رمضان کے پُربہارموسم میں واجبات وفرائض کے ساتھ چھوٹی چھوٹی نفلی عبادتوں
پربھی توجہ دی جائے
اللہ رب العزت نے اس مہینے کو اس قدر بابرکت بنایا ہے کہ ہرمومن بندے کو اس
مہینےکا شدت سےانتظاررہتا ہے ،تاکہ اس کے ذخیرۂ رحمت،مغفرت اورنجات سے ایک
معقول حصہ حاصل کرسکے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس مہینے میں ہر نیک عمل کا بدلہ ایک سے
سترگناتک بڑھادیاجاتا ہے ،مثلاً نفل کے بدلے فرض کا ثواب اورفرض کے بدلے
سترفرائض کا ثواب ملتا ہے ،لیکن اس مہینے کی ایک اورخاصیت ہے ،اور وہ یہ
ہےکہ اس مہینے کو ہمدردی اور مروت کا مہینہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔اس لیے
ہمارے اوپر دہری ذمہ داری عائدہوجاتی ہے کہ اس مہینے میں نمازوروزہ اور
دیگرعطیات کے ساتھ بطورخاص انسانی ہمدردی اور مروت کا مظاہرہ کریں اور جو
ہماری مروت وہمدردی کے زیادہ حق دار ہیں ،ان سےعملی طورپر اظہارِ ہمدردی
کریں ۔
مثال کے طور پر اگراللہ رب العزت نے ہمیں اور آپ کویہ حیثیت دی ہے کہ اپنے
اہل وعیال کے افطار وسحری کے انتظام کے ساتھ محتاج وتنگ دست روزہ داروں کے
لیے بھی سحر ی وافطار کا بندوبست کرسکیں توایساضرور کریں،کیوں کہ رمضان کے
مہینےمیں عام طورپرمال ودولت والے افرادایک طرف یہ کرتے ہیں کہ گاؤں ،محلے
اورشہرکی مسجدوں میںروزانہ سحری وافطارکے لیے کچھ نہ کچھ انتظام کرواتے ہیں
تاکہ روزہ داروں کو سحری وافطارمیں کسی قسم کی کوئی دقت نہ پیش آئے،یہ
اچھی بات ہے لیکن دوسری طرف اُنھیں یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے پڑوسی کے
گھر سحری وافطارکا انتظام ہے یانہیں۔اس لیے اس طرف بھی بطورِخاص دھیان دینے
کی ضرورت ہے۔
مزیدیہ حدیث پاک بھی یادرکھنے کی ہے کہ جو شخص خودتو شکم سیر ہوکرکھائے
لیکن اس کا پڑوسی بھوکا رہے تو ایسا شخص جنت میں نہیں جائے گا،اسی طرح کوئی
روزہ دار خود تو سحری وافطارمیںلذیذ سے لذیذچیز کھائےاورایک سے بڑھ کر ایک
مشروب پیے، لیکن اس کےپڑوسی کو معمولی غذا بھی ٹھیک سے میسر نہ ہو،تو کوئی
بعیدنہیںکہ ایسا شخص بھی عذاب جہنم کا شکار ہوجائے۔
اسی طرح رمضان کے دنوں میں عام طورپرسحری وافطار کا لین دین بھی اپنے شباب
پررہتا ہے ،لیکن یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ ہم سحری وافطارکا لین
دین بھی اُنھیں گھروںسے کرتے ہیںجو ہمارے برابرکے ہوتے ہیں یا جو ہمارے گھر
سحری و افطاربھیجنے کے اہل ہوتے ہیں،لیکن ایک محتاج جو نہ تو صحیح ڈھنگ
سےسحری و افطارکاانتظام کرسکتا ہے اور نہ ہی سحری وافطار کے لین دین کی
صلاحیت رکھتا ہے اس کے گھر ہم بھولے سے بھی کبھی سحری وافطار نہیں
بھیجتے،جب کہ حقیقت میں ہماری سحری وافطار کے صحیح حق دار یہی غرباومساکین
ہے،جن کی طرف ہم بالکل توجہ نہیں دیتے،یا پھریہ سمجھتے ہی نہیںکہ وہ ہماری
سحری وافطار کے قابل ہیں،لہٰذاہمارا یہ عمل دینی واخلاقی دونوں سے
اعتبارسےقابل رحم ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:’’سب سے برا کھانا اس ولیمے کا
کھاناہے جس میں مالداروں کو بلایاجائے اور فقراکو چھوڑدیاجائے۔‘‘(صحیح
بخاری)
دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اگرہم اپنی افطار کی محفلوںمیں صرف
مال داروں کوشامل کریں اور غرباو مساکین اورمحتاجوںکونظرانداز کردیں،یا
افطاروسحری کے لین دین میں صرف اور صرف برابراور ہم پلّہ افراد کو اہمیت
دیں اور غرباو مساکین کو نظر انداز کردیں تو ہمارایہ عمل اللہ ورسول کے
نزدیک پسندیدہ نہیں۔
ایک بات اور جواکثر دیکھنے میں آتی ہے،وہ یہ کہ رمضان میں عام دنوں کی بہ
نسبت ہماراخرچ بڑھ جاتا ہے ،اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ طرح طرح کے پکوان
ہمارےدسترخوان پر نظر آتے ہیں ،اورقسم قسم کے پھل فروٹ کا ایک انبار سا لگ
جاتا ہے،یہ انتظام تو عام طور پرکیاجاتاہے ، لیکن جب کوئی خاص پارٹی کا
اہتمام ہوتا ہے ،اورافطار کی خاص دعوت کی جاتی ہے تو رنگ برنگی کھانوں کی
مت پوچھئے۔پھر جب عیدکی باری آتی ہے توہم عیدکے لیے خریدوفروخت میںپانی کی
طرح روپیہ بہانے لگتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ جانے انجانے میں ہم اسراف وفضول خرچی میں مبتلا
ہوجاتے ہیںجو نہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اورنہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کو۔اس کے برعکس اگر ہم سحری وافطاراورعیدکے لیے خریدوفروخت میں اعتدال
وتوازن سے کام لیں تو کافی حد تک ہم اسراف اور فضول خرچی سے بھی بچ سکتے
ہیںاورسحری وافطارکے ساتھ عیدکے لیے خریدوفروخت میں غرباومساکین کی مددبھی
کرسکتے ہیں،وہ اس طورپرکہ اگر ہمارے پاس دس روپےہیںتواُن میںسے دو روپیہ
حاجت مند بھائیوں کو دیں تاکہ وہ بھی اپنے لیےسحری وافطارکاانتظام
کرسکیںاوراپنے اہل وعیال کے لیےعید کی خوشیاں سمیٹ سکیں۔
اگرہم ایسا نہیں کرتے توکوئی بعید نہیں ہے کہ غرباومساکین کاحق مارنے کے
ساتھ فضول خرچی کرکے شیطان کے بھائی بن جائیں اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی
ناقدری کرنےوالاناشکرا بھی کہلائیں۔کیوںکہ اللہ رب العزت کا
ارشادہے:’’واقعی فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اورشیطان اپنے رب
کا ناشکراہے۔‘‘(بنی اسرائیل:۲۷)
چنانچہ اس موقع پرکفایت شعاری سے کام لیناانتہائی ضروری ہے تاکہ ہم خودبھی
اللہ تعالیٰ کی رحمتوںسےمالامال ہوںاور اپنے ان مومن بھائیوں کو بھی موقع
دیں جو اَپنی محتاجی وغریبی کی وجہ سے ہماری ہمدردی اورمروت کے اصل حق
دارہیں۔
اللہ رب العزت کا ارشادفرماتا ہے:’’ رشتے داروں ، مسکینوں اور مسافروں کا
حق ادا کرتے رہو اور اسراف و فضول خرچی سے بچو۔‘‘(اسرا:۲۶)
صدقۂ فطراداکرتے وقت بھی کچھ ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو کسی بھی طرح قابل
ستائش نہیں ،مثال کے طور پر ہم افطار وسحری میں بڑی سخاوت کا مظاہرہ کرتے
ہیں،خوب خوب اہتمام کرتے ہیںاور ایک سے بڑھ کر ایک من پسندومرغوب چیزیں پیش
کرتے ہیں،چاہے ان چیزوںکی قیمتیں آسمان چھوتی ہی کیوں نہ ہوں،لیکن جب صدقۂ
فطر اداکرنے کی باری آتی ہےتواس وقت بڑی بخیلی سے کام لیتے ہیں اور باوجود
کہ احادیث کریمہ میںبطورصدقۂ فطر منقیٰ،کشمش،کھجور،چھوہارایاان کی قیمت
اداکرنے کا ذکر ملتا ہے،پھر بھی ان چیزوں کی طرف بالکل توجہ نہیں
دیتے،حالاںکہ ہم اس بات پر پوری قدرت رکھتے ہیں کہ صدقۂ فطر میں گیہوں کے
علاوہ منقیٰ،کشمش،کھجور،چھوہاراوغیرہ یا ان کی قیمت بہ آسانی اداکرسکیں۔اس
کے باوجود ہم اپنی آسانی کے لیے صرف گیہوں سے ہی صدقۂ فطر ادا کرتے
ہیں،جب کہ موجود ہ عہد میں دینی ضرورتوں کا تقاضا ہے کہ احادیث کریمہ میں
صدقۂ فطر کے ادا کرنے کے جو مختلف پیمانے رکھے گئے ہیں ان میں سےجو جس
پیمانے سے صدقۂ فطر اداکرنے کا اہل ہو وہ اسی پیمانے سے صدقۂ فطر ادا کرے،
تاکہ غرباومساکین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکےاور احادیث کریمہ پر
مکمل طور سے عمل بھی جاری رہے۔
میرے خیال میں صدقۂ فطراداکرتے وقت اس کےدینی مقاصد اور اخلاقی پہلودونوں
کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ صدقۂ فطر کااصل مقصد فوت نہ ہونے پائے
اور وہ مقصدیہ ہے کہ محتاج اورغرباومساکین کی محتاجی دورہو،اُن کی مددکی
جائے اور اُن کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا
جاسکے۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ صدقۂ فطر مسکینوں کے
گزر بسر کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ اگر نصف صاع گیہوںبطورصدقۂ فطر نکالاجائے تواس لحاظ سے ہمارا صدقۂ
فطر کسی بھی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا ہے ، کیوں کہ اس صورت میں نہ تو ہم
صدقۂ فطر میں منقی، کشمش، کھجور، اور چھوہارےادا کرپاتے ہیں،باوجودکہ
افطاروسحری میں بڑےمزے لے لے کر یہ چیزیں کھاتے ہیں،اور نہ ہی صدقۂ فطرمیں
اتنی رقم دے پاتے ہیں کہ اس سے کسی محتاج ومسکین کی حاجت بھی صحیح ڈھنگ سے
پوری ہوسکے،کیو ںکہ صدقۂ فطرفی کس ۳۰-۴۰؍روپےسے زیادہ نہیںہوتا،جس سے ایک
وقت کے لیے صحیح ڈھنگ سےافطار بھی خریدا نہیںجاسکتا ہے، جب کہ ہم اپنے
ملبوسات پر جس قدر خرچ کرتے ہیںاگراس کا ایک چوتھائی بھی بطورصدقہ فطر
اداکردیں تو بہت سے حق داروںکے حقوق بھی اداہوجائیںاوراُن کی حاجتیںبھی
پوری ہوجائیں۔
اس کی تائید اِس حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد
فرماتے ہیں:’’ اپنے فقرا ومساکین پر صدقہ کیاکرو۔‘‘
لہٰذا ہمارے اوپر لازم ہے کہ رمضان جیسے مبارک مہینے میںغریبوںاورمحتاجوں
کی حاجت کاخاص خیال رکھیں،اس موقع پر اُن تک صدقات وخیرات بطورِخاص
پہنچائیںاور صدقۂ فطر اداکرتے وقت صرف نصف صاع گیہوںکو ہی ضروری نہ سمجھیں
بلکہ اپنی حیثیت کا جائزہ لیںپھرصدقۂ فطرکی ادائیگی کا پیمانہ مقرر
کریںاور اُسی کی قیمت بطورصدقۂ فطرادا کریں، تا کہ مساکین بھی اپنے اہل
وعیال کے ساتھ رب کی عنایتوں اوررمضان کی برکتوںسے لطف اندوز ہوسکیں۔
ان سب باتوں کے علاوہ ایک اورنیک عمل ہے جسے ہم سب بہ آسانی کرسکتے ہیں
،لیکن اس کی طرف ہم توجہ نہیں دے پاتے،یااگرہم میںسے کوئی اس طرف توجہ بھی
دیتا ہے تواس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسےآٹے میں نمک،مثلاً ہم روزانہ بڑی
مستعدی سے سحری کے لیے بیدارہوتے ہیں ،منھ ہاتھ دھوتے ہیں اور سحری کرتے
ہیں ،اسی میں تھوڑا سا اضافہ یہ کرلیں کہ سحری کے لیے بیدارہوںاورمنھ ہاتھ
دھونے لگیںتوساتھ میں وضوبھی کرلیں،پھردورکعت تہجداداکرلیں،اس کے بعدسحری
کی تیاری کریں۔میرے خیال میں ایسا کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں،بلکہ
آسان تر عمل ہے۔چنانچہ اس نیک عمل کے ذریعے اگر ہمیں ایک طرف سحری کی
برکتیں حاصل ہوں گی تو دوسری طرف تہجد جیسی نفل عبادت کی وجہ سے اللہ
تعالیٰ کا خاص فضل بھی حاصل ہوگا۔جیساکہ حدیث قدسی میںاللہ رب العزت فرماتا
ہے:’’ جب میرابندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب چاہنے لگتاہےتو میں بھی اس سے
محبت کرنے لگتا ہوں،اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان
بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ
دیکھتا ہے ، میں اس کا ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کا پیر بن
جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔پھر جب وہ مجھ سے کچھ طلب کرتا ہے تومیں اُسے
عطا کرتاہوں،اورمیری پناہ مانگتا ہے تومیں اُسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ میں جتنا مومن کی جان کے بارے میں تردد کرتا ہوں اتنا کسی
شئے کے کرنے کے بارے میں تردد نہیں کرتا ،چنانچہ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے
اور میں اس کے لیے موت کی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں۔ ‘‘(بخاری،باب التواضع)
اس لیے ہمیں چاہیے کہ رمضان کے پُربہارموسم میں صرف واجبات وفرائض پر ہی
زیادہ توجہ نہ دیں،بلکہ چھوٹی چھوٹی نفلی عبادتوں پر بھی توجہ مرکوزرکھیں ،
پتہ نہیں ہمارا کون ساعمل اللہ تعالیٰ کو پسندآجائے اورہماری مغفرت ونجات
کا وسیلہ بن جائے۔(ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ،الہ آباد) |