خود آگاہی
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
نفسِ باطنی کو خالق کی عطا کے
مطابق ڈھال لینا اور زیست کے ایک ایک طحے کو خالق کے حکم پر قربان کردینا
یہ بندے کی وہ حالت ہے ۔جو اُسے ہر دُیناوی شے سے بیگانہ کر دیتی ہے ۔اُسے
اپنے خالق پر یقین محکم ہوتا ہے ۔اُسکی زندگی میں درپیش کسی طرح کے طوفان
اُسے حق کی راہ سے نہیں ہٹا پاتے ۔گویا بندے کا اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجانا
اپنے خالق سے آگاہ ہونے کا سب بنتا ہے ۔انسان جب یہ سمجھ لینا ہے ۔کہ اُس
کا رب ہی اُس کاصرف رب ہے تو اُس کی زندگی میں کوئی کسک نہیں رہ جاتی ۔وہ
خور کو اپنے خالق کی رضا کے تابع بنا لیتا ہے ۔اُسکی نگاہیں اپنی ایک ایک
ضرورت کے لئے صرف خالق کی طرف اُٹھی ہیں ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ بندے کا اول
اور آ خرمالک صرف اُس کا خدا ہی ہے اپنے آپ کو زندگی کے سفر میں سیدھی راہ
کا راہی بنا لینا اور قدرت کی خاطر خود کو خبردار رکھنا ۔انسان کی فطرت میں
گناہ کی طرف مِائل ہونا عام سے بات ہے ۔لیکن جب بندہِ مومن کو خود آگاہی
ہوجاتی ہے ۔ہمارئے معاشرئے جو تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے اور جس طرح
معا شرتی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے مذہبی فرقہ ورانہ منافرت نے بھائی چارئے امن
دوستی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اِسی طرح سیاسی رواداری سے عاری ماحول بھی
سوسائٹی کے لیے زہرِ قاتل بنا ہوا ہے۔ جو قوم ایک اﷲ پاک کے نام ایک نبی
پاکﷺ اور ایک قران پاک کے نام پر بھی اکھٹی نہ ہوپائے اِس سے بڑھ کر
بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ سرمایہ داروں نام نہاد مذہبی رہنماؤں، سیاسی
آقاؤں نے قوم کو جو جس طرح سے اپنے اپنے دائرئے میں یرغمال بنا رکھا ہے وہ
ناقابلِ بیان ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی محل ِ وقوع کی وجہ سے
بہت اہمیت ہے لیکن اِسی وجہ سے خطے میں بدامنی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
معاشرہ ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔کوئی شخص محفوظ
نہیں جان مال کی حُرمت پامال ہوچکی ہے۔ انسانی خون اتنا ارزاں ہے کہ ہزاروں
کی تعداد میں لوگ شھید ہوچکے ہیں ان میں عام لوگ بھی شامل ہیں اور افوجِ
پاکستان کے جانباز بھی ۔بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اِسی ملک میں لیڈری کرنے
والے قاتل اور مقتول کے درمیان فرق روا نہیں رکھے ہوئے۔ ہزاروں معصوم افراد
کے قاتل دہشت گردوں کو شھید قرار دیا جارہا ہے قوم کو شدید قسم کی کنفیوزن
میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ پاکستانی ریاست جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے یہ ایک
ایسا المیہ ہے کہ اِس کے لیے ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو کہ اقتدار کے
ایوانوں کی بجائے عوام سے دلی اُنس رکھتی ہو۔موجودہ حالات میں اقبالؒ کی
فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اقبال ؒ اﷲ پاک کے بتائے ہوئے رستے ہر چلنے میں
ہی مسلمانوں کی فلاح سمجھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔ قلندر میلِ تقریر نہ دارد
بجز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت کہ آب از خون شبیر
نداردـ (ارمغانِ حجاز)حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی تقریر کی
طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے والا ہوں
کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی حضرت امام
حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان
جہاد فی سبیل اﷲ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی قسم کی
عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف زبانی
کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا ایک ہی
طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو۔مگو از مدعائے زندگانی ترابرشیوہ ہائے
اذنگہ نیست من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست (
پیام مشرق)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول
یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کر ِاس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس
کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل
راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں
منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے
لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام
ہے۔فرشتہ گرچہ بروں از طلسم افلاک است ، نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است
(زبوررِعجم)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے
جادو یعنی قوانینِ فطرت سے آزاد ہے ۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک
کے پتلے(انسان) پر ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق
کے سوزوگداز کی بدولت حاصل ہے۔ ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است وگرچہ فتنہ
پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی
تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے
رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے
بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ زماں زماں شکند آنچہ می
تراشد عقل،بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ
فرماتے ہیں کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے
کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار
کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ
کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔ مگو از مدعائے
زندگانی،رابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست من از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش
من جز سنگ رہ نیست ( پیام مشرق)حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے
بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کر ِاس کی اداؤں پر تیری نظر
نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں
کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ
سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا
اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام
نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں
کی زبوں حالی کیسے ختم کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن
کو یہ سبق دیا ہے کہ جس کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے
یہ حیات سکوت کا نام نہیں ، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ
اپنے مقصد سے اتنی لگن رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا
پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں
اقبال بندہِ مومن کو عقلی تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین
وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار
اُٹھے ہیں کہ وہ انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے
سوز و گداز ہے اِس لیے فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت
پر رشک کر رہے ہیں۔ اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ
گفتار کے غازی کی بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے
ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے
رہنا ہے تو پھر جنابِ حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا
ساتھ دو۔ بندہ جب خود کو پہچان لیتا ہے تو پھر اپنے رب کو پہچان لیتا ہے
اپنی حقیقت پہچان لیتا ہے ۔ مقصدِ زیست کے حوالے سے پھر ابہام کا شکار نہیں
ہوتا۔اُس کی آنکھوں میں اپنے خالق کے علاوہ اورپھر کوئی نہیں جچتا۔زندگی
اور موت کے ہونے یا نہ ہونے کی حدود قیود سے ماورا ہوجات ہے۔ خودی تو عرفان
خداوندی ہے۔جفا وفا تو بس کیفیات کے نام ہیں۔عشق کی راہ سچی راہ ہوتی ہے۔
بندہ کود جو پہچان جاتا ہے۔ |
|