عازمین حج2015 کیلئے مناسک حج کی تربیت
(Dr Khalid Mehmood, Rawalpindi)
اﷲ تعالیٰ نے حج کی ادائیگی کو
صاحب استطاعت مسلمانوں پر اپنا حق قرار دیا ہے دنیا بھر سے لاکھوں صاحب
استطاعت فرزندان اسلام اﷲ کی طرف سے عائد شدہ فریضہ کی ادائیگی کیلئے ہر
سال ایام حج میں مکہ معظمہ میں حاضری دیتے ہیں۔ اور حج کے فریضہ کی ادائیگی
کے فرض سے سبکدوش ہونے کے ساتھ ساتھ حج کی نوازشات سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں۔
حج کے فر یضہ کی ادائیگی اتنی آسان نہیں ہے جتنی کہ دوسرے فرائض مثلاً نماز
، روزہ ، زکوۃٰ کی ادائیگی آسان اور سہل ہے۔ اپنے گھر میں اپنے شہر میں
اپنے ملک میں رہتے ہوئے نماز روزہ اور زکوۃٰ کے فرائض کی ادائیگی ہو جاتی
ہے۔ مگر حج کے فریضہ کی ادائیگی کیلئے نہ صرف ہزاروں کلو میٹر دور واقع سر
زمین حجاز کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے بلکہ اس طویل سفر کیلئے کئی قسم کی
تیاریاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔مثلاً حج کیلئے زادراہ یعنی اخراجات کا بندوبست
کرنا حج کیلئے درخواست داخل کرنا ، پاسپورٹ بنوانا اور زر مبادلہ کا حصول،
حفظان صحت کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف بیماریوں سے بچاؤ کیلئے ٹیکے لگوانا
اور ادویات کا ستعمال کرنا، اندرون ملک اور بیرون ملک ائیر پورٹ پر سیکورٹی،
امیگریشن اور کسٹم کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا ، حجاز مقدس میں قیام کے دوران
وہاں کے موسم کوبرداشت کرنا مکہ معظمہ میں رہائشی مکانات کی اونچائی اور
حرم شریف سے دوری کے اثرات کے باعث ہمہ وقت تھکاوٹ اور خستگی سے دو چار
رہنا، حج کے ایام میں سڑکوں پر بے انتہا ہجوم کے باعث پیدل چلنے میں دشواری
کا سامنا کرنا ، منیٰ اور عرفات میں جاتے اور آتے وقت موٹر گاڑیوں کے صبر
آزما سفر سے دو چار ہونا، منیٰ عرفات اور مزدلفہ میں اپنی پسند کی معقول
غذا کا دستیاب نہ ہونا، ہجوم اور غیر معمولی رش والے مقامات پر کمزور اور
ناتواں افراد کے کچلے جانے کے خطرات کا موجود ہونا وغیرہ وغیرہ۔ حج کی
ادائیگی کے لئے ان تمام مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ فریضہ حج کی صحیح
طریق سے مکمل ادائیگی کو یقینی بنانے کیلئے مناسک حج کی تربیت کا حاصل کرنا
اشد ضروری ہے تاکہ نقائص اور سقم سے پاک حج ادا کر کے حج کو مبرور اور
مقبول بنایا جا سکے۔ روزانہ پڑھی جانے والی نمازوں، ہر سال رکھے جانے والے
روزوں میں کوئی گڑ بڑ ہو جائے یا نقصان واقع ہو جائے تو نماز آسانی سے
دہرائی جا سکتی ہے اور روزے کی قضا ادا کی جاسکتی ہے مگر عمر بھر میں صرف
ایک اور وہ بھی پہلی بار اداکئے جانے والے حج کی عبادت میں کوئی سقم واقع
ہو جائے اور حج کا کوئی واجب اور اہم رکن ٹھیک طرح سے ادا نہ ہو سکے تو دم
کی صورت میں کفارہ یا جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے ۔ دم کا مطلب ہے حدود حرم کے
اندر ایک بکرا، بکری ، بھیڑ یا دنبہ کفارہ کے طورر پر ذبح کرنا یا سات
افراد کا باہم مل کر کفارہ کے طور پر گائے یا اونٹ ذبح کرنا۔لہٰذا یہ
انتہائی ضروری ہے کہ پہلی بار اور زندگی بھر میں ایک بار کی جانے والی
عبادت کو نہایت ذمہ داری اور صحت سے ادا کرنے کیلئے سنجیدگی اور جذبے کے
ساتھ پوری پوری تربیت حاصل کی جائے۔ ہر فرد کا پہلا حج ہی فرض کا درجہ
رکھتا ہے بعد میں کئے جانے والے حج نفل کا درجہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا پہلے حج
کی صحیح طور پر ادائیگی انتہائی ضروری ہے۔ صحیح طور ر پر ادا نہ کیا ہو ا
حج باطل بھی ہو جاتا ہے اور عام مر د یا عورت کیلئے باطل شدہ حج کی دوبارہ
ادائیگی آسان نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق بوڑھے ضعیف افراد اور
خواتین کا جہاد حج ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ "فرض حج بیس مرتبہ کے جہاد سے
بڑاہو تا ہے" ایک دوسری حدیث میں ہے۔ـ" حج کرنا جہاد ہے۔" جس طرح جہاد میں
بہت سی سختیاں اور تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اسی طرح حج میں مردوں اور
عورتوں کو پورا عرصہ سختی اور مشقت سے گزارنا پڑتا ہے۔ ان حدیثوں سے حج کی
اہمیت مزید واضح ہو جاتی ہے فرض حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ جہاد کا ثواب
بھی حاصل ہو ۔ اگر خدانخواستہ مناسک حج کی ادائیگی کے طریقوں سے لاعلمی کے
باعث حج ہی ناقص یا با طل ہو جائے تو جہاد کا درجہ اور ثواب کیسے حاصل ہو
گا۔تقریباً ساڑھے چار ہزار سال قبل جب حضرت ابراہیم ؑ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم
کے تحت بیت اﷲ یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کر لی توحضرت ابراہیم ؑ نے اﷲ
کو پکارتے اور دعائیں مانگتے ہوئے وَاَرِنَامَنَا سِکَنَا (القرآن) بھی کہا
یعنی اے ہمارے رب ہمیں حج کے طریقے بھی یعنی مناسک بھی سکھا دے۔ اس سے واضح
ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ بھی حج کی عبادت کے طریقے میں اﷲ
تعالیٰ کی رہنمائی کے طلب گار تھے۔10 ہجری میں رسول پاک ﷺ نے حج ادا فرمایا
جسے حجتہ الوداع کہا جاتا ہے اس موقع پر قیام منیٰ کے دوران حضور پاک ؐ نے
ارشاد فرمایا تھا، خُذُوْاعَنّیِ مَنَاسِکَکُمْ (ارشادِ نبوی)۔ یعنی مجھ سے
حج کے مناسک سیکھ لو۔ ان دو حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کی ادائیگی سے
قبل حج کے مناسک سیکھنا بہت ضروری ہیں اور حضور پاکؐ کے فرمان کے عین مطابق
ہے جن لوگوں کا خیال ہے کہ حج کے مناسک سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ
حج کے مناسک خود بخود یا دوسروں کی دیکھا دیکھی آ جاتے ہیں یا معلم ہمیں حج
کرا دے گا یا وہاں مقیم ہمارے رشتہ دار، دوست احباب ہمیں حج کرا دیں گے۔
وہاں کوئی کسی کو حج نہیں کرواتا ہے ہر ایک کو اپنا اپنا حج و عمرہ خود ہی
کرنا ہوتا ہے۔ ان کی سوچ صحیح نہیں ہے مناسک حج کی تربیت حاصل کر نا کیوں
ضروری ہے۔اس کا جواب تو مندرجہ بالا سطور میں آگیا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ
تربیت کس طریقہ سے حاصل کی جائے تا کہ عمرہ اور حج کے تمام مناسک ، رکن ،
شرائط، واجبات اورمستجابات، وغیرہ صحیح طور اور صحیح طریقہ سے ادا ہو جائیں۔
عمرہ اور حج کرنے والے کے دل میں بھی کسی قسم کا شک اور شبہ باقی نہ رہے کہ
اس سے عمرہ یا حج کا فلاں رکن،فلاں شرط یا فلاں واجب صحیح طور سے ادا نہ ہو
سکا اور ایسی کو ئی خلش اسے تمام عمر ستاتی رہے۔ ایک عام مسلمان جو حج کے
فریضہ کی ادائیگی کیلئے عمر بھر پائی پائی جمع کرتا ہے اور مناسک حج کی
صحیح اور مکمل تربیت کے بغیر ہی حج پر روانہ ہو جا تا ہے اور واپس آنے کے
بعد جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس سے حج کے دوران فلاں فلاں رکن صحیح طور پر
ادا نہ ہو سکا یا فلاں فلاں کو تاہی ہو گئی تھی تو اسے کتنا دکھ اور افسوس
ہوتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی کہ دوبارہ حج پر جائے اور صحیح طریق پر حج کے
مناسک ادا کرئے مگر اکثر و بیشتر کا دوبارہ جانا ممکن اور آسان نہیں ہوتا۔
یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پہلا ہی حج فرض کا درجہ رکھتاہے۔ لہٰذا
کیوں نہ پہلے حج کو صحیح طریق سے ادا کرنے کیلئے مناسک حج کی مؤثر اور مفید
تربیت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے دیہات کے علاقوں سے حج پر جانے
والے مرد اور عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انہی افراد کو مناسک حج
سیکھنے اور سکھانے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مساجد کے اند جو تربیت دی جاتی
ہے وہ محض زبانی تربیت ہوتی ہے جسے ایک کان سے سننے والا دوسرے کان سے اڑا
دیتا ہے۔اس کے بر عکس جہاں بصر ی اور عملی تربیت کے انتظامات کئے جاتے ہیں
وہاں تربیت لینے والے کے پلے بہت کچھ پڑ جاتا ہے۔ ماڈل ، نقشوں ، چارٹوں
اور عملی مظاہروں کے ساتھ لی ہوئی تربیت ذہن میں نقش ہو جاتی ہے۔ بصری و
عملی تربیت پانے والا نہ صرف خود اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ تمام مناسک بغیر
کسی کی رہنمائی کے از خود ٹھیک ٹھاک ادا کر سکے۔ بلکہ وہ غیر تربیت یافتہ
ساتھیوں کی رہنمائی کرنے کے قابل بھی ہو جا تا ہے۔ بصری تربیت گاہوں سے
تربیت پاکر جانے والے افراد جب حج کر کے واپس آتے ہیں تو حج کی ادائیگی سے
نہایت مطمئن ہوتے ہیں ان کے دل میں کوئی خلش یا شک و شبہ نہیں ہوتا۔ حج کا
قبول ہونا یا نہ ہونا اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ جس کا حج چاہے قبول فرمائے
مگر ہر عازم حج مرد وزن کو اپنی طرف سے پوری تربیت لے کر حضور پاک ﷺ کے
بتائے ہوئے طریقے پر عمرہ اور حج کی ادائیگی کرنی چاہئے تاکہ اﷲ تعالیٰ سے
حج مبرور کے ثواب کی امید رکھی جائے۔ مردوں کی طرح خواتین کو بھی لازمی
تربیت لیکر جانا چاہیے۔
قیام پاکستان سے قبل ایک زمانہ میں حید آباددکن میں حج میوزیم قائم تھا جس
میں ہر مقام حج کے نمونے ( ماڈل ) بنے ہوتے تھے وہاں حج پر جانے والوں کو
باقاعدہ طواف ،سعی، رمل اور دیگر مناسک حج کی عملی تربیت دی جاتی تھی اور
دعائیں وغیرہ یاد کرائی جاتی تھیں تا کہ حج کے فریضہ کی ادائیگی میں کوئی
نقص واقع نہ ہو اور وہ شرف قبولیت پا سکے کیونکہ حج ایک ایسا جامع العبادات
فریضہ ہے کہ عوام تو کیا علماء تک اس میں غلطیاں کر جاتے ہیں وہاں صرف ان
افراد کو حج پر جانے کی اجازت ملتی تھی جو حج کا تربیتی کورس مکمل کر لیتے
تھے۔ پاکستان میں بھی ایران، انڈونیشیا اور ملائیشیا کی طرز کی تربیت گاہیں
قائم ہونی چاہییں۔اور ہر عازم حج کیلئے تربیت لازمی قرار دے دینی چاہیے۔
چند سال قبل وزارت مذہبی امور کو تحریری تجویز پیش کی گئی تھی کہ عازمین حج
کو مناسک حج کی مو ثر اور مکمل تربیت دینے کیلئے ملک کے تمام حاجی کیمپوں
میں ایک حج میوزیم بنایا جائے جس میں مسجد الحرام، بیت اﷲ شریف ، مقام
ابراہیم، حطیم، مسعٰے اور تینوں شیطانوں (جمرات) کے ماڈل منیٰ، مزدلفہ
عرفات کے نقشے ، چارٹ اور تصویریں رکھی جائیں تا کہ عازمین حج کو ان سے
تربیت مل سکے اور ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو۔ توقع کی جانی چاہیے کہ
حکومت اس ضرورت کی طرف مناسب توجہ دے گی اور ملک کے تمام حاجی کیمپوں میں
عازمین حج کو مناسک حج کی ادائیگی کے مقامات سے روشناس کرانے کے لئے حج
میوزیم قائم کرے گی۔ اور حج سیزن میں روزانہ تربیتی پروگرام کا انتظام کرے
گی۔
1978ء سے قائم شدہ بصری تربیت گاہ مناسک حج و عمرہ F-765، کالج چوک،سید
پور روڈ، سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی میں عازمین حج و عمرہ کی معلومات اور عملی
و بصری تربیت کیلئے ایک حج میوزیم بنا رکھا ہے جس میں مقامات طواف،مطاف
خانہ کعبہ مقام ابراہیم ،حجر اسود ،حطیم، جمرات، صفامروہ ،منیٰ ،مزدلفہ،عرفات
اور مسجد نبوی ،مواجہ شریف کے ماڈل تصاویر نقشے ،چارٹ ،پینافلیکس اور خاکے
رکھے گئے ہیں۔ہر سال حج کے سیزن میں ہزاروں کی تعداد میں عازمین حج مرد اور
خواتین یہاں آ کر مناسک حج کی بصری و عملی تربیت لیتے ہیں۔ گزشتہ سالوں کی
طرح اس سال بھی عازمین حج کی سمعی و بصری تربیت کے انتظامات کئے گئے ہیں۔
تربیت کے یہ پروگرام انشاء اﷲ عیدالفطر کے بعد ہر اتوار کے دن صبح 9بجے تا
2بجے دوپہر منعقد ہونگے۔ یہ تربیت بلا معاوضہ دی جاتی ہے۔ تربیت گاہ میں
لیکچرز، ماڈل، چارٹوں، نقشوں، تصاویر، خاکوں، آڈیو/ وڈیو معاونات کے ساتھ
انتہائی جدید انداز میں تربیت دی جاتی ہے جس میں عازمین حج کو احرام
باندھنے کا عملی طریقہ مناسک عمرہ، مناسک حج کی ادائیگی اور مدینہ منورہ
میں حاضری، مسجد نبویؐ کی زیارت اور بارگاہ رسالتؐ میں صلوٰۃ و سلام پیش
کرنے کے آداب اور طریقے بتائے جاتے ہیں۔تربیتی پروگرام میں خواتین بھی شرکت
کر سکتی ہیں۔ خواتین عازمین کو خواتین ماسٹر ٹرینرز تربیت دیتی ہیں۔مناسک
حج کی تربیت کا پہلا پروگرام انشاء اﷲ اتوار 26جولائی 2015ء، دوسرا پراگرام
02اگست، تیسرا پروگرام 09اگست، چوتھا پروگرام 16اگست، پانچواں پروگرام
23اگست، چھٹا پروگرام30اگست، ساتواں پروگرام 06ستمبر اور آٹھواں پروگرام
اتوار 13ستمبر2015ء کو ہو گا۔ ہر پروگرام مکمل تربیت پر مبنی ہو گا۔ گروپ
کی صورت میں جانے والے عازمین حج پورے گروپ سمیت پیشگی وقت اور دن طے کر کے
تربیت لے سکتے ہیں۔ تربیتی پروگرام کے دوران ڈاکٹر ریاض الرحمنؒ بانی بصری
تربیت کا لکھا ہوا معروف کتابچہ ’’ترتیب حج‘‘ اور حج لٹریچربلامعاوضہ تقیسم
کیا جائے گا۔ خواہشمند عازمین حج جوابی پتہ لکھا ہواڈاک کا لفافہ ارسال کر
کے کتابچہ ترتیب حج بلا معاوضہ منگوا سکتے ہیں۔ مناسک حج کی تربیتی فلم آپ
حج کیسے کریں اور زیارتِ مدینہ منورہ‘‘ بھی دستیاب ہو گی۔
پاکستان سے ہر سال لاکھوں مسلمان حج و عمرہ کی سعادت حاصل کر تے ہیں لیکن
ان کی واپسی پر معاشرہ میں کوئی واضح مثبت تبدیلیاں نظر نہیں آتی ہیں جس کی
مثال ، ملک میں لا قانونیت ، مہنگائی، کبھی آٹے کا بحران، کبھی چینی کا
بحران،ہر سال رمضان المبارک میں ناجائز ذخیرہ اندوزی ،بلا وجہ مہنگائی،
دونمبر مال ،ملاوٹ اور سیل کے نام پر دھوکہ دہی شامل ہے۔ اگر حکومت وقت ملک
میں اسلامی نظام نافذ نہیں کرتی توحج سے واپس آنے والے اپنے قو ل و فعل سے
اپنے اوپر اسلامی اور شرعی احکام نافذ کرتے ہوئے اور ان پر عمل درآمد کرتے
ہوئے اپنے آپ میں واضح تبدیلی ثابت بھی کریں۔نماز ، روزہ کی پابندی کریں،
زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔اور اس تبدیلی کے اثرات ہمارے معاشرے پر
بھی اثر انداز ہوتے نظر آنے چاہیے۔کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام کیا جا
ئے امن و امان اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے۔حقوق العباد کا خیال کیا
جا ئے ۔بیروزگاری غربت اور مہنگائی کو ختم کیا جائے۔ اگر حج و عمرہ ادا
کرنے کے بعد بھی وہی کچھ کرنا ہے جو اس سے پہلے کرتے تھے تو ایسے حج و عمرہ
کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ حج و عمرہ کی حاضری اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی
بلاوا ہوتا ہے کہ آپ اس کے گھر جا کر اپنے گناہوں کی سچے دل سے توبہ کریں
اور آئندہ زندگی میں اﷲ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر عمل کریں تو یقین
کریں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کا حج و عمرہ قبول و منظور کریں گے اور آپ کو گناہوں
سے پاک کر کے اس طرح واپس بھیجیں گے کہ جیسے آپ آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔ |
|