کھلونے ہتھیاروں پر پابندی

انسان کی ابتدائی عمر اس کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے، شخصیت کے خدوخال اس عمر میں ہی ابھرتے ہیں، یہ شخصیت کی بنیاد ہوتی ہے، جس پر آگے چل کر عمارت بننی ہوتی ہے۔ زندگی کے اس دور میں بچے کی ساری سرگرمیاں اہمیت رکھتی ہیں، جن میں کھیل بھی شامل ہیں اور کھلونے بھی۔

جب میں ان لوگوں کی تحریریں پڑھتی ہوں جو ماضی ہو چکے تو حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کون سے پاکستانی تھے جن کی سوچ کی وسعت اب کم یاب ہے۔ بہت کم لوگ اپنے اردگرد ایسے نظر آتے ہیں جو کہ مسائل کو باریکی سے دیکھ کر ان کی جڑوں تک پہنچتے ہیں اور ساتھ ہی ان مسائل کو حل کرنے کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ نہ ہماری نسل میں، مجموعی طور پر، غوروفکر کرنے کی طرف مائل ہے اور نہ ہی آنے والی نسل سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ویسے تو ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ ہوتا جارہا ہے اور شرح خواندگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ناخواندہ فرد بھی اپنے مسائل کو سمجھنے لگا ہے، لیکن ساتھ ہی تنگ نظری کا پہرا ہماری سوچ کو قید کیے دیتا ہے۔

آج ہم فکری اعتبار سے اس گہرائی سے محروم ہیں جو ہم سے پہلے کے لوگ اپنی سوچ میں رکھتے تھے۔ ہم بہت سطحی باتیں کرتے ہیں، سطحی علم رکھتے ہیں، جسے انگریزی میں جرنل نالج کہا جاتا ہے وہ ایک عام پاکستانی کے پاس نایاب ہے۔ میں نے اس صورت حال کی وجوہات پر بہت غور کیا اور سب سے اہم وجہ جو میرے سامنے آئی وہ ہمارے عام گھروں کا ماحول ہے۔ گھروں میں ہم اپنے بچوں کے سامنے ادب پر بات کرتے ہیں نہ شاعری پر نہ تاریخ کا تذکرہ ہوتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سیاست کا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں مذہب پر بہت کھلے لفظوں پر بحث ہوتی تھی۔ مختلف مذاہب پر بات کی جاتی تھی۔ مسلک کو زیربحث لایا جاتا تھا۔ انڈو پاک ہسٹری ہو، موسیقی ہو یا کوئی اور اہم موضوع، گھر کی ایک جگہ پر کسی عام لائبریری میں میسر کتابوں جتنی کتابیں موجود ہوتی تھیں۔ ہم بچے تھے لیکن پھر بھی چلتے پھرتے یہ باتیں ہماری سماعتوں سے ٹکراتی رہتیں۔ ہم کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ غیرشعوری طور پر جاننے لگے تھے۔ کتابوں میں موجود لفظ مشکل لگتے تھے، لیکن جب اپنی والدہ یا تایاجان کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک کتاب دیکھتے تھے تو خود ہی کھیل کے دوران کتابوں کو ہاتھ میں لینے کی عادت سی ہوگئی تھی۔

یہ وہ چیزیں تھیں جنہوں نے رفتہ رفتہ غیرمحسوس طریقے سے ذہن سازی کی۔ اور آج ہم بہت اس قابل ہوئے کہ مختلف ایشوز پر سوچ سکتے ہیں اور ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرکے ان پر لکھ سکتے ہیں، بل کہ ان کے بارے میں سوچنے کا عمل دل دماغ کو یوں اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ قلم خود بہ خود کاغذ پر رواں ہوجاتا ہے۔

اب صورت حال یکسر مختلف ہے۔ بزرگوں کی کتابیں گھر میں موجود ہوں تو انھیں گھر کا فالتو ترین سامان اور بوجھ تصور کیا جاتا ہے، باقاعدہ کتابیں خریدنے کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ ان حالات میں ہماری آنے والی نسلوں کی ذہن سازی کیوں کر ہو سکے گی۔ چاہے وہ میرا اپنا گھر کیوں نہ ہو، ایک عام گھر کے لوگ اتنے زیادہ مصروف ہوچکے ہیں کہ ایک دوسرے سے مسائل پر تبادلہ خیال نہیں کرتے۔ ہم کبھی فارغ اوقات میں ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو نہ ادب پر گفتگو کرتے ہیں نہ تاریخ پر اور نہ ہی عالمی حالات و واقعات، ایسے میں زیربحث آتے ہیں، کیوں کہ ہمارا علم بہت محدود ہے، جس کی وجہ سے ہماری فکر اور موضوعات بھی محدود ہوگئے ہیں، ایسے میں ہم اپنے بچو ں کو کیا دیں گے۔

ہزاروں لاکھوں روپے اسکول فیس پر صرف ہو جاتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ٹیبلٹ، کمپیوٹر اور موبائل فون خرید کر اپنے بچوں کو دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسکول بھیج کر اور ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز میں پڑھا کر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اولاد کے حوالے سے اپنے فرائض پورے کردیے، لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔ اس طرح ہم اپنے بچوں کو اچھی زندگی، سہولتیں اور اچھے کیریر کا امکان تو دے رہے ہیں، لیکن انھیں باشعور اور اچھا انسان نہیں بنارہے۔ تعیشات سے زندگی سہل ضرور ہوجاتی ہے، لیکن ذہن سازی نہیں ہوپاتی۔ ایسی بہت سی روایات ہیں جن کو ہم نے دقیانوسی جانتے ہوئے بہت پیچھے دھکیل دیا، لیکن درحقیقت یہی روایات ہماری پہچان ہیں اور ہمارے معاشرے کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ گھر میں ایک ساتھ کھانا کھانا، ایک دوسرے کے مسائل پر توجہ، مختلف موضوعات پر سب سے بات کرنا۔ اب یہ سب نہیں ہوتا۔ اگر تمام گھر والے ایک جگہ جمع ہو بھی جائیں تو ٹی وی آن کر دیا جاتا ہے اور سب ٹی وی کی رنگینیوں اور سنگینیوں میں کھوجاتے ہیں۔

چلیے ہم نے کتابوں سے ناتا توڑا، اپنی بہت سی اقدار کو مصروفیات کی نذر کردیا اور یہ سب کرتے ہوئے اپنی آئندہ نسل کی شخصیت سازی کے فرض سے غافل ہوگئے، لیکن ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو منفی رجحانات دے رہے ہیں، جن میں سب سے خوف ناک تشدد کا رجحان ہے۔ ظاہر ہے ذرا بھی سلجھے ہوئے اور ہوش مند والدین اپنے بچے کو قتل و غارت گری کی تعلیم نہیں دیں گے، لیکن یہ کھلونا ہتھیار کیا ہیں؟ یہ کھلونے بچوں کے ہاتھ میں دے کر دراصل ان کے معصوم ذہنوں میں تشدد کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ حال ہی میں سندھ اسمبلی نے ان ہتھیاروں پر پابندی عاید کرنے کی قرارداد منظور کرکے بہت اچھا اقدام کیا ہے، دیر آید درست آید۔ حیرت ہے کہ جس صوبے میں تشدد سے ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں اور کتنے ہی گھرانے اُجڑ چکے ہیں، اس کے منتخب ایوان میں بیٹھنے عوامی نمائندوں کو برسوں بعد یہ قرارداد لانے اور منظور کرنے کا خیال آیا، چلیے آ تو گیا۔ اب یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس قرارداد پر عمل کرے اور ان کھلونوں کے بنانے اور فروخت پر مکمل پابندی عاید کرے۔

مگر بات صرف حکومت کے فیصلے اور عمل کی نہیں، ہم والدین کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تشدد اپنی انتہا پر پہنچ کر خوف ناک صورت اختیار کرچکا ہے، جہاں مذہب اور مسلک کا فرق اور سیاسی اختلاف کا نتیجہ خون بہانے کی صورت میں نکلتا ہے، جس سماج میں بندوق لہرانا لوگوں کی شان ہے اور جہاں کلاشنکوف کلچر کتنی ہی جانوں کو نگل چکا ہے وہاں بچوں کو کھلونے ہتھیار دینا اس صورت حال کو برقرار رکھنے کے عمل کے سوا کیا ہے۔۔۔! اگر والدین بچوں کو ایسے کھلونے نہ دلائیں تو انھیں بنانے والے کارخانے خود بند ہوجائیں گے۔ بچوں کے ہاتھ میں وہ کھلونے ہونے چاہیں جو ان کی شخصیت اور کردار پر مثبت اثر ڈالیں۔ ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں فکر کو وسعت دیتی کتابیں نہیں دے سکتے تو کم ازکم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں کا ہتھیاروں کا عادی نہ بنائیں۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311989 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.