گورنر خیبر پختونخواہ کو خط

محترم گورنر خیبر پختونخواہ سردار مہتاب احمد خان صاحب!
امید ہے مزاج بخیریت ہونگے اور گورنر ہائوس پشاور کے ائیر کنڈیشنڈ ماحول اور بڑے لان میں بیٹھتے ہوئے آپ کو گرمی بھی نہیں لگتی ہوگی - نہ ہی آپ کو صوبے اور خصوصا فاٹا میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے قبائلی عوام کی مشکلات کا اندازہ ہوگا- تقریروں میں قبائلی عوام کیلئے دلکش اعلانات اپنی جگہ لیکن جس صورتحال سے آج قبائلی عوام دوچار ہیں- آپ کو اس کا اندازہ بھی نہیں اور اگر اندازہ بھی ہے تو آپ سب کو اپنی طرح گورنر ہائوس میں زندگی گزارتا ہوا محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہر کوئی اپنے ماحول میں سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے-

محترم! وقت کی قدر کے بارے میں آپ کی اچھی باتیں گذشتہ روز ایک تقریب میں سنیں جس میں آپ نے بنگلہ دیش کا حوالہ دیا جو کہ 1971 ء میں پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا-اور آج آپ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی قوم حکمرانوں کی غلطی کی سز ا بھگت رہے ہے - آپ کا اشارہ سابقہ حکومتوں کی طرف تھا-محترم کبھی آپ بھی انہی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں-حیات آباد میں ایک تقریب میں ڈیڑھ گھنٹہ آپ لیٹ آئے-اس ڈیڑھ گھنٹے میں کیا سے کیا نہیں ہوتا-لیکن آپ کو اس سے کیا - اگر یہ سیکورٹی کی مجبوری تھی تو آپ پہلے بھی آسکتے تھے- لیکن دوسروں کو انتظار کرواکے اپنی پوزیشن بنانا اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں اب جم ہوریت پھل پھول رہی ہے میں ایک عام سی بات ہے-آپ نے نئے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو کچھ عرصہ بعد نیا پاکستان بنانے کا شوق پیدا ہوتا ہے-آپ کی بات بالکل صحیح ہے لیکن آپ کے پرانے پاکستان میں کیا کچھ تبدیل ہوا- آپ جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہاں سب کچھ مورو ثیت پر چل رہا ہے بھائی کے بعد بھائی اور پھر بیٹا اور بیٹی اور شائد پوتے نواسوں تک یہ سلسلہ چل نکلے- ساری پارٹی مخصوص لوگوں کے گرد گھوم رہی ہے-میری بات آپ کو یقینا بری لگے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے- روٹی کپڑا ور مکان کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے والوں سے لیکر آپ کی پارٹی کے لیڈروںپر ٹیکس چوری کے کتنے الزامات ہیں کتنے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں-معذرت کیساتھ کیا یہ ملک صرف پنجاب اور سندھ کیلئے بنا ہے جس میں یہ لوگ حکمران ہونگے اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے "یس سر اور نو سر "والے ہونگے -اس ملک پر صرف دو صوبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹیوں کا قبضہ ہے جن میں ایک پنجاب سے اور دوسری کا تعلق سندھ سے ہے-چھوٹی پارٹیاں جن میں ایزی لوڈ والے اور مولوی بھی شامل ہیں آپ ان کو ضرورت کے وقت اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یہ لوگ اپنے مفادات کی خاطر ہر وقت آپ کا ساتھ دیتے ہیں انہیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں-

محترم سردار مہتاب صاحب!
سابقہ حکمرانوں پر تنقید کرنے والوں کی تقلید پر آپ بھی چل نکلے ہیں- مخصوص لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ "تیر "والوں نے بھی شروع کر رکھا تھا اور اب" لاہور ی شیر" بھی یہی ڈرامہ کررہا ہے- اور تو میں کچھ نہیں کہونگا کبھی آپ نے سرکاری وکلاء کی فہرست دیکھی ہے جنہیں لاکھوں روپے دیکر ریاست کی وکالت کیلئے منتخب کیا گیا ہے -ان کی قابلیت کیا صرف " جی واہ واہ" ہی ہے-یا پھر ہفتے میں تین مرتبہ پریس ریلیز جاری کرنا ہے جس میں" شیر آوے ہی آوے " کے فقر ے شامل ہوتے ہیں اور اس کی بنیاد پر بہت سارے وکلاء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سرکاری وکیل منتخب کیا گیا ہے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی پر آپ سمیت سب پل رہے ہیں-

قبائلی عوام کیلئے انصاف کی فراہمی کا دعوی کرنے والے سردار مہتاب صاحب!
کبھی آپ نے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے بات کی ہے ان نوجوانوں سے جو حقیقی معنوں میں ان علاقوں سے ہوتے ہیں - آپ کے سامنے انتظامیہ تو بہت سارے فاٹا کے نوجوانوں کو آگے لاتی ہے جنہیں رٹا لگا کر بٹھایا جاتا ہے اور پھر آل اوکے کی رپورٹ مل جاتی ہے لیکن ان قبائلی نوجوانوں سے ملیں جنہیں پاکستانی شناختی کارڈبنوانے کیلئے پولٹیکل انتظامیہ چکرپر چکر لگواتی ہیں-میں آپ کو ایسے نوجوانوں سے ملوا سکتا ہوں جن کے اپنے خاندان میں ملک ہیں مگر وہ ان قبائلی علاقوں کے ملک کے کارناموں پر نفرین کرتے ہیں-تین سو روپے میں شناختی کارڈ فارم لینے کیلئے قبائلی نوجوانوں کو اپنے علاقوں میں جانا پڑتا ہے اور یہ فارم بھی صرف ایک ماہ کیلئے ہوتا ہے جس کی تصدیق کیلئے انہیں پشاور کا رخ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے ملک یہاں پر مقیم ہیں اپنے علاقوں میں ملک کے نام پر فنڈز لینے والے یہ مشران کس طرح نوجوان قبائلیوں سے سلوک کرتے ہیں اس کا تصور بھی آپ نہیں کرسکتے - نہ ہی پولٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں بنائے گئے نادرا کے دفاتر میں بیٹھے تحصیلدار اور اے پی اے کے روئیے کا آپ کو اندازہ ہے- بعض قبائلی نوجوانوں کے بقول کبھی کبھار تو دل کرتا ہے کہ خودکشی کرلیں یہ کیسی زندگی ہے -کہ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے پشاور اور متعلقہ ایجنسیوں میں حاضریاں لگوانی پڑتی ہیں- جبکہ حال یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں قائم نادرا کے دفاتر میں تصویر اور ویڈیو بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ ان کے بہت سارے کرتوت باہر نکل آتے ہیں-

قبائلی نوجوانوں کیلئے ایف سی آر میں اصلاحات کے حوالے سے بات کرنے والے گورنر خیبر پختونخوا صاحب!
قبائلی علاقوں میں کبھی آپ نے ہسپتال میں تعینات ڈاکٹروں کی ڈیوٹی چیک کی ہے کہ وہ کس وقت ڈیوٹی پر آتے ہیں اور وہاں آنیوالے ہسپتال کی ادویات کون چوری کرکے مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے- ڈونرز اور غیر ممالک سے خیرات اور زکواة ' قرضے لیکر قبائلی عوام پر تعلیم کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرکے سکول تو تعمیر کئے جاتے مگر ان میں ملک صاحبان اپنے جانور رکھتے ہیں چوکیدار کو تنخواہ تو ملتی ہیںہے مگر قبائلی عوام کے بچوں کو تعلیم نہیں ملتی ٹیوب ویل کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کئے گئے -یہ سلسلہ سندھی وڈیرے کے دور میں بھی جاری تھااور آج پنجاب سے تعلق رکھنے والے"شیر" کے دور میں بھی جاری ہے-ہاں تبدیلی آئی ہے اور وہ بھی اتنی کہ پہلے اس کی مدح سرائی کرنے والے اچھی پوسٹوں پر تھے اور ابھی آپ کی پارٹی کی مدح سرائی کرنے والوں کے مزے ہیں-باقی غریب قبائلیوں کی حالت تبدیل نہیں ہوئی-

وفاق کی نمائندگی کا دعوی کرنے والے گورنر صاحب!
فاٹا ٹریبونل جسے آپ قبائلیوں کیلئے انصاف کی فراہمی کا سب سے بڑا ادارہ سمجھتے ہیں کی اوقات کیا ہے - کیا ریٹائرڈ سول بیورو کریٹ اپنے افراد کے خلاف کچھ کرسکیں گے- ساری عمر عوام کا خون چوسنے والوں سے انصاف کی توقع بے وقوفی ہے-اور یہ کونسا انصاف ہے کہ ریٹائرڈ افراد کو لیا جائے کیا اس ملک کے نوجوانوں کی کمی ہے -یا پھر وکلاء کی کمی ہے- لیکن بقول کچھ وکلاء کے یہ قبائلی علاقوں کے عوام کیلئے " لالی پاپ "ہے ایسا لالی پاپ جسے وہ دیکھ کر خوش ہوسکتے ہیں لیکن منہ نہیں لگا سکتے- ایک سو چالیس دنوں میں انصاف کی فراہمی کا دعوی کرنے والے فاٹا ٹریبونل میں 2012 سے لوگ خوار ہورہے ہیں لیکن انہیں انصاف نہیں مل رہا-اور ایسے لوگوں کو جنکے بچوں کو پولٹیکل انتظامیہ نے گولیاں ماردی ہیںاور آج بھی ان کے بوڑھے والدین انصاف کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں- کیا یہی انصاف ہے-

محترم! لکھنے کیلئے بہت کچھ ہیں لیکن آپ بہت زیادہ مصروف انسان ہیں اگر ان گزارشات میں کچھ کی بہتری کیلئے آپ عملی اقدامات اٹھائیں اور چیک کریں کہ کیا ہورہا ہے تو یقینا بہت سارے لوگوں کا بھلا ہوگا اور یہی بھلائی اس دن آپ کی کام آئیگی جب بڑے سے بڑا طاقتور انسان بھی اللہ کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کی بابت جواب دے گا-

شکریہ

مخلص

ایک شہری

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 618 Articles with 472771 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More