یوم آزادی:ٹیم وراٹ کوہلی اور ٹیم سمراٹ مودی کا مایوس کن مظاہرہ

وزیراعظم نریندر مودی کو ان کے نت نئے اصطلاحات کیلئے یاد کیا جائیگا۔ گزشتہ مرتبہ انہوں نے لال قلعہ سے’’میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ اچھالا تھا تاکہ بین الاقومی سرمایہ کار ہندوستان آکر اپنی مصنوعات یہاں بنائیں ۔ اس نعرے کو سن کر ملک کے بھولے بھالے عوام تو بے وقوف بن گئے لیکن شاطر سرمایہ کار اس کے جھانسے میں نہیں آئے۔ اس مرتبہ انہوں نے عوام کو کنفیوژ کرنے کی خاطر ٹیم انڈیا کی نئی اصطلاح وضع فرمادی اور کہا کہ ہندوستان کے ۱۲۵ کروڈ لوگ ٹیم انڈیا ہیں ۔ ہم جیسے لوگ اس نعرے کو سن کر سوچنے لگے کہ اگر ہم ٹیم انڈیا ہیں تو وہ جو سری لنکا میں ٹسٹ میچ کھیل رہے ہیں وہ کون ہیں ؟ سہولت کیلئے اسے ٹیم وراٹ کوہلی کہہ لیجئے ۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر عوام ٹیم وشال انڈیا ہے تو حکومت کیا ہے؟ چونکہ حکومت کے سربراہ مودی جی ہیں اس لئے اسے ٹیم سمراٹ مودی کہہ لیجئے ۔

مودی جی نے جب ٹیم انڈیا کا نعرہ لگایا تو اس سے سب سے زیادہ خوشی یقینا ً وارٹ کوہلی اور اس کے ساتھی کھلاڑیوں کو ہوئی ہوگی جو صبح صبح اٹھ کر پریکٹس کرنے کے بجائے مودی جی تقریر سن رہے تھے اور تقریر بھی ایسی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی ۔ اتنی دیر میں تو ٹونٹی ٹونٹی میچ کی ایک اننگ ختم ہوجاتی۔ مودی جی نے اپنی تقریر میں ایک اور نعرہ اچھالا ’’اسٹینٖڈ اپ اینڈ اسٹارٹ اپ‘‘جس کے معنی ٰ ہوں ’’کھڑے ہوجائیے اور شروع ہوجائیے‘‘۔ وراٹ کوہلی نے سوچا مودی جی کی نصف نصیحت پر تو ہم نے ان کے ارشاد فرمانے سے قبل ہی عمل کرلیا اور پہلی اننگز میں ایسے جم کر کھڑے ہوئے کہ سری لنکا کے ۱۸۳ کے جواب میں ۳۷۵ کا زبردست اسکور کھڑا کردیا اور دوبارہ سری لنکا کو ۳۶۷ پرڈھیر بھی کردیا۔

یوم آزادی کے دن وراٹ کوہلی کی ٹیم کو صرف ۱۵۳ رن بنانے تھے اور ۹ وکٹ اس کے ہاتھ میں تھے۔ جس ٹیم نے پہلی اننگز میں ۳۷۵ بنائے ہوں اس کیلئے ۱۷۶ رن بنا کر میچ جیت لینا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ لیکن برا ہو مودی جی کی تقریر کا جس میں انہوں نے کھڑے ہونے کے بعد شروع ہو جا نے کی نصیحت کرڈالی تھی اور حوصلہ بڑھانے کیلئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ کئی لاکھ بیت الخلاء بنا کر ہم نے ثابت کردیا کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں ۔ وراٹ کوہلی بیچارہ بھول گیا کہ سرکاری خرچ سے اسکولوں میں بیت الخلاء کی تعمیر اورسری لنکا کے میدان میں کرکٹ کے میچ میں کامیابی دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مودی جی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہندوستانی بلے بازوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بس شروع ہوگئے کہ جیسے مودی جی شروع ہوجاتے ہیں اور بلہ اٹھا اٹھا کر مارنے لگے ۔

وراٹ کوہلی تو وزیر اعظم کی تقریر سن کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ اب رنوں کی ایسی برسات ہوگی کہ دیکھتے دیکھتے جن دھن یو جنا کی طرح کروڈوں بنک کھاتے کھل جائیں گے ۔ وہی ہوا کھاتے تو کھلے لیکن ان میں کوئی رقم نہیں آئی۔ بلے باز یکے بعد دیگرے بڑے جوش کے ساتھ میدان میں جاتے تھے اور بہت جلد کوئی خاص رن اپنے کھاتے میں جمع کئے بغیر لوٹ آتے تھے ۔ خود وراٹ کوہلی جس نے پہلی اننگز میں ۱۰۳ رنز بنائے تھے سمراٹ مودی کے مشورے پر چلتے ہوئے ۳ رنز بنا کرلوٹ آیا ۔ اس طرح وزیراعظم کی نصیحت پر عمل کرنے کے نتیجے میں جیتی ہوئی بازی الٹ گئی۔ پوری ٹیم ۱۱۲ کے معمولی سے اسکور پر سمٹ گئی اورٹیم وراٹ کوہلی شکست ِ فاش سے دوچار ہوگئی۔ یوم آزادی کے موقع پر ٹیم سمراٹ مودی کی مانند ٹیم وراٹ کوہلی نے بھی ٹیم انڈیا یعنی ملک کے ۱۲۵ کروڈ لوگوں کو مایوس کرکےجشنِ آزادی مزہ کرِکرِاکر دیا ۔

سیاست میں چونکہ لوگ اول تو اپنی کمزوری کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراکر اپنا پلہّ جھاڑ لیتے ہیں مگر کرکٹ میں ایسا نہیں ہوتا وہاں ناکامی کا جائزہ لیا جاتا ہے ، وجوہات تلاش کی جاتی ہیں اور ذمہ داروں کی نشاندہی بھی کی جاتی اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے کرکٹ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود سیاست سے زیادہ سنجیدہ کھیل ہے۔ ٹیم وراٹ کوہلی کی ناکامی کی وجہ یہ سامنے آئی کہ ٹونٹی ٹونٹی کے میچ کھیل کھیل کر ہمارے کھلاڑی ٹسٹ میچ کھیلنے کا فن بھول گئے ہیں ۔ ٹونٹی ٹونٹی میچ میں فنی مہارت یاحکمت عملی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی بلکہ جیسے من میں آئے بلہ گھماؤ تقدیر سے ٹیم ہار یا جیت جاتی ہے لیکن ٹسٹ میچ چونکہ ۵ دن کا کھیل ہوتا اس میں سنبھل کر کھیلنا پڑتا ہے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے درمیان میں بازی الٹ دیتے ہیں جیسا کہ سری لنکا نے پہلی اننگز کی لیڈ اور دوسری اننگز میں ۵ وکٹ گنوانے کے باوجود اپنے آپ کو سنبھالااور ہندوستان کے سامنے ۱۷۵ کا ایک ہدف رکھنے کے بعد اپنی غیر معمولی بالنگ سے میچ جیت لیا۔

کرکٹ کا اگر سیاست کے کھیل سے موازنہ کیا جائے تو یوں سمجھ لیجئے کہ تقریباً۵ یا ۶ ماہ چلنے والی انتخابی مہم ٹونٹی ٹونٹی کامیچ ہے ۔اس میں سیاسی جماعتیں خوب اٹھا پٹخ کرتی ہیں۔ نعرے بازی سے لے کر ہلڑ بازی تک سب جائز ہوجاتا ہے۔ اوٹ پٹانگ وعدے کئے جاتے ہیں جو من میں آئے کہہ دیا جاتا ہے مثلاً اچھے دن آنے ہی والے ہیں اور ۵۶ انچ کی چھاتی ، کالےدھن کی واپسی، بیف کی برآمد پر پابندی وغیرہ وغیرہ۔ اس دھوبی پچھاڑ میں سٹہ ّ بھی خوب لگتا ہے نیز کسی نہ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی لاٹری بھی لگ جاتی ہے ۔ لیکن حکومت چلانا ٹسٹ میچ جیسا ہے جہاں سوجھ بوجھ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ صرف کھوکھلے نعروں سے کام نہیں چلتا بلکہ لوگ نتائج دیکھنا چاہتے ہیں اور تب جاکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔

وراٹ کوہلی اور سمراٹ مودی دونوں ہی ٹونٹی ٹونٹی کے مہارتھی ہیں لیکن ٹسٹ میچ میں ابھی تک اپنی پہلی کامیابی درج کرانے کیلئے ترس رہے ہیں اس کے باوجود ان دونوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ وراٹ کوہلی نے شکست کے بعد بڑی کشادہ دلی کے ساتھ اس کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ اس نے صاف الفاظ میں اعتراف کر لیا کہ اس شکست کیلئے ہم اپنے آپ کے سوا کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے ۔ اس کا کہنا تھا کہ پہلے ۵ وکٹ لینے کے بعد ہم اس کا فائدہ اٹھانے سے چوک گئے۔ مودی جی کا بھی یہی مسئلہ ہے انتخاب میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ ایوان ِ پارلیمان میں اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بی جے پی اور کانگریس کے ارکان کی تعداد میں ویسا ہی فرق ہے جیسا کہ بھارت اور سری لنکا کے پہلی اننگز کے رنوں کا فرق تھا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ۔ اس کے باوجود پورے مانسون سیشن پر پانی پھر گیا اور ٹیم کاخوفزدہ کپتان سیلاب زدہ ایوان میں قدم رکھنے کی جرأت نہ کرسکا۔

اس کے برعکس انتخابی نتائج کے بعد کانگریس کی حالت سری لنکا کی دوسری اننگز سےمماثل تھی۔ ایک تو پہلی اننگز میں۱۹۲ رنز کی لیڈ اور اوپر سے ۹۵ کے حقیر اسکور پر ۵ اہم بلے بازوں کا آوٹ ہو کر لوٹ آنا ۔ اس کے باوجود دنیش چاندی مل کا حوصلہ پست نہیں ہوا بلکہ اس نے ناٹ آوٹ ۱۶۲ کاذاتی اسکور کرکےسری لنکا کو۳۶۲ رنز پر پہنچا دیا۔ گزشتہ پارلیمانی سیشن میں راہل گاندھی نے بالکل دنیش چاندی مل کی طرح مودی جی کے مہنگے کوٹ کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کی حکومت کو سوٹ بوٹ والی سرکار قرار دے دیا۔ راہل نے مودی جی کو مشورہ دیا کہ اگرانہیں بیرونِ ملک دوروں سے فرصت ملے تو خودکشی کرنے والے کسانوں کی خبر گیری بھی کرلیا کریں ۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ ہوا کے رخ کی تبدیلی کو سمجھتی اور خاطر خواہ تیاری کرتی لیکن ٹیم سمراٹ مودی بھی ٹیم وراٹ کوہلی کی طرح خوش فہمیوں کا شکار تھی ۔
اس مانسون سیشن میں ایوان کے اندر کانگریس کے رہنما ملک ارجن کھرگے نے للت مودی کے مسئلے پر رنگنا ہیراتھ کی مانندہلہ ّ بول دیاجس نے ۷ وکٹ لے کر ٹیم وراٹ کو دھول چٹا دی ۔ وراٹ کوہلی نے جس طرح بگڑتی ہوئی صورتحال پرقابو پانے کیلئے پانچویں نمبر پر ہر بھجن کو بھیج دیا اسی طرح سمترا مہاجن نے کانگریس کے ۲۵ ارکان پارلیمان کو ۵ دنوں کیلئے معطل کردیا لیکن وہ پانسہ بھی الٹا پڑا ۔ دیگر جماعتیں جو کانگریس کے ساتھ آنے میں ہچکچا رہی تھیں وہ اس کے ساتھ مظاہرے میں شامل ہونےپرمجبور ہو گئیں۔ہر بھجن کو اس موقع پر میدان میں اتارنا کپتان کی سب سے بڑی نادانی تھی وہ بیچارہ صرف ایک رن بناکر آوٹ ہوگیا اور اسی کے ساتھ پوری ٹیم کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔یہی کچھ بی جے پی کے ساتھ ہوا۔
سمراٹ مودی کو چاہئے کہ وہ وراٹ کوہلی کے اعتراف ِ شکست کوگرہ سے باندھ کر رکھ لیں ۔ وراٹ نے تسلیم کیا کہ ہم اپنی حکمت عملی پر عملدارآمد نہیں کرپائے ۔ ایسے دباؤ والے حالات میں سوچ واضح ہونی چاہئے۔ یہی آپ کو اوسط درجہ کی ٹیموں اور کھلاڑیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے آج کی شکست سے یہی سبق سیکھا کہ ۱۷۰ جیسے معمولی ہدف سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن مگر کنفیوژنہوتو فرق پڑتا ہے۔ ہمیں میچ میں کامیاب کرنے والی ساجھے داریاں بنانی ہوں گی اور نفسیاتی قوت بہت ضروری ہے جس کی کمی محسوس ہوئی ۔ کوہلی نے تفصیل میں جاتے ہوئے کہا جب مخالف ٹیم فارم میں نظر آئے تو اسے ایک اوور میں۳ یا ۴ باؤنڈری لگانے سے روکنا چاہئے ایسے میں ہر اوور میں ۲۰ رن دینا حماقت تھی ۔ اس وقت ہمیں سمجھداری سے کام لینا چاہئے تھا۔کوہلی نے جس ناسمجھی کا مظاہرہ کھیل کے میدان میں کیا وہی غلطیمودی سرکار نے ایوان پارلیمان میں کی ۔ حزب اختلاف نے خوب چوکے چھکے لگائےاور حکومت کو منھ کی کھانی پڑی۔ کوہلی نے تو درسِ عبرت سیکھ لیا ہے اور اگر وہ اصلاح کرلے تو آئندہ اپنی شکست کو کامیابی میں بدل سکتاہے لیکن مودی جی کے یہاں ابھی تک اس کے آثار نہیں نظر آتے ۔

للت مودی کے بغیر کرکٹ کا بیان ویسا ہی ہے جیسےسیاست کے ذکر میں نریندرمودی کی غیرموجودگی ۔ للت مودی نے یوم آزادی کے دن انڈیا ٹوڈے کےراجدیپ سر دیسائی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی الزام نہیں ہے ۔ اس کو کوئی سمن نہیں ملا ۔ اس نے انٹر پول سے بھی معلوم کیا اس کے خلاف کوئی ریڈ کارنر وارنٹ نہیں ہے۔ وہ تو محض انڈر ورلڈ کے خوف سے واپس نہیں آرہا ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد اس نے کہا کہ ہندوستان میں ایک زبردست کرکٹ مافیا سرگرمِ عمل ہے ۔ سری نواسن اور راجیو شکلا کے علاوہ ارون جیٹلی بھی اس مافیا میں شامل ہیں ۔یہ دعویٰ اگر درست ہے اور ارون جیٹلی مافیا کا حصہ ہے تو ان کو وزیر خزانہ کا اہم ترین قلمدان سونپنے والا اپنے آپ اس مافیا کا سربراہ ہو جاتا ہے ۔

کرکٹ سے قطع نظراس بار ۱۵ اگست ؁۲۰۱۵ کو وزیراعظم نریندر مودی’’ ایک عہدہ ایک پنشن‘‘ کی تجویز کو منظورکرکے یومِ آزادی کی تقریب کو یادگار بنا سکتے تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے یہ سنہری موقع گنوا دیا۔ جنتر منتر پرگزشتہ دوماہ سے مظاہرہ کرنے والے سابق فوجیوں نے اس بار وزیر اعظم سے بڑی توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔ ان لوگوں نے اپنے احتجاج کے مقام پر دیوہیکل ٹی وی نصب کروارکھا تھا تاکہ وزیراعظم کے اعلان کو براہِ راست سن کر بلاتاخیر جشن منائیں۔ اگر منظوری نہ سہیتاریخ کا اعلان بھی ہوجاتاتو جنتر منتر کادھرناجشن مودی میں بدل جاتا لیکن جب مظاہرین کو اندازہ ہوگیا کہ وزیراعظم ان کے ساتھ پھرسےدغابازی کررہےہیں تو انہوں نے مودی جی کی زبان سے جئے ہند کا انتظار کئے بغیر ہی ٹی وی کو بند کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہاس باروزیراعظم نے اپنی طویل اوربے مزہ تقریر سے نہ صرف سابق فوجیوں کو بلکہ پوری قوم کوبیزار کیا۔

اس مرتبہ جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے والےسابق فوجیوں کو حیرت کا پہلاجھٹکا اس وقت لگا جب دہلی پولس نے ۱۴ اگست کو ان کا خیمہ بزور قوت ہٹانے کی کوشش کی ۔ اس دوران ایک ۸۴ سالہ سابق فوجی کی قمیض بھی پھٹ گئی۔ اس کے بعد کرن رجیجو نے مداخلت کرکےپو لس کو منع کیا۔ اس توہین آمیز سلوک کے باوجود وہ بیچارے پر امید تھے مگر وزیراعظم نےپھرسےوہی ۱۷ ماہ پرانا راگ الاپا کہ اصولی طور پر وہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔ بات چیت چل رہی ہے ۔ بہت جلد کوئی فیصلہ ہو جائیگا۔کسی بات کو اصولی طور پر تسلیم کرنےکے بعد اس پر عملدرآمد نہ کرنابلکہ مدت کا تعین تک نہ کرنا اس امر کا اشارہ ہے کہ یاتودعویٰ کرنے والا اپنی کمزوری کےسبب اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی مرضی کا مختار نہیں ہےیاپاکھنڈی ہے ۔ مودی جی کے بارے میں دونوں ہی باتیں جزوی طور پر درست ہوسکتی ہیں ۔ وزارتِ خزانہ ان کی سن کر نہیں دیتااور وہ عوام کو بہلاتے ٹہلاتے رہےم ہیں ۔ مظاہرین نے یہاں تک کہا ہمیں یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کی نیت میں فتور ہے۔

مودی جی کی کمزوری ایوانِ پارلیمان کے مانسون اجلاس میں کھل کر سامنے آگئی ۔ بیس دنوں کے ہنگاموں میں وہ ایک منٹ کیلئے بھی وہاں نہیں پھٹکےاور راہل گاندھی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ جس نے ہمیں شکست دی ہے اس میں دم ہے لیکن اب پتہ چل گیا ہے کہ دم نہیں ہے ۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ۴۴ ارکانِ پارلیمان کے ساتھ ہم کریں گے لیکن ہم نےانہیں ڈرادیا ہے ، وزیراعظم ڈرپوک ہے۔ خود بی جے پی نے بھی اقتدار میں ہونے کے باوجود احتجاج کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ کمزور ہے ورنہ جس کے پاس اقتدار کی باگ ڈور ہووہ بھلا احتجاجی جلوس کیوں اور کس کے خلاف نکالے؟ احتجاج عام طور پراپنے سلب شدہ حقوق کی باالی کیلئے کیا جاتا ہے ۔ جو حکومت خود اپنے حقوق کے تحفظ سے قاصر ہے وہ بھلا دوسروں کو کیا تحفظ فراہم کرے گی اورسابق فوجیوںیا عام لوگوں کی دادرسی کیسے کرے گی؟
وزیراعظم نے ہندوستان کی عوام کو جس جدید لقب ’’ٹیم انڈیا ‘‘ سے نوازہ ہے وہ فی الحال ٹیم وراٹ کوہلی سے زیادہ سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ اس کااندازہ یوم آزادی سے دو دن قبل میرٹھ کے اندر پیش آنے والے ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ۳۵ سالہ فوجی جوان وید مترا چودھری جب دودھ لینے کیلئے کر روہتا روڈکی ایک دوکان میں گیا تو دیکھاکچھ شرپسنددوکان کے مالک کی بیٹی کو چھیڑرہے ہیں۔ چودھری نے مداخلت کی تو آکاش نامی لڑکے نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور وہ سب لاٹھی ڈنڈوں کے ساتھ وید مترا پر ٹوٹ پڑے ۔ دون بعدیعنی یوم آزادی کے دن فوجی ہسپتال میں لانس نایک وید مترا چودھری نےدم توڑ دیا ۔اس معاملےمیں ۸ لوگوں کے خلاف نامزد شکایت درج ہوئی اس کے باوجودپولس آکاش، سنجو اور رتیش کو گرفتار کرنے پر اکتفاء کئے ہوئے ہے۔

اس واقعہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں مجرمین کے بجائے شاہدین خوفزدہ ہیں ۔ دوکان کے مالک کا کہنا ہے اسے جوابی حملے کا خوفہے۔ابھی تک پولس تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ پولس اپنا پلہّ جھاڑتے ہوئے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ فی الحال یوم آزادی کے بندو بست میں مصروف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ جس کی حفاظت کی جارہی ہے؟ وہ آزادی جس میں اپنے والد کو چائے دینے کیلئے آنے والی بیٹی کے ساتھ کھلے عام چھیڑ خوانی کی جاتی ہے؟ اس کو روکنے والے فوجی کو ہلاک کردیا جاتا ہے؟مرنے والے فوجی کے بیوی بچوں کی دادرسی نہیں کی جاتی ؟ کیا ان سنگین مسائل کو ٹیم مودی صرف’’اسٹینڈ اپ اور اسٹارٹ اپ‘‘کےکھوکھلے نعروں اور نمائشی دوروں سے حل کرے گی یا ٹھوس اقدامات بھی کرے گی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کہیںاسغیر سنجیدہ، بدعنوان اور کمزورٹیم مودی سے ایی توقع رکھنا خام خیالی تونہیں ہے؟

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450104 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.