کہا جاتا ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے،
یہیں سے وہ اٹھنا بیٹھنا،کھیلنا کودنا، چلنا پھرنا اور کھانا پینا سیکھتا
ہے۔تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو والدین اسکا داخلہ اسکول میں کروا دیتے ہیں۔جہاں
وہ مختلف اساتذہ کی صحبت میں اپنے تعلیمی سفر کی سیڑھیاں طے کرتا ہے۔جیسے
جیسے یہ سفر آگے بڑھتا جاتاہے ویسے ویسے شعور بھی اپنا سفر طے کرتا ہوا
آگاہی تک پہنچ جاتا ہے۔شعور سے آگاہی تک کا یہ سفر بلا شبہ بہت کٹھن اور
دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے لیکن یہاں جامعاتاپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے شخصیت بنتی اور بگڑتی ہے۔جامعات کی بات کی
جائے تو کراچی کی سب سی بڑی جامعہ ـ ــ’جامعہ کراچی‘ کا نام فوراً ذہن میں
آتا ہے۔یہ وہ جامعہ ہے جہاں سے بڑے بڑے سیاستدان،تجزیہ نگار، فلسفی،
صحافی،ادبی شخصیات،فنکار اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے تعلیم
حاصل کی اور آج وہ اپنے متعلقہ شعبوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض
سر انجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک رپورٹ یہ سامنے آئی کہ جامعہ میں کچھ
چور دروازے دریافت کیے گئے ہیں جنکے ذریعے غیر قانونی کام با آسانی سر
انجام دیے جا سکتے ہیں ۔کیونکہ جامعہ کراچی ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔
اسکے اطراف کا علاقہ گھنے جنگلات کا منظر پیش کرتا ہے ۔ان چور دروازوں کی
طرف کسی نے بھی کوئی خاص توجہ نہ دی ۔بہر حال یہ ایک تشویشناک بات ہے جسکا
جامعہ کی انتظامیہ کو فوراً نوٹس لینا چاہیئے ۔ اب کچھ بات جامعہ کے نظام
پہ بھی کر لی جائے۔جامعہ کراچی تمام جامعات میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر
کل ۴ کلیوں(فیکیلٹیز) میں تعلیم فراہم کی جاتی ہے، آرٹس، سائنس، کامرس اور
انجینئرنگ۔ان چاروں کلیوں میں کل ۵۵ شعبے موجود ہیں جن میں ملکی اور غیر
ملکی زبانوں کے شعبوں کے ساتھ معاشیات، سیاسیات، سماجیات،بین الاقوامی
تعلقات، شعبہ ادویات،حیاتیات،نباتیات، کیمیاء،طبیعیات وغیرہ کے شعبے شامل
ہیں۔اس جامعہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے اندر کراچی کی سب سے
بڑی لائبریری کو سمیٹے ہوئے ہے جسکا نام ’ڈاکٹر محمود حسین لائبریری‘
ہے۔ویسے تو جامعہ کراچی میں پوائنٹس کی کمی نہیں لیکن ہر سال کراچی کی
بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ جامعہ میں طلبہ اور طالبات کی تعداد میں بھی
اضافہ ہوجاتا ہے۔اسی تعداد کو مدّ نظر رکھتے ہوئے پوائنٹس کی تعداد میں بھی
اضافہ کردیا جاتا ہے۔لیکن ان پوانٹس کی خستہ حالی انتظامیہ اور حکومت کی نا
اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث یہ
پوائنٹس اپنی ذمّہ داری بروقت پوری کرنے سے قاصر ہیں۔جسکی وجہ سے طلبہ اور
طالبات کو نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان پوائنٹس کے انچارج سے جب
یہ سوال کیا گیا کہ فنڈز کی کمی کو کسطرح پوراکیا جاتا ہے تو ایک نئی بات
یہ سامنے آئی وہ یہ کہ اس انچارج کا کہنا تھا کہ اس کمی کو پورا بھی
پوائنٹس میں سفر کرنے والے طلباء ہی کرتے ہیں۔جامعہ کراچی میں ہر طبقے سے
تعلق رکھنے والے طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔جن میں سے اکثر طالبعلم
ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوائنٹس کا کرایہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انچارج
کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسے بچے بھی آتے ہیں جو خاموشی سے ہمارے ہاتھ
پرلال اور ہرے نوٹ رکھ کر کہتے ہیں کہ جو کرایہ دینے کی استطاعت نہ رکھتے
ہوں ان سے کرایہ مانگ کر انکی عزّتِ نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔اب کچھ ذکر
تعلیمی نظام کے حوالے سے بھی کر لیا جائے ۔کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹی وی
چینل کی جانب سے یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ جامعہ کراچی میں پرچوں کے درمیان
نقل کروائی جا رہی ہے اور اس کام کو کروانے میں کچھ اساتذہ بھی بالواسطہ
اور بلاواسطہ شریک پائے گئے ہیں ۔جو کہ ۱۰ سے ۱۲ ہزارروپوں میں طلبہ کو
امتحانی سینٹر کے آس پاس بیٹھ کر کتابیں کھول کر نقل کرنے کے لئے پرچہ مہیا
کرتے ہیں۔اور ۱۵ سے ۲۰ ہزار روپوں کے عوض امتحانی کاپی گھر پہنچانے کا بھی
انتظام تھا۔یہ رپورٹ ٹی وی پر نشر ہونے کے بعد نہ صرف جامعہ کی انتظا میہ
اور باقی اساتذہ کیلئے ایک شرمناک بات تھی بلکہ جامعہ کے تمام طلباء بھی اس
سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اسکے ساتھ ساتھ انتظامیہ کا رویہ بھی طلباء
کے ساتھ غیر تسلی بخش بلکہ نہایت جارحانہ ہے۔انرولمنٹ کارڈ نکلوانا ہو تب
مسئلہ ، امتحانی فارم جمع کروانا ہو تب مسئلہ،سیاسی بنیادوں پر غیر تجربہ
کار اساتذہ کا ملازمتوں پررکھا جانا، اساتذہ کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی
نہ کرنا،پوائنٹس کو ڈیزل کی عدم فراہمی،مختلف تعلیمی منصوبوں کیلئے حکومت
سے پیسہ لینا مگر اسے صحیح جگہ استعمال کرنے کے بجائے اسے ہڑپ کر
جانا،داخلے کے وقت طلباء کے ساتھ نا انصافی ہونا یہ سب جامعہ کراچی کے وہ
مسئلے ہیں جن بر بارہاں گفتگو کی گئی مگر آج تک ان مسئلوں کا کوئی خاطر
خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جامعہ کراچی میں دو شفٹوں میں تعلیمی سرگرمیاں
عمل میں آتی ہیں، ایک مارننگ دوسری ایوننگ۔ مارننگ میں وہ بچے تعلیم حاصل
کرتے ہیں جنکا داخلہ میرٹ پر ہوا ہوتا ہے، جبکہ ایوننگ میں ایسے طلباء
تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جو کم نمبروں کے باعث میرٹ پر پورا نہیں
اترتے اور زیادہ فیس دے کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔بظاہر تو یہ ایک ہی جامعہ
کی دو شفٹیں ہین لیکن ان میں واضح فرق نظر آتا ہے۔مارننگ کے طلباء کو ہر
طرح کی سہولیات میسر ہیں۔کوٹا سسٹم بھی صرف مارننگ شفٹ کے طلباء کیلئے
ہے۔اسی طرح پوائنٹس کی سہولت بھی صرف مارننگ شفٹ کے طلباء کیلئے ہے جس سے
ایوننگ شفٹ کے بچے محروم ہیں۔وہ طلباء جنکی کلاسس شام دیر تک جاری رہتی ہیں
انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے میں نہایت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ
تو تھا جامعہ کا نظام، لئکن اگر جامعہ کی حدود سے باہر نکل کر پورے شہر یا
پورے ملک کا جائزہ لیا جائے تویہاں بھی ہمیں دوہرا نظامِ تعلیم نظر آتا ہے،
ایک گورنمنٹ دوسرا پرائیویٹ۔ اور یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہم متحد
ہونے کی بات تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر اسکا کوئی نمونہ پیش نہیں
کرتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اوّل سے آخر تک پورا نظام ٹھیک کیا جائے۔اور
ایسا کرنا کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں اگر نظام کو ٹھیک کرنا ہے تو سب
کو یکجہتی کے ساتھ اس کے لئے مثبت اقدامات کرنے ہونگے۔۔ میرا جامعہ کی
انتظامیہ سے سوال ہے کہ آخر نظامِ تعلیم میں تفریق کی وجہ کیا ہے اور یہ
تفریق کب ختم ہوگی؟ کب جا معہ کے ماحول کو ہر طرح کے مسئلے سے پاک کیا
جائیگا ؟اور کب انتظا میہ کی نا اہلی کے خلاف نوٹس لیا جائے گا؟ |