بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہِ اَجْمَعِین۔
شریعت کی تعلیمات کے مطابق مردوعورت کو اس طرح زندگی گزارنی چاہئے کہ گھر
کے باہر کی دوڑ دھوپ مرد کے ذمہ رہے، اسی لئے بیوی اور بچوں کے تمام جائز
اخراجات مرد کے اوپر فرض کئے گئے ہیں، شریعت اسلامیہ نے صنف نازک پر کوئی
خرچہ لازم نہیں قرار دیا، شادی سے قبل اس کے تمام اخراجات باپ کے ذمہ اور
شادی کے بعد رہائش، کپڑے، کھانے اور ضروریات وغیرہ کے تمام مصارف شوہر کے
ذمہ رکھے ہیں۔ عورتوں سے کہا گیا کہ وہ گھر کی ملکہ ہیں۔ (صحیح بخاری )
لہٰذا ان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز گھر کو بنانا چاہئے جیسا اﷲ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ
الْجَاہِلَیَۃِ الْاُوْلٰی (سورۃ الاحزاب ۳۳) حضور اکرم ﷺنے حضرت فاطمہ رضی
اﷲ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے درمیان کام کو اس طرح تقسیم کردیا تھا
کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا گھر کے اندر کے کام کیا کرتی تھیں اور حضرت علی
رضی اﷲ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیا کرتے تھے۔ لوگوں کے تحفظ کی ذمہ
داری مردوں پر رکھی گئی ہے، نہ کہ عورتوں پر، مردوں پر جماعت کے ساتھ نماز
ادا کرنے کو واجب یا سنت مؤکدہ اشد التاکید قرار دیا گیا، جبکہ عورتوں کو
گھر میں نماز پڑھنے کی بار بار ترغیب دی گئی۔
مرد وعورت کی ذمہ داری کی یہ تقسیم نہ صرف اسلام کا مزاج ہے بلکہ یہ ایک
فطری اور متوازن نظام ہے جو مردو عورت دونوں کے لئے سکون وراحت کا باعث ہے۔
لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کا ملازمت یا کاروبار کرنا حرام ہے،
بلکہ قرآن وحدیث چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ جو کام مردوں
کے لئے جائز ہیں، اگر قرآن وحدیث میں عورتوں کو ان سے منع نہیں کیا گیا ہے
تو عورتوں کے لئے شرعی حدود وقیود کے ساتھ انہیں انجام دینا جائز ہے۔ بعض
اوقات خواتین کی ملازمت کرنا معاشرہ کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے مثلاً
امراض نساء وولادت کی ڈاکٹر، معلمات جو لڑکیوں کے لئے بہترین تعلیم کا نظم
کرسکیں۔ غرضیکہ عورت شرعی حدود وقیود کے ساتھ ملازمت یا کاروبار کرسکتی ہے۔
ان شرعی حدود کے لئے چار امور اہم ہیں: ۱) پردہ کے احکام کی رعایت ہو۔ ۲)
اجنبی مردوں کے اختلاط سے دور رہا جائے۔ ۳) گھر سے کام کی جگہ تک آنے جانے
کا معقول بند وبست ہو ۴) ولی وسرپرست کی اجازت ہو۔
خواتین کے ملازمت یا کاروبار کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے گھر کے
معاشی حالات بہتر ہوجاتے ہیں۔ نیز سماج کے بگڑے ہوئے لوگ جو عورتوں کو
مجبور و بے بس سمجھ کر ان پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں اور عورتیں خاموش رہنے
پر مجبور رہتی ہیں، اس کے ذریعہ خواتین کو کچھ آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن
ہماری سوسائٹی اور خود عورتوں کو جو اس سے نقصانات ہوئے ہیں وہ ان محدود
فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، چند نقصانات پیش خدمت ہیں: ۱) عورت جب خود ملازمت
کرتی ہے تو وہ اپنی ضروریات کے لئے شوہر کی محتاج نہیں ہوتی ، اس لئے شوہر
کی جانب سے خلاف مزاج بات پیش آنے پر برداشت کرنے کا جذبہ کم ہوجاتا ہے، جس
کی وجہ سے رشتۂ نکاح میں دراڑ آنے لگتی ہے اور طلاق تک نوبت آجاتی ہے،
چنانچہ ملازمت کرنے والی خواتین کے لئے طلاق کے واقعے ملازمت نہ کرنے والی
عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ سامنے آتے ہیں۔ ۲) جب عورت ملازمت کے لئے نکلتی
ہے تو بسا اوقات شوہر عورت کے بارے میں شک وشبہات میں مبتلا ہوجاتاہے، یہ
چیز اس کے سکون میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے نکاح کا اہم مقصد ہی
فوت ہوجاتا ہے۔ ۳) بچے ماں کی ممتا اور صحیح تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ۴)
خواتین کی ملازمت سے عورتوں کے جنسی استحصال کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔
۵) عورت کی ملازمت کی وجہ سے گھر خاص کر مطبخ (کچن)کا نظم صحیح نہیں چلتا
ہے جس کی وجہ سے شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعات زیادہ پیش
آتے ہیں۔
غرضیکہ مذکورہ بالا شرائط کی موجودگی میں عورت ملازمت کرسکتی ہے مگر عورت
کی ملازمت کی وجہ سے جو عموماً نقصانات سامنے آتے ہیں، جیسا کہ میں نے ذکر
کیا ہے، ان کا سد باب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ |