تحریر: صباء عیشل
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایک وقت ایسا آتا ہے جہاں اسے محسوس
ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ وہ مایوسی کا شکار ہوکر اپنی زندگی کو بے
معنی تصور کرنے لگتا ہے۔ ہمارے ملک میں مایوسی کے بادل ٰناامیدی کی آندھیاں
اور ذہنی انتشار کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے معاشی، معاشرتی
اور ملکی حالات سے نالاں اور پریشاں دکھائی دیتا ہے ۔ یوں لگتا ہے مہنگائی
کے جن نے سب کوبے بس کرکے رکھ دیا ہے۔ پریشانیوں اور مشکلات کا شکار
قوم،اپنی آئندہ نسل کو تحفے میں ناامیدی جیسا ہتھیار دے کر کند کررہی ہے ۔
مایوسی کا دیمک اندر ہی اندر ہمارے نوجوان کی راہیں کھوکھلی کررہا ہے۔
ہم گندم، چاول خورد ونوش اور روز مرہ استعمال کی چیزوں تک رسائی نہ ہونے کی
وجہ سے ہمیں بدترین غربت اور مہنگائی ہمیں دن بدن گھیرے میں لیے جارہی ہے۔
روزگار کا فقدان معاشرے کو سنگین ترین نتائج سے دوچار کر رہا ہے۔ ہر گذرتا
دن غریب عوام کے لئے مسائل کا انبار چھوڑے جاتا ہے۔ اس پر وسائل کا فقدان
دن بدن بڑھتی مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت کو بڑھانے میں تیزی دکھارہے ہیں۔
یہ ایک ایسی کڑی دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔
مایوسی وہ نحوست ہے جو صرف بربادی ہی لا سکتی ہے۔اور اس مایوسی کی لپیٹ میں
اگرگھر کا ایک شخص آجائے تو یہ چھوت کے مرض کی طرح پورے خاندان کو اپنی
لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایسی بیماری ہے جو بڑوں سے بچوں میں منتقل ہو کر انکے
مستقبل پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ایک مغربی سروے کے مطابق جوکنگز کالج لندن
میں نفسیات نفسیاتی معالج اور نیورو سائنسز کے انسٹیٹیوٹ نے کروایا ’’یہ
سروے شادی شدہ جوڑوں سے کروایا گیا جو یا تو دو بہنیں تھیں یا دو بھائی اور
ان کی پرورش ایک جیسے ماحول میں ہوئی تاکہ والدین کے مزاج اور جینیات کا
تعلق واضح کیا جاسکے۔ سروے میں ایک ہزار خاندانوں سے سوالات کئے گئے اور
نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مایوسی کا شکار والدین کے بچوں میں بھی مایوسی کے
شدید آثار نمایاں ہوتے ہیں‘‘۔
والدین چھوٹی عمر میں ہی بچوں کے سامنے اپنی پریشانی کا رونا رو تے ہیں
جسکی وجہ سے بچوں کی ذہنی اور دماغی نشوونما پر کم عمری سے ہی پریشان کن
اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً والدین انجانے میں اپنے بچوں کو
انہیں مسائل کا شکار بنادیتے ہیں جس سے وہ خو نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ہم روز
مرہ کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر اخبار میں خودکشی کے سبب ہونے والی
کئی اموات کی خبریں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مایوسی یعنی فرسٹریشن کے شکار
افراد اپنی زندگی سے مایوس ہو کر اپنی سانسیں ختم کرنے کے علاوہ ہر چارہ
کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے افراد جو غربت اور مالی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان
میں عام لوگوں کی نسبت مایوسی کے اثرات زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔
اسلام میں مایوسی گناہ ہے اﷲ تعالی امید رکھنے والوں سے ناصرف خوش ہوتا ہے
بلکہ ان کو اوقات سے بڑھ کر نوازتا ہے۔ فرمان باری ہے کہ’’ صبر اور نماز کے
ساتھ مدد مانگو‘‘ مگر افسوس ہم مسلمان ہو کر بھی دکھ اور تکلیف کی حالت میں
اﷲ کو بھول کر ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مایوس ہونے کی سب سے
بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے صادر کردہ احکامات سے دور ہو کر ہم
بھلا کیسے سکون پاسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے احاطے کو بھول کر
انسانوں سے توقعات لگا بیٹھنا اور پھر ان کا توقع پر پورا نا اترنے کے سبب
ذہنی انتشار کا شکار ہونا آجکل عام سی بات ہے۔ ناممکن خواہشات کی غیر
معمولی شدت ٰ حسد، مالی ومعاشی مسائل اور قول و فعل میں تضاد فرسٹریشن کی
چند اور اہم وجوہات ہیں۔
خود کو اپنے بچوں ،اپنے گھر اور معاشرے کو ذہنی اور دماغی طور پر پر سکون
رکھنے کیلئے چند اصول وضع کیے جائیں تو کافی حد تک اس مصیبت سے بچا جاسکتا
ہے۔ آپ کا حال اچھا نہیں ہے تو فرصت اور تنہائی کے لمحات میں پریشان کن
سوچیں سوچنے کے بجائے اپنے مستقبل کو اچھا سوچیں اس سے آپ کے ذہن میں مثبت
خیالات وارد ہونگے جو آپکی سوچ کے لئے ترقی کے مواقع حاصل کرنے کے لئے نئے
در وا کرینگے۔اپنے بچوں کے سامنے غربت اور حالات کا رونا رونے کے بجائے
انہیں حوصلہ افزاء ماحول مہیا کریں۔ ذہن کو مختلف کریٹیو ایکٹویٹی میں
لگائیں، اسلاف کے واقعات، ہمت دلانے والی کہانیاں سنائیں دیگر ان بڑے لوگوں
کے قصے سنائیں جنہوں نے انتہائی مصائب اور تنگدستی کے حال میں بھی کسی کے
آگے ہاتھ نا پھیلایا اور دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ اس سے ایک تو بچے کی
سوچ عمدہ ہوگی دین کی طرف رغبت ہوگی دوسرا اس میں خود اعتمادی کی قوت پیدا
ہوگی جو آنے والی زندگی میں اسے بہتر اور باوقار انسان بننے میں مدد دیگی۔
خود کو ذہنی انتشار سے دور رکھنے کے لئے نماز پنجگانہ کی ادائیگی کو اپنا
معمول بنالیں اور لوگوں سے پریشانیوں کا حل مانگنے کے بجائے اس خالق حقیقی
کو اپنے مسائل سے آگاہ کریں جو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔اپنے ذہن و دل میں
سے امید کی کرن کو بجھنے نا دیں۔اپنا مستقبل بہترین بنانے کیلئے کوششیں
جاری رکھیں، کوششیں ہمیشہ بار آور ثابت ہوا کرتی ہیں۔ مایوسی اور ڈیپریشن
کا ایک اہم حل راتوں کو اٹھ کر کچھ پل تنہائی میں اپنے مالک کی یاد میں
گزاریں، تہجد پڑھیں۔ مغربی ماہرین کی ایک ریسرچ ٹیم نے مسلمانوں پر تجربہ
کیا ان کے مطابق جو مسلمان آدھی رات کے بعد اٹھ کر کچھ پڑھ کر سوجاتے تھے
ان میں ڈپریشن کا عنصر زیرو فیصد رہا۔
مغربی ممالک میں مایوسی کا مرض ترقی پذیر ہے۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین کے
یہاں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مغربی جرمنی کے ڈپلوما ہولڈر فیصل
آباد سے تعلق رکھنے والے فزیوتھراپسٹ کا کہنا ہے کہ مغربی جرمنی میں ایک
سیمینار ہوا جس کا موضوع تھا ’’مایوسی کا علاج ادویات کے علاوہ اور کن کن
طریقوں سے ممکن ہے؟‘‘ ایک ڈاکٹر نے اپنے مقالے میں یہ حیرت انگیزانکشاف کیا
کہ میں نے ڈپریشن کے چند مریضوں کے روزانہ پانچ بار منہ دھلائے تو کچھ عرصہ
بعد ان کی بیماری ختم ہوگئی۔اگر مندرجہ بالا تراکیب فائدہ مند ثابت نا ہو
تو ایک بار ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔اﷲ پاک آپکا حامی و ناصرہو۔ |