موٹر سائیکل کے بڑھتے ہوئے حادثات

حیدرآباد میں گزشتہ تین دن میں میرے عزیزوں کے تین سے زائد ایسے حادثات ہوئے ہیں جن کا سبب موٹر سائیکل کے تیز رفتاری اور لاقانونیت ہے۔ ان حاثات کے نتیجے میں میرے ایک کزن دوست محمد کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ جبکہ بقیہ حضرات بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ حیدرآباد شہر میں ان دنوں موٹر سائیکلوں کا سیلاب ہے، اور اس کے سوار زیادہ تر بچے ہیں، جو تیز رفتاری سے گلی کوچوں میں موٹر سائیکل دوڑاتے ہیں۔ حیدرآباد میں تعمیر ہونے والے پل بھی ان موٹر سائیکل کے حادثات کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، جہاں رات میں موٹر سائیکل سوار غلط سمت سے تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ یا پل پر موٹر سائیکلیں کھڑی کر کے ہوا خوری کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، اور ٹریفک کے قوانین سے لاپروا ہوتے ہیں۔ دو ماہ قبل ٹنڈوالہیار میں بھی موٹر سوار دو کمسن بچوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس سے ایک پورا خاندان اجڑ کر رہ گیا تھا۔ آج کل حیدرآباد کے اسپتال موٹر سائیکل کے حادثوں کے زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے حادثات کی روزانہ اوسط ۰۲ سے ۵۲ ہے۔ جن میں آرتھوپیڈک کے کیس زیادہ ہیں۔ حیدرآباد جیسے شہر کے لئے یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب شہر میں ٹریفک قوانین کی پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اور عوام کو ان تیز رفتار قاتلوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ پہلے کبھی حیدرآباد میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ موٹر سائیکلوں کی آپس میں ٹکر کے نتیجے میں کوئی ہلاک ہوسکتا ہے۔ اب یہ آئے دن کا معمول ہے۔ کراچی میں بھی ایسے حادثات کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ اب ہر ماہ تقریباً پچاس سے زائد افراد موٹر سائیکل کے حادثے میں ہر ماہ ہلاک ہوتے ہیں۔ جبکہ زخمی اور معزورین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

حادثات کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد راہگیر ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی جاں بحق ہونے والے افراد میں سائیکل و موٹرسائیکل سوار، ڈرائیور اور مسافر شامل تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ موٹر سائیکل سواروں کے حادثات میں متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ تیز رفتاری اور ہیلمٹ نہ پہننا ہے۔ کراچی میں ایک خطرناک رجحان یہ ہوگیا ہے کہ اکثر جگہوں پر غلط سمت سے ٹریفک چل رہا ہوتا ہے۔ زیادہ تر حادثات مختلف سگنل فری کوریڈورز پر پیش آتے ہیں۔ کراچی میں اکثر حادثات زیادہ تر بسوں، منی بسوں، ٹرک اور ٹریلرز، ڈمپرز اور واٹر آئیل ٹینکروں کی تیز رفتاری یا اوور ٹیکنگ کے سبب بھی پیش آتے ہیں۔ کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر کچھ دن پہلے ایک منی بس والے نے فٹ پاتھ پر کھڑی ایک بچی کو ٹکر مار دی۔ پھر اس کے کمسن بھائی اور خالہ کو ہسپتال لے جانے کے بہانے انھیں کہیں ویران علاقے میں چھوٹ کر بھاگ گیا۔ بچی خون زیادہ بہہ جانے پر انتقال کرگئی۔ ایسے حاثات اس شہر میں ہورہے ہیں، جو کھلی لاقانونیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ شہر کی اکثر سڑکیں فٹ پاتھ کے بغیر ہیں اور جہاں فٹ پاتھ ہیں وہاں تجاوزات کے قبضے ہیں جس کی وجہ سے راہگیروں کو مجبوراً فٹ پاتھ کے بجائے سڑک پر چلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے نا گہانی حادثات جنم لیتے ہیں۔ ٹریفک ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں ٹریفک پولیس کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے جس میں اضافہ کیے بغیر عوام کو ٹریفک قوانین کا پابند بنانا ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ شہر میں ڈرائیوروں کی اکثریت کے پاس لائسنس بھی نہیں ہے۔

اس لیے جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ گاڑی جائے وقوعہ پر چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں اور یہ گاڑیاں بعد میں ان کے مالکان با آسانی کورٹ سے با زیاب کرا لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طرح غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو تحفظ ملتا ہے اور وہ احتساب سے بچ جاتے ہیں۔ ایسے میں حادثات کی روک تھام کیسے ممکن ہو سکتی ہے ؟ایک افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ محکمہ ٹریفک کے پاس بڑی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے مکمل اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ٹریفک حکام نے پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان سے ڈرائیوروں کے مکمل کوائف طلب کئے تھے ۔ جس پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ ماہرین کے نزدیک ان حادثات کی ایک اہم وجہ ٹریفک قوانین کی عملداری میں ناکامی اور لوگوں کی ان قوانین سے نا واقفیت ہے۔ ٹریفک کے ضابطہ اخلاق سے متعلق رہنمائی بھی اب فراہم نہیں کی جاتی، اس شہر میں کراچی ٹرانسپورٹ ٹیکنیکل اسکول ہوا کرتا تھا جہاں شہری ٹریفک قوانین سیکھتے تھے اور پھر انہیں ادارے کی جانب سے سرٹیفیکیٹ دیا جاتا تھا جس کی بنیاد پر انہیں ڈرائیونگ لائسنس ملتا تھا۔ بعد میں حکومت نے اس ادارہ کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے بند کر دیا اور اب بہت سے ڈرائیور بسوں، منی بسوں، ڈمپرز اور ٹرکوں کے لیے جعلی لائسنس کراچی اور حیدر آباد سے رشوت دے کر حاصل کرتے ہیں۔

ٹریفک ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام ٹریفک حادثات کی شرح کو کم کرنا یا ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا ساتھ ہی ہر سطح پر عوام میں ان قوانین سے آگاہی میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ تیز رفتار اور غیر محتاط ڈرائیونگ بے شمار زندگیاں ختم کرنے کا سبب نہ بنے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419552 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More