ہوم ورک

میں تو آج گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائوں گی،آج ہوم ورک اتنازیادہ ہے ۔ ''یار دانش ! میر ی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ ٹیچر اتنا زیاد ہ کام گھر پر کرنے کیلئے کیوں دے دیتے ہیں ۔'' اتنا بہت سا ہوم ور ک لگتا ہے آج تو رات کا ڈرامہ بھی چھوڑنا پڑے گا ۔''یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں آپ نے طلبا ء طالبات کے منہ سے اکثر سنی ہوگئی ۔بچو ں کی اکثر یت کے منہ سے اس قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ، چھوٹے بچوں کے چہروں پر تو ایسی باتیں کر ہوئے ڈراور خوف کے آثار واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔

پر بچوں کی اکثر یت ہوم ورک کر نے سے کیو ں کتراتی ہے یا انہیں گھر پر کر نے کیلئے ملنے والا کا م بوجھ لگتا ہے یا وہ ہوم ورک کر بھی لے گا لیکن صر ف گلے سے بوجھ اتارنے کیلئے اس کی تین وجوہات ہیں ۔

پہلی ہوم ورک بہت زیادہ ہے ۔ دوسری سکول میں پڑھائی کا معیا ر غیر تسلی بخش ہے ۔ تیسری استاد نا اہل ہے ۔جس نے سبق کو آسان کر کے طلبہ تک منتقل نہیں کیا اور آپ دلچسپ طریقہ نہیں اپنایا جس سے طلبہ شوق سے پڑھتے لکھتے ۔

اگر ہم پاکستان اور تر قی یا فتہ ملکوں کا موازنہ کر یں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنا سارا نظام تعلیم اس طرح بنا یا ہے کہ طلبہ پڑھنے لکھنے کے بجائے اس سے دور بھاگتے ہیں ۔

جبکہ انگریزی نے اپنا نظام تعلیم اس طرح تربیت دیا ہے کہ طلبہ خوشی خوشی سکول جاتے اور شوق سے لکھتے پڑھتے ہیں۔ کہاں طلبہ پر کتابوں کا بوجھ ہے وہاں گنتی کی چند کتابیں ہیں باقی سارا کام زبانی یا عمل (پریکٹیکل ) ہے۔ یہاں ایک ایک مضمون کی کئی کئی کتابیں ہیں ،وہاںایک ہی کتاب ہے اور وہ ہی مختصر سی۔

یہاں بچوں کے دماغوں میں معلومات زبردستی ٹھونسی جاتی ہیں وہاں معلومات بتائی جاتی ہیں۔یہاں زیادہ سے زیادہ نمبر لینا کامیابی سمجھا جاتا ہے وہاں پاس ہوتا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہاں استاد صرف پڑھاتے ہیں،وہاں پڑھانے کے دلچسپ طریقے تلاش کیے جاتے ہیں۔یہاں پوزیشن لینے پر زور ہے وہاں قابلیت پیدا کرنے اور سمجھنے پر زور دیا جاتا ہے۔

والدین کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ بہت زیادہ ہوم ورک بھی بچے کو کندذہن ،محض رٹا لگانے والا طوطا اور نااہل بنا دیتا ہے۔زیادہ ہوم ورک ملنا سکول کے اچھا ہونے کی نشانی ہے نہ استاد کے اچھا پڑھانے کی بچے کا محض کتابوں کا کیڑا بن جانا اور اسے کھیل کود،ٹی وی دیکھنے اور آس پاس گپ شپ کا وقت نہ ملنا یاد رکھیں اسے مستقبل میں نا کام انسان بنا سکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ ہوم ورک آخر کتنا ہو کہ بچے اسے بھی خوشی اور شوق سے کر بھی لیں اور انہیں سبق یاد بھی ہوجائے کوشش یہ کی جائے کہ بچوں کو گھر پر کرنے کیلئے صرف اتنا کام دیا جائے کہ وہ اسے بوجھ نہ سمجھے تھوڑاہو لکھنے کیلئے ہوم ورک لیکن عام فہم ہو کہ بچے شوق سے کریں اور مطمئن بھی رہیں ۔

جماعت اول (نرسری ،پریپ، ون) کے ساتھیوں کو لکھنے پڑھنے کاکام صرف اتنا دیا جائے جسے وہ آدھے گھنٹے میں بہ آسانی کرلیں۔جماعت دوم،سوم کے طلبہہ کا کام اس قدر ہو کہ جو ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگے اور چہارم ،پنجم کے طلبہ کو محض اتنا کام دیا جائے جسے وہ باآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں کرکے فارغ ہوجائیں ۔ مڈل حصے میںپڑھنے والے طلبہ کو 2گھنٹے میں ہوجانے والا کام بھی ملے اور نہم ،دہم کے طلبہ کو یہ سوچ کر ہوم ورک دیا جائے کہ انہوں نے سکول ٹائم کے بعد گھر پر 2سے 3گھنٹے پڑھنا ہے جس میںنصف وقت لکھنے کیلئے اور نصف وقت مطالعے کیلئے ہو۔

یاد رکھیے کہ پرانے زمانے کی یہ کہاوت کہ ٹیوشن صرف نالائق طلبہ پڑھتے ہیں۔آج بھی سچ ہے۔اگر لائق بچے بھی ٹیوشن پڑھ رہے ہیں تو جان لیجئے کہ سکول غیر معیاری ،انتظامیہ وغیرہ پیشہ ورانہ اور استاد کی تدریس بے کار ہے۔جس میں والدین بھی برا بر کے قصور وار ہیں۔
٭٭٭
afaq ahmad 03335855488
About the Author: afaq ahmad 03335855488 Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.