کہ جن لوگوں کو انہوں نے
اپنا پیغام پہنچانا ہے، انہیں ان کے جیسا ہی بننا پڑے گا۔ ہندوستان میں
زیادہ تر صوفیا وسطی ایشیا سے آئے۔ انہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا۔
اس کی زبان سیکھی، یہاں کے کلچر سے واقفیت حاصل کی، یہاں کا لباس پہننا
شروع کیا اور یہاں کا رہن سہن اپنایا ۔
انہوں نے اپنے مخاطبین کو جاہل و حقیر قرار نہیں دیا بلکہ ان سے محبت و
الفت کا سلوک کیا۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان، جو بھی ان کے پاس آتا، اس سے
پیار کرتے، اسے اپنا بناتے۔ ان کے لنگر ہر مذہب کے لوگوں کے لئے بلا تفریق
جاری رہتے۔ انہوں نے اپنی دعوت کو لوگوں کی زبان میں عوامی کہانیوں اور
نظموں کی صورت میں پیش کیا۔ ان میں اتنی اپنائیت اور محبت ہوتی کہ لوگ
انہیں حفظ کرلیتے اور اپنی محفلوں، تقریبات اور یہاں تک کہ روزانہ کی چوپال
میں گا گا کر پڑھتے۔ ان کی اس دعوتی حکمت عملی (Strategy) کا نتیجہ یہ نکلا
کہ آج پورا برصغیر ہندو و مسلم کی تفریق کے بغیر ان کا دیوانہ ہے۔ آج بھی
پنجاب و سندھ کے دیہات میں ان کی نظمیں لوگ بڑے شوق سے پڑھ کر ایک دوسرے کو
سناتے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے آج کے بہت سے مبلغین عوام سے کٹ کر رہتے ہیں۔اٹھنے
بیٹھنے، کھانے پینے، رہن سہن اور لباس میں عام لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے
ہیں۔ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کی بات سنے بغیر انہیں اپنی سنانے
کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی تقاریر سے دور بھاگتے ہیں،
ان کی کتب کو کوئی کھول کر دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اگر کوئی ان کی سن بھی
لیتا ہے تو دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ دل پر وہی بات اثر کرتی ہے جس کے
پیچھے محبت، اپنائیت اور خلوص کے جذبات ہوں اور مخاطب کو ویسی ہی عزت دی
جائے جس کی ہم اپنے لئے توقع کرتے ہیں۔ |