عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (23)

جنگِ بدر میں سرفروشانِ اسلام کو خالقِ ارض و سما نے عظیم ترین فتح سے ہمکنار کیا تھا اور یقینا یہ تاریخ انسانی کا اہم ترین واقع تھا یہ خوشی اور فتح کے دن تھے لیکن رحمتِ دو جہاں کے اہم ساتھی حضرت عثمان ؓ اور رحمتِ دو عالم ﷺ اِس عظیم فتح کے باوجود مغموم تھے ۔کیونکہ حضرت عثمانؓ کی نیک اور محبوب اور خوب سیرت لختِ جگر حضرت رقیہ ؓ جنگ بدر کے روز ہی اﷲ کو پیاری ہو گئیں تھیں ۔ سرور کائنات ﷺ ابھی مدینہ منورہ تشریف نہیں لائے تھے کہ آپ ﷺ کی نورنظر بیٹی کو لحد میں اتار دیا گیا اور یوں محسنِ عالم ﷺ اپنی بیٹی کی تدفین میں بھی شامل نہ ہو سکے ۔ حضرت عثمان غنی ؓ کو جہاں اپنی محبوب بیوی کے فوت ہونے کا شدید رنج تھا وہیں اِس سے بھی بڑھ کر یہ صدمہ کہ اب اُن کا سرتاج الانبیاء ﷺ سے دامادی کا رشتہ بھی ختم ہو چکا تھا نیز یہ کہ حضرت عثمان غنی ؓ کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ ؓ کی دیکھ بھال کرنے والا گھر میں کوئی موجود نہیں تھا ۔ کیونکہ اُس وقت حضرت عثمان غنی ؓ کے نکاح میں کوئی دوسری عورت نہ تھی ۔ رحمتِ مجسم ﷺ سے حضرت عثمان ؓ کی اداسی دیکھی نہ گئی لہذا محسنِ انسانیت ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت امِ کلثوم ؓ کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے کر کے انہیں لازوال فضیلت ذوالنورین کی دے دی ۔ محسنِ اعظم ﷺ کی تیسری بیٹی حضرت امِ کلثوم ؓ نبوت سے 6سال پہلے پیدا ہوئیں ۔ حضرت امِ کلثوم ؓ کا پہلا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتیبہ سے ہوا لیکن رخصتی نہیں ہو ئی تھی ۔ اعلان نبوت کے بعد محسنِ دو عالم ﷺ کو سخت تکلیف پہچانے کے لیے ابو لہب نے اپنے بیٹے کو زور دے کر کہا وہ حضرت امِ کلثوم ؓ کو طلاق دے دے جو امِ کلثوم ؓ کے لیے نیک شگون ثابت ہوئی ۔ ہجرت حبشہ کے وقت جب امِ کلثوم ؓ کی بہن حضرت رقیہ ؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ تشریف لے گئیں تو حضرت امِ کلثوم ؓ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ اپنے بابا جان اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ ؓ کی محبت و شفقت کے سائے میں والدین کے گھر رہنے لگیں ۔ رحمتِ مجسم ﷺ جب تبلیغ ِ دین کے سلسلے میں گھر سے باہر جاتے تو امِ کلثوم ؓ کم سِن ہونے کے باوجود اپنے بابا جان کو ہمت اور حوصلے سے رخصت کر تیں اور جب ہادی عالم ﷺ کفار کی ایذا رسانیوں کے بعد گھر تشریف لاتے تو امِ کلثوم ؓ آگے بڑھ کر اپنے بابا جان کے غم اور دکھ کو اپنی مصوم باتوں سے دور کر دیتیں ۔

دشمنانِ مکہ کی روز بروز بڑھتی سختیوں اور مظالم سے تنگ آکر جب معلم انسانیت کو اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہو نا پڑا تو حضرت امِ ِ کلثوم ؓنے بھی اپنی عظیم ماں عظیم بہن حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ اپنے بابا جان کی معیت میں تمام سختیاں صبر و استقامت کے ساتھ بر داشت کیں تقریباً تین سال کی محصوری کے بعد 10نبوی کو یہ ظلم و جبر کا دور ختم ہوا تو خاندان رسول ﷺ نے اطمینان کا سانس لیا لیکن یہ اطمینان بھی عارضی ثابت ہوا جب اِسی سال رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں محسنِ انسانیت ﷺکی زوجہ مطہرہ اور حضرت امِ کلثوم ؓ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ قضائے الہی سے انتقال کر گئیں ۔

حضرت امِ کلثوم ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کا بچپن سوگوار یت اور رنج کے سمندر میں ڈوب گیا ۔ تو آخر کار محسنِ دو عالم ﷺ نے اپنی لا ڈلی بچیوں کی تربیت کے لیے ایک سن رسیدہ خاتون ام المومنین حضرت سودہؓ سے نکاح کر لیا ۔ ام المومنین حضرت سودہ ؓ نے حضرت امِ کلثوم ؓ اور حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کی پرورش اور تربیت انتہائی محبت اور خلوص سے شروع کی دشمنان اسلام کا ظلم و ستم جب حد سے بڑھ گیا رحمتِ مجسم ﷺ نے رضائے الہی سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ مسلمان رحمتِ دو جہاں ﷺکی سر کر دگی میں امن و سکون سے زندگی گزارنے لگے ۔ جنگ ِ بدر میں فتح کے دن حضرت عثمان غنی ؓ کی نیک بیوی حضرت رقیہ ؓ کا انتقا ل ہوا تو کچھ عرصہ بعد حضرت امِ کلثوم ؓ کا نکاح 3ہجری میں حضرت عثمان غنی ؓ سے ہوا ۔ حضرت عثمان غنی ؓ بلند اخلاق اور انتہائی سخی انسان تھے اُن کے نبی کریم ﷺ رشتہ داری اور مراسم شاندار تھے یہی وجہ تھی حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حضرت رقیہ ؓ اور حضرت امِ کلثوم ؓ زندہ رہیں تو حضرت عثمان ؓ کے ازدواجی تعلقات بہت خوشگوار تھے حضرت عثمان غنی ؓ اپنی اہلیہ کا بہت زیادہ احترام کرتے ان کی ہر خواہش کو پورا کرتے ۔ حضرت عثمان ؓ کو اﷲ تعالی نے مال و دولت کی فراوانی عطا کی تھی ۔ وہ اپنی مال و دولت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خوب خرچ کرتے اور اپنی اہلیہ کی خوراک اور لباس کے لیے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے حضرت امِ کلثوم ؓ کو ئی چھ سال تک اپنے محبوب خاوند حضرت عثمان غنی ؓ کے نکاح میں رہیں اس دوران رحمتِ دو جہاں ﷺ مختلف غزوات و سرایا میں مصروف رہے اور حضرت عثمان غنی ؓ بھی اپنے مال و دولت اور اپنی جان کے ساتھ جہاد میں شریک رہے ۔ رب ذولجلال نے حضرت عثمان غنی ؓ کو حضرت امِ کلثوم ؓ کے بطن سے اولاد سے نہیں نوازا تھا ۔ خدائے بزرگ و برتر اپنی حکمتوں اور مصلحتوں سے خود ہی بہتر آگاہ ہے ۔ آخر 9ہجری میں شعبان کے مہینے میں حضرت ام کلثوم ؓ کا آخری وقت آگیا اور آپ ؓ نے جان جانِ آفرین کے سپرد کی حضرت امِ کلثوم ؓ کا انتقال ہو گیا تو حضرت عثمان غنی ؓ بہت اداس اور پریشان رہنے لگے کہ آپ ؓ کارشتہ دامادی رسول ﷺ ایک بار پھر ٹوٹ چکا تھا ۔ سرور دو جہاں ﷺ اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح پہلے ہی حضرت علی ؓ سے کر چکے تھے اِسی موقع پر رحمتِ دو عالم ﷺ نے حضرت عثمان غنی ؓ کی تسکین خاطر فرماتے ارشاد فرمایا ۔ اگر میرے پاس 10بیٹیاں ہو تیں تو میں عثمان ؓ کے نکاح میں دے دیتا ۔ حضرت امِ کلثوم ؓ کی وفات کے بعد غسل اور کفن کے انتظامات رحمتِ مجسم ﷺ نے خود فرمائے ۔ جب حضرت امِ کلثوم ؓ کا غسل اور کفن بمطابق شافع محشر ﷺ ہو چکا تو حضرت امِ کلثوم ؓ کے جنازہ کے لیے سردارالانبیاء ﷺ تشریف لائے اور خود نماز جنازہ پڑھائی بعد ازاں اپنی لاڈلی بیٹی لختِ جگر کی مغفرت کے لیے دیر تک دعائیں مانگتے رہے حضرت امِ کلثوم ؓ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا خادم نبوی ﷺ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم ؓ کے دفن کے موقع پر رحمتِ دو جہاں ﷺ کے آنسو فرطِ غم کی وجہ سے جاری تھے ۔ حضرت امِ کلثوم ؓ بابا جہاں رحمتِ دو عالم ﷺ کی وہ لاڈلی بیٹی تھیں جو اپنی معصوم محبت اور باتوں سے بابا جان کی ہر رنجیدگی دور کر دیتی تھیں ۔ آپ ؓ اپنی بڑی بہن حضرت رقیہ ؓ کے پہلو میں دفن ہوئیں آپ ؓ کی عمر مبارک صرف با ئیس برس تھی ۔
 
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.