طلبِ علم
(Shaikh Wali Khan Al Muzzafar, Karachi)
اللہ کا شکر ہے،ہم مسلمان ہیں
اوردین کی پہلی وحی ’’اقرأ‘‘ ہے،ماقبل الاسلام زمانے کو قرآن نے دورِ
جاہلیت کہا ہے،تو گویا اسلام دورِ علمیت ہے، اسی لئے اسلام نے علم کے حصول
کوفرض قرار دیا ہے،قرآن ِکریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کیا برابر
ہوسکتے ہیں وہ جو اہلِ علم ہیں اوروہ جو بے علم ہیں ؟ایک اور مقام میں
فرمایا: اللہ تعالیٰ تم میں سے مؤمنین کوبلند کرتے ہیں اورجنکو علم سے
نوازاگیااُ ن کو درجاتِ عالیہ پر فائز کرتے ہیں،نیز فرمانِ الٰہی ہے:کیوں
نہ چل پڑے ہر جماعت میں سے ایک گروہ،دین میں سمجھ بوجھ(تفقّہ) حاصل کرنے کے
لئے ،تاکہ ڈرائے اپنی قوم کو ، جب لوٹ کر آئیں۔رسولِ اکرم ﷺنے فرمایا :طلبِ
علم ہر مسلمان مرد وعورت کا فریضہ ہے۔آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: حصولِ علم کا
سلسلہ بچھونے سے قبر تک جاری رہناچاہیئے،یعنی مسلسل اپڈیٹ رہنا چاہیئے۔ایک
روایت میں ہے :اللہ تعالٰی جس کی بھلائی چاہتے ہیں،اُسے دین کا فقیہ
بنادیتے ہیں۔ایک اور روایت بہت مشہور ہے : علم تلاش کرو اگرچہ چین جانا
پڑے۔امامِ ترمذیؒ نے اپنی جامع میں سب سے آخری روایت یہ بیان کی ہے:علم کا
دوسرا نام دین ہے،اچھی طرح دیکھلو کہ یہ آپ کو کن سے حاصل کرنا چاہیئے۔
ان تمام فرامین کے تناظر میں انسان کا اولین کام یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود علم
حاصل کرے،جان مال اور وقت کی قربانی دے،مشقتیں اور صعوبتیں جھیلیں،اگر علم
ومعرفت کا حصول آسان کام ہوتا،تو نبی کریم ﷺ جیسی شخصیت کو اس کے لئے غارِ
حرأ کے چکرکیوں کاٹنے پڑتے، دن رات وہاں گوشہ نشینی کیوں اختیار کرنی
پڑتی۔طالبِ علم کو اپنی راہوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے،جن
کی وجہ سے کئی لوگ تلاشِ علم سے بے زار ہوکر بھاگ جاتے ہیں،اسی لئے
بطورتسلی وحوصلہ افزائی آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص تلاشِ علم میں کسی بھی راہ
یا حکمتِ عملی کا انتخاب کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس طالبِ علم کے
لئے جنت کی راہ آسان کردینگے۔اور دیگر لوگوں کو آپﷺ نے حکم دیا :جب
تمھارے پاس متلاشیانِ علم آجائیں، تو ایک دوسرے کو اُن کے متعلق بھلائی کا
کہا کرو۔ حضرتِ عبداللہ بن عباس ؓنے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعدایک انصاری سے
کہا ، آنحضرت ﷺ وفات پا گئے ہیں، مگر آپﷺ کے اصحاب زندہ ہیں، چلو ان سے علم
حاصل کریں۔انہوں نے کہا: اے ابن عباس ؓ! تم پر حیرت ہوتی ہے،تم دیکھتے ہو
کہ لوگ علم میں خود تمہارے محتاج ہیں،پھر تم دوسروں کے پاس جاتے ہو،آپ ؓنے
یہ جواب سن کر ان کو چھوڑ دیا اور تنہا جہاں کہیں سراغ ملتا کہ فلاں شخص نے
آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، فوراً مشقت اُٹھاکر اس کے پاس پہنچتےاور
اطلاع دیتے،وہ گھر سے نکل آتا ،تو آپؓ کہتے ، تم نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث
سنی ہے، وہ کہتے: ابن عم رسول ﷺ !آپ نے کیوں زحمت گوارہ کی کسی دوسرے کو
بھیج دیا ہوتا، کہتے ،یہ میرا فرض تھا،اس طریقے سے عرب کے گوشہ گوشہ سے ایک
ایک دانہ چن چن کر خرمن ِعلم کا انبار لگایا۔ جب ان کے فضل و کمال کا چرچا
زیادہ ہوا، اس وقت ان انصاری نے جنہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کردیا تھا ،
ندامت کے ساتھ اقرار کیا کہ ابنِ عباس ؓ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔(سیر
الصحابہ:2/۔259) ۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلأ میں لکھا ہے : علی بن احمد خوار زمی نے
فرمایا کہ ابن ابی حاتم نے ہم سے بیان کیا کہ ہم لوگوں نے مصر میں سات
مہینے تک شوربہ تک نہیں کھایا، دن میں شیوخ سے سماع کرتے اور شب میں اسے
لکھتے تھے، اور دوسرے نسخے سے مقابلہ کرتے، ایک روز کی بات ہے: میں اور میر
ا ایک ساتھی شیخ کے پاس آیا، کہا گیا کہ وہ بیمار ہیں، چنانچہ ہم لوگ لوٹ
رہے تھے کہ راستے میں ایک مچھلی دیکھی، اچھی لگی، اس لیے اسے خرید لیا، جب
گھر پہونچے تو دوسرے شیخ کی مجلس کا وقت ہوگیا، چنانچہ ہم لوگ نکل گئے، تین
دن تک مچھلی رکھی رہ گئی، قریب تھا کہ بدبودار ہوجائے، بالآخر ہم لوگوں نے
اسے بغیر پکائے یونہی کھا لیا کیوں کہ بنانے کی فرصت نہ مل سکی تھی۔ پھر
کہا: حصول علم جسمانی راحت کے ساتھ ممکن نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے امام نووی ؒکو 40 سال کی عمر ہی میں دار بقا کی طرف بلالیا،
اتنی مختصرمدت کے باوجود انہوں نے جس قدر اپنی تصنیفات کا ذخیرہ چھوڑاہے،
انہیں دیکھ کر بے ساختہ ہماری زبان سے نکل پڑتا ہے:
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
ان کی بابت مورخین لکھتے ہیں کہ جب وہ بچے تھے تو محلے کے بچے ان کے پاس
آتے اور انہیں کھیلنے پر مجبورکرتے تھے جس کی وجہ سے وہ بھاگتے اور رونے
لگتے تھے، لیکن ایسی حالت میں بھی قرآن پڑھنا نہیں بھولتے تھے، یعنی زبان
پر قرآن کی سورتیں ہوتی تھیں۔
ابن العماد نے شذرات الذہب میں لکھا ہے کہ وہ پڑھنے میں اس قدرمشغول رہتے
تھے کہ رات و دن میں ایک ہی بار عشاء کی نماز کے بعد کھانا کھاتے تھے اور
کہتے: میں ڈرتا ہوں کہ مبادا لحیم و شحیم ہوجاؤں اور نیند کا غلبہ آنے لگے۔
امام نووی رحمہ اللہ خود اپنے طلب علم کی شروع زندگی کی بابت لکھتے ہیں:
میں نے دو سال تک زمین پر اپنا پہلو نہیں ٹیکا۔
اور بدر بن جماعہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان کی نیند کے حوالے سے ان سے دریافت
کیا تو انہوں نے کہا کہ جب ہم پر نیند کا غلبہ ہوتا توتھوڑی دیرتک کتابوں
پرٹیک لگا لیتا پھرمتنبہ ہوجاتا۔
بدر کہتے ہیں کہ جب میں امام نووی رحمہ اللہ کی زیارت کرنےآتا تو وہ اپنی
بعض کتابوں کوبعض پررکھ کر ہمارے بیٹھنے کے لیے جگہ بناتےتھے۔
ان کے کثرت انہماک کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک دن
میں بارہ بارہ درس میں حاضر ہوتے تھے، اوریہ ان کے روزانہ کا معمول تھا،
کہتے ہیں: میں ان تمام مادوں کےمشکل الفاظ کی شرح، گنجلک عبارت کی وضاحت
اورکسی لفظ کی تشکیل کتابوں پر چڑھا لیا کرتا تھا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے
ہمارے وقت میں برکت عطا فرمائی اور ہماری اعانت کی ۔
امام نووی رحمہ اللہ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کوئی اجنبی آدمی انہیں
دیکھتا تو سمجھتا کہ کوئی دیہاتی فقیر ہے اور انہیں کوئی عزت نہیں دیتا
لیکن جب ان کا درس یا ان کی بات سنتا تو ہکا بکا رہ جاتا۔
ابھی چند ہی روز قبل قمری سال کا ماہِ رمضان اور شمسی سال کا جولائی کا
مہینہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گذر کر ماضی کا حصہ بن گئے ہیں تو اب ایک
طرف موسمِ گرما کے بعدانگریزی سکولز کے بچوں کے اسباق نئے سرے سے شروع
ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف عربی مدارس میں تعلیمی سال کا آغاز ہورہا ہے،
دونوں قسم کے اداروں کے اساتذہ وطلبہ نئے شوق وجذبے اور عزم وولولے کے ساتھ
اپنے طلبِ علم کےمبارک سفر کوجاری رکھیں اور ناخواندگی کے عفریت پر کاری
ضرب لگاکر امّت اور انسانیت کو فلاح وبہبود سے روشناس کرنے اور اس کرۂ
ارضی کو علم ودانش کے نور سے منوّر کرنے کیلئے کمر بستہ ہوں۔ |
|