کیا ہماری نسلِ نو صحیح معنوں میں علم حاصل کر رہی ہے

ریاستِ مہاراشٹر کے بارھویں جماعت کے نتائج کے پس منظر میں

انسان کے لیے تعلیم ایک ناگزیر ضرورت ہےبلکہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے انسان کی بنیادی ضروریات میں بھی شمار کیا گیا ہے۔ جو انسان علم سے کورا ہوتا ہے، اسے انسانی تہذیب و معاشرت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، زیورِ علم ہی سے انسان حقیقی معنوں میں انسان بنتا ہے۔ اب یہ بات کہ علم کسے کہتے ہیں، یا دینی و عصری علوم کی تفریق۔۔۔اس وقت ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں کرنی، ہاں ہم ذاتی طور پر ہر دو علم کی اہمیت و ضرورت کے قائل ہیںاور اسلام کے مزاج کو بھی ہم جتنا اپنے ذہنِ نا رسا کی بدولت سمجھ پائیں ہیں، اس میں بھی ان دونوں علم میں سے کسی کو حاصل کرنے کی ممانعت وارد نہیں ہوئی، اِ لّا یہ کہ کوئی چیز بالکل اسلام و شریعتِ اسلام کے منافی ہی ہو۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ آج عصری اور دینی علوم کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کر دی گئی ہے، جسے پاٹنا خاصا مشکل ہے لیکن اس کا علاج ہماری نظر میں صرف یہی ہے کہ ہم اپنے کردار و عمل سے اس کے خلاف احتجاج کریں نہ کہ ایک دوسرے کو ملامت کرتے رہیں۔ اس جانب بعض جگہوں پر مناسب اقدام بھی کیے جا رہیں ، جو کہ واقعی لائقِ تحسین ہیں لیکن حقیقتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ہرگز کافی نہیں،کاش کے اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو۔ اس وقت ہم مہاراشٹر میں آئے بارھویں جماعت کے نتائج کے حوالے سے کچھ رعرض کرنا چاہیں گے۔
مہاراشٹرریاست کے تعلیمی بورڈ کی جانب سے 21فروری تا26 مارچ 2015 کے درمیان منعقدہ ایچ ایس سی یعنی بارھویں جماعت کے امتحانات کے نتائج27مئی بروز بدھ دوپہر کو آن لائن دکھا دیے گئے، جس کے مطابق بورڈ کی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ یعنی91.26% نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ہر بار کی طرح اس بار بھی لڑکیوں کی کارکردگی لڑکو ں سے بہتر رہی۔ ایچ ایس سی میں مسلسل چوتھی دفعہ کوکن ڈیویزن نے 95.68%نتیجہ لاکر بازی مار لی جب کہ مہاراشٹر کے 9علاقائی بورڈ سے ناسک بورڈ کے تحت محض 88.13%طلبہ کامیاب ہو سکے۔ پونے ڈیویزنل بورڈ کا نتیجہ 91.96%، اورنگ آباد بورڈ کا 91.77%اور لاتور کا 91.93%رہا۔ ممبئی بورڈ کے تحت سب سے زیادہ امیدواروں نے امتحان میں شرکت کی جن میں 90.11%طلبہ نے کامیابی حاصل کی۔ اعداد و شمار کے مطابق امسال مہاراشٹر بورڈ کے زیرِاہتمام 12.37لاکھ طلبہ نے امتحان میں شرکت کی، جن میں 91.26%طلبہ کامیابی سے ہم کنار ہوئے، جن میں لڑکیوں کا اوسط94.29%اور لڑکوں کا اوسط 88.20%رہا۔ اس بار سائنس کے شعبے میں 95.72%، آرٹس میں 86.31%،کامرس میں 91.67%اور ووکیشنل کورسیس میں 89.2%طلبہ کامیاب ہوئے۔

اس موقع پر یہ خوشی کی بات ہے کہ گذشتہ سال کے بالمقابل امسال زیادہ طلبہ نے امتحان میں شرکت کی اور اوسطاً کثیر تعداد میں طلبہ کامیاب بھی ہوئے، امتحانات کے نتائج برآمد ہوتے ہی آئندہ جماعتوں کے لیے کالجز میں داخلہ فارم بھی تقسیم ہونا شروع جائیں گےلیکن ہم جیسوں کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ امسال گذشتہ سال کے مقابلے میںجن ہزاروں زائد طلبہ نے امتحانات میں حصہ بھی لیا اور کامیابی بھی حاصل کی، آگے کی تعلیم کے لیے ان کے داخلے کیسےاہوں گے، اس لیے کہ باوجود طلبہ کی تعداد میں کثیر اضافہ ہونے کے ہم نے اپنے آس پاس سرکاری یا غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا اور نہ ہی قدیم اداروں کی نشستوں میں کوئی اضافہ ہمارا علم میں آیا ہے، لگتا ہےہر بار کی طرح تعلیمی اداروں کے نام پر کام کرنے والے ان اداروں کے مالکان اس بار بھی ’’لے دے کر‘‘ اس دشوار ترین مرحلے کو طے کر لے جائیں گے یا پھر بہت سی خود کشیوں کی خبریں آئندہ دنوں اخبارات کی زینت بنیں گی اور باقی ماندہ طلبہ یا تو تعلیم کے سلسلے کو ہی منقطع کردیں گے یا برائے نام فاصلاتی تعلیم کا فارم بھر کر مطمئن ہو جائیں گے۔کاش کہ اس جانب کوئی توجہ مبذول کرے۔

گذشتہ سالوں کے بالمقابل اس سال امتحانات کا نتیجہ سب سے بہتر رہا اور ہماری دلی تمنا یہی ہے کہ ہمارا پورا ملک تعلیمی وتعمیری میدان میں روز افزوں ترقی کرے لیکن کیا کریں ہمیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ ہماری نسلِ نوفیصد کے اعتبار سے بھلے ہی تعلیمی میدانوں میں ترقی کررہی ہو لیکن حقیقی معنوں میں وہ علم اور زیورِ علم سے عاری ہوتی جارہی ہے۔ یہ احساس ہی نہیں بلکہ ہمارا ذاتی مشاہدہ بھی ہے، جس کی وجہ ہمیں یہ سمجھ میں آئی کہ عین ممکن ہے کہ وہ ’علم‘ حاصل ہی نہ کررہی ہو بلکہ ان کے پڑھنے لکھنے یا زیادہ سے زیادہ فیصد حاصل کرنے کا منشا ہی کچھ اور ہو جو کہ لوگوں کی تالیاں بٹورنا، کسی سے مقابلۂ محض کرنا، بنا سوچے سمجھے دیکھے گئے اپنے خوابوں کو پورا کرنا یا زیادہ سے زیادہ اپنی معاشی حالات درست کرنا۔۔۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ واقعی سماج اور اس کے بدلتے اقدار پر نظر رکھتے ہیں، تو یقینا آپ بھی ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے، پھر ہم اس پورے معاملے میں صرف اس نسلِ نو کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے، اس لیے کہ اس میں قصور نسلِ نو ہی کا نہیںبلکہ ہمارے پورے تعلیمی بلکہ سماجی وملکی نظام کا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس بچّے کی پرورش انھیں سپنوں کو سنجونے کے ساتھ ہوئی ہو،اس سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے؟آج جب معصوم بچوں کو تعلیم کی خاطر اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے، وہاں انھیں مقابلے کے علاوہ اور سکھایا ہی کیا جاتا ہے؟ پھر یہ بچے کچھ بڑے ہوتے ہیں، تو ان کاسر مستقبل سنوارنے کے نام پر ایسی اوکھلی میں دے دیا جاتا ہے، جس سے باہر نکلنا ان کے لیے زندگی بھر ممکن نہیں ہوپاتا۔ آج ہماری تعلیم سے مذہب واخلاق کو نکال کرپھینک دیا گیا ہے اور چند تکنیکی مباحث پر عبور حاصل کرلینے کا نام ہم نے ’علم‘ رکھ دیا، ظاہر ہے اس سے طلبہ میں مشینوں کی سی صفات تو پیدا ہوسکتی ہیں، انسانوں کے سے اخلاق ہرگز پیدا نہیں ہو سکتے۔
ع آدمی کو بھی مشکل ہے انسان ہونا

یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ بزعمِ خود’ ’اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ‘اور اساتذہ بھی اپنا معاش حاصل کرنے کے لیے پڑھاتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا سماج اخلاق کے معاملہ میں دیوالیہ نہ ہو تو اور کیا ہو؟ حد تو یہ ہے کہ جن فنوں کے حصول میں ہم لگے ہوتے ہیں، ان سے بھی کما حقہ واقفیت نہیں حاصل کر پاتے! نصاب کے علاوہ خارجی مطالعہ تو جیسے عیب ہی سمجھا جانے لگاہے، پھر طلبہ اس لیے مطالعہ نہیں کرتے کہ ابھی تو وہ طلبہ ہیں اور اساتذہ اس لیے نہیں پڑھتے کہ اب تو وہ استاذ ہوگئے، اب انھیں مطالعہ وغیرہ کی کیا ضرورت؟ اسکول، کالجز کے اساتذہ اس لیے طلبہ پر محنت نہیں فرماتے کہ کلاسیس والے یہ فرض ادا کریں، کلاسیس والے اسکول، کالجز پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں محض افسانہ نہیں، بلکہ حقیقت ہیں۔ اب ایسے میں قوم وملت کو جیسے ’افراد‘ ملنے چاہئیں، ویسے ہی مل رہے ہیں۔ نظر اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ جس طرح یہ طلبہ رشوت دے کر اعلیٰ سندیں حاصل کر کے اعلیٰ مناصب تک پہنچے ہیں، پھر اسی طرح سود سمیت سماج سے وصول کر تے ہیں۔ہر طرف رشوت خوری کی وبا عام ہے۔ڈاکٹر، جنھیں معاشرے میں انسانیت کے خادم ہونے کا شرف حاصل تھا، وہ انسانوں کو کس طرح لوٹ کھسوٹ رہے ہیں! خود یہ تعلیمی ادارے ڈونیشن کے نام پر اور خدا جانے کس کس طریق پر کالا بازاری عام کیے ہوئے ہیں اور کوئی انھیں پوچھنے والا بھی نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ زندگی بھر طلبہ یہی سب دیکھتے ہیں اور اپنے گھروں میں اسی کا چرچا سنتے ہیںتووہ کسی منصب و عہدےپر آکر اس کے برعکس عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟

ان حالات کے پیشِ نظر ملک وملت کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ایسے افراد اور ایسا معاشرہ تیار کیا جائے جو تعمیری کام کرے اور مسائل میں جھلسی انسانیت کو راحت دے،نہ یہ کہ انسانوں کو ذاتی مفاد پرستی پر آمادہ کرے اور ملک وملت کا بیڑہ غرق کردے۔اس جانب جس قدر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ سماجی کارکنان اور ہر بڑے کو اپنی سی کوشش کرنے کرنا ناگزیر ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہوش کے ناخن لیںورنہ اگر جلد ہی اس راہ میں مناسب تدابیر اختیار نہ کی گئیںبلکہ ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو پھر بد سے بدتر نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائیے!
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347147 views (M.A., Journalist).. View More