دوہرا معیار
(Abdul Rehman Jalalpuri, )
2009ء میں 80سالہ مورس سینٹ
کارٹونسٹ جو فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو سے نکال دیا گیا۔ مورس 20سال تک
اسی جریدے میں بطور طنز نگار کارٹونسٹ کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ آزادی
اظہار رائے کے نام پر 2006ء میں چارلی ہیبڈو سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے خاکے شائع کرچکے تھے۔ 2009ء میں مورس نے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی
کے بیٹے جین سرکوزی کا کارٹون ایک امیر یہودی عورت کے ساتھ بنایا تو
یہودیوں نے اسے اپنی توہین تصور کیا۔ مورس کے خلاف ''Inciting racial
hatred''(نسلی نفرت کو اکسانا) کے عنوان سے کالم شائع ہوا۔ اور اس (مورس)
کو یہود دشمن کہہ کر دباؤ کا شکار کیا گیا کہ وہ اپنے اس شہکار پر معافی
مانگے۔ جس پر مورس نے معافی مانگنے سے انکار کیا اور نوکری سے برخاست کردیا
گیا۔
چین سرکوزی کو کارٹون میں یہودی عورت کے ساتھ ملا کر بنانا اظہار رائے کی
آزادی نہیں بلکہ یہود کی توہین ٹھہرا۔ 2006ء سے 2015ء تک مختلف انداز سے
مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو مجروح کرنے والا جریدہ چارلی ہیبڈو اپنے
کارٹونسٹ پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر شرمندہ ہوجائے اور معافی
مانگے۔ جب کہ سرکوزی کے بیٹے کے کارٹون بنانے سے صرف ایک فرد کی توہین ہوئی
اس سے کوئی ایک دو کی دل آزاری ہوئی ہوگی۔ اور ویسے بھی جب اظہار رائے کی
آزادی دے دی گئی ہو پھر یہ سرکوزی یا کسی یہودی کی توہین کیوں کر ٹھہری؟
یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ جب ایک یہودی کا طنزیہ کارٹون بنایا گیا تو
پوری دنیا میں بسنے والے یہودیوں نے اسے اپنی توہین تصور کیا۔ فرانس کے
ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کے قریب لے آئے۔ چارلی ہیبڈو کو شدید دباؤ کا
سامنا کرنا پڑا جس پر اس نے اپنے کارٹونسٹ کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔
جب کہ 2006ء سے 2015ء تک چارلی ہیبڈو سمیت ڈنمارک، ناروے نبی رحمت صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کرچکا ہے۔ امریکہ میں گستاخانہ فلم
بنائی گئی۔ سلمان رشدی سمیت کئی غیر مسلم، اسلام اور بانی اسلام کے اہانت
میں کتب تصنیف کرچکے ہیں۔ قرآن مجید کے اوراق کی بے حرمتی کی گئی اور ان سب
کے بعد وہ اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ یہ سب آزادی اظہار رائے ہے۔آزادی
اظہار رائے کو بنیاد بنا کر دنیا میں بسنے والے سوا ارب مسلمانوں کے جذبہ
ایمانی کو مجروح کیا گیا۔ لیکن کسی کارٹونسٹ کو نہ معافی مانگنے پر مجبور
کیا گیا اور نہ ہی کسی کو نوکری سے برخاست کیا گیا۔
ایک طرف ایسے انسان کا کارٹون بنایا جاتا ہے جس سے فقط 2لوگوں کو نشانہ
بنایا جاتا ہے دوسری طرف پوری مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ معیار غیر مسلم
کے لیے یہ ہے کہ اس کے کارٹون بنانے والے کو نوکری سے نکالا جاتا ہے اور
مسلمانوں کے لیے معیار یہ ہے کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے۔
مغرب کی اسلام دشمنی صرف اس ایک مثال سے سمجھی جاسکتی ہے لیکن افسوس کہ ہم
نے کبھی بھی اس بات سے سبق حاصل نہ کیا۔ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
شان میں گستاخی کے بعد دنیا کے 58کے قریب اسلامی ممالک میں سے صرف ترکی کے
علاوہ کسی نے ملک نے فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنا گوارہ نہ کیا کہ ہمارے
تعلقات خراب نہ ہوجائیں۔ کاش مسلم ممالک کے حکمران مغرب پر اس بات کا دباؤ
ڈالتے کہ چارلی ہیبڈو جو مسلسل مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کررہا ہے کو بند
کیا جائے۔ یا مسلم حکمران ان سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرتے تو مغرب
مسلمان کے ساتھ دوہرا معیار نہ اپناتا۔
حکمران تو حکمران ٹھہرے ۔ ان کو تو اپنی کرسی اپنا عہدہ سب کچھ عزیز ہے
لیکن دنیامیں بسنے والے دوسرے مسلمانوں نے اس دوہرے معیار کے خلاف کیا کیا۔
ہر جماعت اور ہر شخصیت نے اپنے نام اور اپنے جھنڈے کی بلندی کے لیے پوری
دنیا میں احتجاج کیے۔ کاش اس ایجنڈے پر پوری دنیا کے مسلمان ایک ہوجاتے ۔
اقبال نے خوب کہا تھا کہ
حرم پاک بھی ،اﷲ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
2006ء میں جب مغرب کی جانب سے پہلی دفعہ یہ اہانت کی گئی تھی تب مسلمان اﷲ
کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر تفرقوں میں نہ بٹ جاتے تو کبھی بھی ان میں
اتنی ہمت نہ ہوتی کہ دوبارہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شان اقدس
میں گستاخی کرتے۔
مسلمان ایک ہوتے ان میں پیار اور محبت ہوتا یہ تو دور کی بات ہے مسلمان آپس
میں ہی دست وگریباں ہوئے بیٹھے ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والی جہادی
تنظیمیں طالبان، داعش غیر مسلموں کے ساتھ لڑنے کی بجائے مسلمانوں کے خلاف
ہی علم جہاد بلند کیے ہوئے ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک خداداد
پاکستان میں کبھی مساجد، کبھی مدارس، کبھی بازاروں کبھی امام بارگاہوں ،
کبھی سکولوں، کبھی چوراہوں پر حملہ کرکے مسلمانوں کے شہید کیا جاتا ہے اور
اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم نے اسلام کے دشمنوں کے مارا ہے۔ کیا نماز پڑھنے
والے ، قرآن کی تلاوت کرنے والے، رزق حلال کمانے والے، سکول میں تعلیم حاصل
کرنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ جو ان کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے۔
مغرب کا دوہرا معیار تو ہم نے دیکھ لیا لیکن یہاں اسلام کا نام لینے والے
کبھی شراب خانے، قحبہ خانے، جوا خانے پر حملہ نہیں کرتے بلکہ اﷲ اور اس کے
رسول کا نام لینے والوں کو مارتے ہیں۔ جس سے ان نام نہاد اسلامی جہادی
تنظیموں کے دوہرے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ اگر یہ حقیقت میں ہی اسلام کے
علمبردار ہیں۔ اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں تو پھر یہ ان کے خلاف جہاد کیوں
نہیں کرتے جو مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے والے قوتوں کو پیسے مہیا کرتے
ہیں۔
ان کے خلاف علم جہاد بلند کیوں نہیں کرتے جو اسلام اور بانی اسلام کی توہین
کرتے ہیں۔ ان کے خلاف جہاد کیوں نہیں کرتے جو فلسطین کے معصوم بچوں اور
شہریوں پر آگ برساتے ہیں۔ ان کے خلاف میدان میں کیوں نہیں آتے جو برما میں
مسلمانوں کو زندہ جلاتے ہیں۔ یہ ہر اس قوت کے مخالف کیوں ہیں جن کے نظریات
ان کے باطل نظریات سے ٹکراتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تائیں اسلام کا ایک معیار
بنا رکھا ہے جو ان کی بنائے ہوئے معیار پر پورا اترے وہ مسلمان باقی سارے
کلمہ گو مشرک اور بدعتی ہیں۔۔۔۔۔
مغرب کی پیروی کرنے والے مسلم حکمران وعوام، مغرب کی مثالیں دینے والے
رہنما وپیشوا، مغرب کے اس دوہرے معیار کو کیوں نہیں دیکھتے؟ طالبان اور
داعش کے حمایتوں کو ان کا یہ دوہرا معیار نظر کیوں نہیں آتا۔
چارلی ہیبڈو کے عملہ کے 17لوگوں کو جب مارا جاتا ہے تو فرانس کی سڑکوں پر
لاکھوں افراد احتجاج کرتے اور مغربی دنیا کے چالیس حکمران یہ اعلان کرتے
ہیں کہ ہم چارلی ہیں۔ لیکن افسوس کے اسلام اور بانی اسلام کی اہانت اور
مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مسلم حکمران ہوش کے ناخن نہ لے سکے۔ کاش یہود
ونصاری کے مدمقابل مسلم دنیا کے حکمران و عوام یہ نعرہ بلند کرتے کہ اگر تم
چارلی ہو تو ہم محمدی ہیں۔اور اس بات کا پرچار ہر اسلام دشمن قوت کے سامنے
کرتے کہ
ہم ہر حال میں حق بات کا اعلان کریں گے
ہم پیروی حنبل ونعمان کریں گے
ہم اہل جنوں اور جھک جائیں
ہم جب بھی مریں گے موت پر احسان کریں گے۔ |
|