زکاۃ کے بعض اہم مسائل
(M Jehan Yaqoob, Karachi)
مسائل زکاۃ کے حوالے سے
عوامی راہ نمائی کی غرض سے عام طورپرپوچھے جانے اورپیش آنے والے مسائل کے
جوابات نذرقارئین کیے جارہے ہیں،تاکہ قارئین اپنے اموال کی زکاۃ اداکرتے
وقت ان مسائل کوسامنے رکھ کردرست طریقے اورصحیح مصرف پرزکاۃ کامال صرف
کرسکیں،مسائل سے ناواقفیت بعض اوقات نیکی بربادگناہ لازم کامصداق بھی ثابت
ہوجاتی ہے۔
زکاۃ کون لے سکتا ہے؟
سونے، چاندی، مال تجارت اور گھر میں روز مرہ استعمال کی چیزوں سے زائد
سامان کی قیمت لگا کر اس میں نقدی جمع کی جائے، ان پانچوں کے مجموعہ یا ان
میں سے بعض کے مجموعہ کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت سے کم ہو تو
ایسا شخص زکاۃ کا مستحق ہے وہ زکاۃ لے سکتا ہے اور اگر ان پانچوں یا ان میں
سے بعض کا مجموعہ چاندی کے وزن مذکور کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہے تو
ایسا شخص زکاۃ نہیں لے سکتا۔ضرورت سے زائد لباس، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، یا ٹی
وی اور وی سی آر جیسی خرافات انسانی حاجات میں داخل نہیں، اس لیے ان کی
قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔
ایک غلط رواج کی اصلاح:
بہت سے مالدار لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے علاقوں میں سینکڑوں غریب ہوتے ہیں
مگر یہ لوگ زکاۃ صرف اپنی برادری کی انجمن میں دیتے ہیں اور پھر وہ انجمن
زکاۃ کی رقم قبرستان کی زمین خریدنے یا ہسپتال وغیرہ کی تعمیر پرخرچ کرتی
ہے۔خوب سمجھنا چاہیے کہ زکاۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق زکاۃ فقیر کو مالک
بنا کر دینا ضروری ہے، جس صورت میں تملیک نہ ہو مثلا کوئی عمارت تعمیر کردی
یا قبرستان خرید کر وقف کردیا، اس سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی۔
پبلسٹی پر زکاۃ کی رقم لگانا:
آج کل بہت سے ادارے زکاۃ اور دوسرے عطیات جمع کرنے کے لیے زکاۃ کی بہت سی
رقم پبلسٹی پر خرچ کر دیتے ہیں، حالانکہ پبلسٹی پر رقم لگانے سے زکاۃ ادا
نہیں ہوتی، اس لیے کہ زکاۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک ِفقیر شرط ہے جو اسمیں
نہیں پائی جاتی۔
عشر و زکاۃ کو کن چیزوں میں صرف کرنا صحیح نہیں:
ہر اس چیز میں جس میں کسی مستحق زکاۃ کی تملیک(مالک بنانے)کی شرط نہ پائی
جائے، خواہ وہ سرے سے مالک بننے کا اہل نہ ہو جیسے مسجد و مدرسہ کی تعمیر
یا ہو لیکن مستحق نہ ہو جیسے صاحب ِ نصاب شخص کو دے دی تو اس طرح غیر مصرف
میں رقم خرچ کرنے یا کوئی چیز دینے سے زکاۃ و عشر ادا نہیں ہوتے۔لہذا مسجد
و مدرسہ ہسپتال،اسکول کی تعمیر میں،سڑک وغیرہ بنانے میں، میت کے کفن میں،
میت کی طرف سے قرض ادا کرنے میں اگر چہ حالت ِ حیات میں اس نے قرض کی
ادائیگی کا حکم دیا ہو، زکاۃ و عشر دینا صحیح نہیں، اس سے زکاۃ و عشر ادا
نہیں ہوتے، کیونکہ اس میں مالک بنانا نہیں پایا جاتا۔
مد ِزکاۃ سے خیراتی دواخانہ کھولنے کاحکم:
دواخانہ میں زکاۃ اور چرم قربانی کا مصرف صرف یہ ہے کہ اس رقم سے دوائیں
خرید کرمساکین کومفت دے دی جائیں، اس مدسے دواخانہ کے ڈاکٹروں اور دوسرے
کارکنوں کی تنخواہ، مکان کا کرایہ، تعمیر اور فرنیچر وغیرہ مصارف پر خرچ
کرنا جائز نہیں، اس سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔ مساکین سے مد زکاۃ سے خریدی ہو
ئی دواں کے پیسے لینا اور وہ دوائیں غیرمساکین کو دینا جائز نہیں، بعض
دواخانوں میں مد زکاۃ سے مریضوں کو خون دیا جاتا ہے، اس سے زکاۃ ادا نہیں
ہوگی۔
جن رشتہ داروں کو زکاۃ دینا جائز نہیں:
باپ اپنی بیٹی اور اس کی اولاد کو زکاۃ نہیں دے سکتا، بھائی اپنی بہن اور
اس کی اولاد کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔ زکاۃ کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، زید کے
انتقال کے بعد لڑکی کو اس کا حق وراثت دینا لازم ہے۔ زندگی میں والد اولاد
کو جائیداد وغیرہ دینا چاہے تو عام حالات میں لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر
دینا چاہئے، لڑکیوں کو محروم کرنے کی نیت سے سب جائیداد لڑکوں کو دے
دیناہرگز جائز نہیں، تاہم والد نے زندگی میں فاطمہ کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا
ہو زکاۃ کا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا، مندرجہ ذیل رشتہ داروں کو زکاۃ
دینا جائز نہیں:
٭……اصول: یعنی جن سے پیدا ہوا ہے۔ ماں،باپ، دادا، دادی، نانا، نانی
وغیرہ۔سوتیلی ماں اصول میں داخل نہیں، لہذا اسے زکاۃ دینا جائز ہے۔
٭……فروع: یعنی اولاد۔بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ۔
٭……میاں بیوی ایک دوسرے کو زکاۃ نہیں دے سکتے، طلاق کے بعد بھی جب تک عدت
نہیں گذرجاتی زکاۃ دینا جائز نہیں۔
زکاۃ دینے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مصرف نہ تھا:
اگر دینے والے نے غور و فکر کے بعد مصرف سمجھ کر زکاۃ دی تھی تو اس کی زکاۃ
ادا ہوگئی، مگرہاشمی مثلاً زید کو اس کے زکاۃ ہونے کا علم ہوگیاتو اس پر
لازم ہے کہ معطی۰دینے والے) کو واپس کرے اور معطی دوبارہ زکاۃ ادا کرے، اگر
واپس کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو مساکین پر صدقہ کردے اور اگر غور و فکر
کے بغیر زکاۃ ادا کی یا غور و فکر کیا اور غیر مصرف ہونے کا گمان ہو ا یا
شک رہا، اس کے باوجود زکاۃ ادا کردی تو اس صورت میں اگر بعد میں معلوم ہوا
کہ وہ مصرف تھا تو زکاۃ ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہواکہ مصرف نہ تھا
تو زکاۃ ادا نہیں ہوئی۔
وکیل کے پاس زکاۃ کی رقم ضائع ہوگئی تو زکاۃ ادا نہیں ہوئی:
زید نے خالد کو زکاۃ کی رقم کسی مسکین کو ادا کرنے کے لیے دی جو خالد کے
پاس سے ضائع ہوگئی، ایسی صورت میں زید کے ذمہ جو زکاۃ واجب الادا تھی وہ
ادا نہیں ہوئی،دوبارہ ادا کرنا لازم ہے۔ اگر خالد نے حفاظت میں غفلت نہیں
برتی بلکہ جیسے اپنے مال کی حفاظت کا اہتمام کرتا ہے ویسا ہی اہتمام زکاۃ
کی رقم کی حفاظت کا کیا تھا تو خالد کے ذمہ اس رقم کاواپس کرنا لازم نہیں،
ورنہ لازم ہے۔
وکیل کا زکاۃ کی رقم میں ردو بدل کرنا:
ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو زکاۃ یا صدقات واجبہ کی مد سے کچھ رقم مساکین
کو دینے کے لیے دی، اس وکیل نے وہ رقم بدل دی،مثلا دس دس روپے کے دس نوٹ اس
میں سے لیے اور سو روپے کا نوٹ اس میں رکھ دیاتوزکاۃ بہرحال ادا ہوجائے
گی،بشرطیکہ زکاۃ کے لیے دئیے گئے پیسے بھی اس کے پاس موجودہوں،اگر وہ زکاۃ
ادا کرنے سے پہلے ضائع ہو گئے ہوں یا خرچ کر دئیے ہوں تو جتنے ضائع ہوگئے
یا خرچ ہو گئے اتنے روپوں کے بقدر زکاۃ ادا نہیں ہوئی، وہ موکل کو لوٹانا
ضروری ہے تاکہ وہ بنیت ِ زکاۃ کسی کو دیدے۔البتہ اس صورت(صدقات) میں چونکہ
رقم متعین ہو جاتی ہے،لہذاتبدیل کرنے کا جواز اس پر موقوف ہے کہ موکل کی
طرف سے تبدیل کرنے کی اجازت صراح یا دلال موجود ہو، موجودہ زمانے میں عموما
اس کی اجازت ہوتی ہے اس لیے صراح اجازت کی ضرورت نہیں، اس کے باوجود احتیاط
اس میں ہے کہ صراح اجازت لے لے۔
وکیل نے زکاۃ کو مصرف میں استعمال نہیں کیا تو کیسے بری ہو گا؟
وکیل کے لیے جائز نہیں کہ زکاۃ دہند گان کی طرف سے معین کردہ مصرف کے علاوہ
کسی اور جگہ زکاۃ کی رقم صرف کرے، اگر ایسا ہو جائے تو:
جس کو دیا ہے اگر وہ مصرفِ زکاۃ ہے اور اس کے پاس وہ مالِ زکاۃ باقی بھی
ہے، اس نے ابھی تک خرچ نہیں کیا تو مالک کو اطلاع دے، اگر مالک بخوشی اس پر
راضی ہو تو زکاۃ ادا ہو جائے گی، اگر اس نے اجازت نہیں دی یا اس مستحق کے
ہاتھ سے زکاۃ کی رقم خرچ ہو گئی ہے تو پھر وکیل پر لازم ہے کہ زکاۃ دہندگان
کو صورتِ حال بتا کر اتنی رقم اپنی طرف سے زکاۃ دہندگان کی ہدایت کے مطابق
بطورِ زکاۃ کسی مستحق کو دے، زکاۃ دہندگان اگر اسے معاف کر دیں اورخود زکاۃ
ادا کریں یا دوبارہ اسے زکاۃ کی رقم دے کر ادائیگی کا وکیل بنا دیں تو بھی
صحیح ہے، اگر مالک کو اطلاع دینا ممکن نہ ہو تو وکیل اتنی رقم زکاۃ دہندگان
کی طرف سے بتائے ہوئے مصرف میں خرچ کرے، ان شا اﷲ تعالی اس سے ذمہ فارغ ہو
جائے گا۔وکیل نے جس کو دیا ہے اگر وہ مصرف ِ زکاۃ نہیں تو اس میں مالکان کی
اجازت سے بھی زکاۃ صحیح نہیں ہو سکتی بلکہ مذکور بالا تفصیل کے مطابق
دوبارہ زکاۃ دینا ضروری ہے۔
وکیلِ زکاۃ دوسرے کو وکیل بناسکتا ہے:
وکیلِ زکاۃ دوسرے کو وکیل بناسکتا ہے اگرچہ اصل زکاۃ دہندہ کو علم نہ ہو:
اسلم نے اکرم کو وکیلِ زکاۃ بنایا،اکرم نے خود زکاۃ ادا نہیں کی بلکہ جاوید
کو وکیل بنایا اور جاوید نے مستحق کو زکاۃ پہنچائی تو زکاۃ ادا ہو گئی، اگر
چہ اصل زکاۃ دہندہ یعنی اسلم کو جاویدکے وکیل ہونے کا علم نہ ہو۔ وکیل
ِزکاۃ کو اگر خاص شخص کو دینے کے لیے وکیل مقرر کیا جائے تو کسی اور کو
نہیں دے سکتا، اگر مطلقا فقرا و مساکین کو دینے کا وکیل بنایا گیا ہو تو
خود نہیں لے سکتا، با قی جس مستحق کو بھی دے زکاۃ ادا ہو جائے گی، اگر چہ
اپنی مستحق بیوی یا مستحق بالغ اولاد ہی کو دے، نابالغ مستحق اولاد کودینے
میں یہ شرط ہے کہ یہ خود مستحق زکاۃ ہو ورنہ نابالغ بچوں کو نہیں دے
سکتا۔اگر اسے مکمل اختیاردیا جائے کہ آپ کی مرضی جہاں چاہیں اس زکاۃ کو صرف
کر سکتے ہیں تو پھر خود بھی لے سکتا ہے، بشرطیکہ مستحقِ زکاۃ ہو۔
اگر کسی شخص نے غیر مسلم کو وکیل بنایا:
اگر کسی شخص نے غیر مسلم کو وکیل بنایا کہ زکاۃ مستحقین تک پہنچاؤ تو یہ
صحیح ہے، بشرطیکہ اسے دیتے وقت دینے والے نے زکاۃ کی نیت کی ہو، اگر دیتے
وقت زکاۃ کی نیت نہیں کی تو جب تک یہ مال فقیر کی ملکیت میں موجود ہے اس
وقت تک نیت کر لے توزکاۃادا ہوجائے گی، البتہ اگر وہ مال فقیر کی ملکیت سے
کسی بھی وجہ سے نکل جائے تو پھر زکاۃ کی نیت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں،زکاۃ
ادا نہ ہو گی۔
اجازت کے بغیرکسی کی طرف سے زکاۃ دے دی:
عمران پر زکاۃ فرض ہے، سلیمان نے اس کی اجازت کے بغیر اس کی طرف سے زکاۃ دے
دی تو اس سے زکاۃ ادا نہیں ہوئی، اگر عمران بعد میں اجاز ت بھی دے دے تب
بھی درست نہیں اور جتنی رقم سلیمان نے عمران کی طرف سے دی ہے وہ عمران سے
وصول کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ |
|