اردو ۔۔۔۔۔۔۔۔بطور ذریعہ تعلیم

اردو ہماری قومی زبان ہے ،ہمارے فکرو نظر کا بہترین ذریعہ اظہار ہے ،اگر ہم با حیثیت ایک آزاد قوم کے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی زبان ،اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب کی حفاظت کریں ،اردو کو بطور ذریعہ تعلیم استعمال کریں۔ذریعہ تعلیم سے مراد وہ زبان ،طریق اور انداز ہے جس کے وسیلے سے استاد طلبا ء کو بات سمجھاتا ہے اور طلباء استاد سے علم حاصل کرتے ہیں ۔اصطلاحی طور پر ہم ذریعہ تعلیم سے مراد صرف وہ زبان لیتے ہیں ،جو درس و تدریس کی دنیا میں فہم و تفہیم کا کام دیتی ہے ۔بانی پاکستان نے مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) میں کھڑے ہو کر ارشار فرمایا تھا کہ پاکستان کی ایک ہی قومی زبان ہے اور وہ ہے اردواور صرف اردو۔قائداعظم تو اردو واجبی ہی جانتے تھے انگریزی کے فاضل تھے لیکن وہ آزاد قوم کے ملی تقاضوں سے آشنا تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ کسی غیر زبان سے آزادی کا تصور پھل پھول نہیں سکتا اور نہ کوئی غیر زبان ،غیرت و حمیت جیسے جذبات پیدا کر سکتی ہے۔ دوسروں کی زبانیں وہی قومیں اپنایا کرتی ہیں جو ذہنی طور پر غلام ہوتی ہیں کچھ ایسے ہی تصورات تھے جن کی بنا پر قائداعظم نے انگریزی کی جملہ جامعیت،وسعت اور بین الاقوامیت کے باوجود یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اگر یہ قومی زبان اور یقینا ہے تو ہماری تعلیم کا وسیلہ و ذریعہ اسے اور صرف اسے ہی ہونا چاہیے ۔

یہ کہا جاتا ہے کہ اردو سائنسی ،فنی اور تکنیکی مضامین کا ساتھ نہیں دے سکتی کیونکہ اس میں متعلقہ اصطلاحات نہیں ہیں ۔نیز جب طالب علم ایف ایس سی اردو کے ساتھ پاس کرے گا اور پیشہ ورانہ کالجوں میں اسے پھر انگریزی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ ایک عجیب و غریب مصیبت میں گرفتار ہوجائے گا ۔جہاں تک اصطلاحات اور ذخیرہ الفاظ کا تعلق ہے اردو ایک ہمہ گیر زبان ہے اس میں بے پناہ وسعت ہے ایک قوت جاذبہ ہے ۔یہ دوسری زبانوں کے الفاظ و تراکیب اخذ کر سکتی ہے ۔مختلف ادوار میں اسے بطور ذریعہ تعلیم آزمایا اور اپنایا جا چکا ہے ۔اردو میں فنی،طبی،سائنسی غرض ہر قسم کی اصطلاحات کو منتقل کیا جا سکتا ہے ۔بشرطیہ کہ ہمارا ذہن مفلس، سوچ غلام اور فکر اپاہج نہ ہو۔رہ گئی پیشہ ورانہ اداروں میں انگریزی میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ تو یہ ارباب اختیار کا فرض ہے کہ وہ پہلے اچھی طرح تیاری کر لیں اور پھر بیک قلم اردو کو ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے ۔یہ ایک المیہ بھی ہے اور شرمناک حقیقت بھی کہ میٹرک میں تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ایف ایس سی میں فیصلے کے مطابق تدریس اردو ہی میں ہونی چاہیے مگر عملا تدریس انگریزی میں ہی ہوتی ہے ۔پرچہ بھی انگریزی میں ہی آتا ہے چونکہ طلباء کو پڑھایا انگریزی میں جاتا ہے اس لیے وہ پرچہ بھی انگریزی میں حل کرنے پر مجبور ہیں ۔
گلہ تو گھونٹ دیا ،اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا ،لا الہ الاﷲ

ذریعہ تعلیم وہی زبان بن سکتی ہے جو اپنے اندر فہم و تفہیم کی صلاحیتیں رکھتی ہو جسے استاد اور شاگرد دونوں جانتے ،بولتے اور سمجھتے ہوں جس کا دامن اور ذخیرہ الفاظ وسیع ہو ۔جس میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی کام ہو سکتا ہو۔جس کی زبان کا سرمایہ ادب پر وقار ہو ،جس میں اخذ و جذب،ڈھلنے اور ڈھالنے کی صلاحیت ہو ملکی سطح پر وہ بولی اور سمجھی جاتی ہو اور لوگ اسے پسند کرتے ہوں ۔وہ لوگ جو انگریزی کے حق میں ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے ۔اس لیے اسے رہنا چاہیے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی امور چند شخصیات سر انجام دیا کرتی ہیں ۔ساری قوم کو انگریزی کی تحصیل کیلئے مجبور کرنا ایک زیادتی ہے بلکہ ہمارے طلباء کی اکثریت محض اس غیر زبان کی وجہ سے سالہا سال ناکام رہتی ہے اور یوں نوجوان ناکامیوں کی دلدل میں جا گرتا ہے جب آزاد قوموں کے نوجوانوں کو کسی رخ پر بھی مجروح یاس نہیں ہونا چاہیے ایسی مایوسی اور ناکامی آزاد اقوام کیلئے زہر قاتل ہوا کرتی ہے ۔اپنی زبان وجہ فخر ہوتی ہے ۔جو قوم اپنی زبان نہیں رکھتی وہ تہذیب و تمدن اور تاریخ و ثقافت کے اعتبار سے غیروں پر تکیہ کرتی ہیں اور وہ سب ہونے اور پانے کے باوجود مفلس ،نادار اور گونگی ہوتی ہے ۔یہ کہنا کہ اردو کا دامن محدود ہے دور حاضر کے ترقی پسندانہ تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتی بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی کو کام کا موقع نہ دیا جائے اور بغیر آزمائش کے اسے ناکارہ سمجھ لیا جائے ۔ایک طویل عرصہ سے ہم انگریزی کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں ،ہمارا ذہن غلام ہے نگاہوں میں آفاقی انداز نہیں ۔نتیجہ معلوم کے ولوں میں آفاق گیری کے ولوے موجود نہیں ۔ہم نے آئین میں یہ تو درج کر دیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہو گی مگر آج تک اسے عملی طور پر نافذ نہ کر پائے۔اردو زبان کے حوالے سے ایک کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور حکومت نے اس کیس کا جواب داخل کرانا بھی گوارہ نہ سمجھا اور عدالت میں وفاق کو دس ہزار روپے جرمانہ کر دیا گیا ۔ہمارے حکمرانوں کے پاس لوٹ مار کے سوا فرصت ہی نہیں کہ وہ اس طرف توجہ دے سکیں اور یہ کیس برسوں پر مزید محیط رہے گااور ہم جیسے کئی قلم کا ر یوں ہی لاحاصل گفتگو کرتے رہیں گے ۔بہر حال بحثیت پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے تحفظ کیلئے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں گے۔(شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات )۔
Iqbal Zarqash
About the Author: Iqbal Zarqash Read More Articles by Iqbal Zarqash: 69 Articles with 61635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.