قصور بلھے شاہ کا ہے۔۔۔

بچے، زیادتی، ادویات، انجیکشن، اوباش، ویڈیو، بلیک میلر، بکاو پولیس، سرد مہری، بے حسی، بے غیرتی، لاقانونیت، پردہ پوشی، پشت پناہی، رسہ گیری اور بہت سے الفاظ جب ذہن میں آئیں تو قصور سکینڈل یاد آتا ہے۔۔ بچوں سے بدفعلی کا۔۔ملکی تاریخ کا سب سے بڑاسکینڈل۔۔ گناہ کی خود رو منڈی۔۔پولیس نے قصور کے گاوں حسین خان والا میں چند روز قبل بچوں سے بد فعلی والے مجرم چھوڑے تو جُتیاں کھائیں۔۔ جتیاں اور ٹھڈے عام طور پر ان اوباشوں کا مقدر ہوتے ہیں جو دیہاتوں میں زیادتی کرنے کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ جوتے اوباش کا منہ کالا کرکے ۔۔ہار بنا کر گلے میں لٹکائے جاتے ہیں۔۔

پنجاب پولیس سے تو ایسا کوئی جرم سرزد نہیں ہوا تو پھر آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا جب حسین خان والا گاوں پہنچے تو ان پر جوتا کیوں پھینکا گیا۔۔میں نے تو جُتی قصوری کا گانا۔۔۔ شکوئے محبت کے معنی میں سنا تھا۔۔۔ لیکن پاوں کی خاک ۔۔ دھول بن کر سر پر کیوں آن پڑی۔۔۔ہائے ہائے، کتا۔ کتا، مردہ باد کے نعرے کیوں لگے۔۔؟اہلیان قصور تو اس لئے سڑکوں پر نکلے تھے کہ ان کے 250 سے زائد بچوں کے ساتھ قوم لوط جیسا سلوک ہوا تھا۔۔

ایس ایچ او تھانہ گنڈا سنگھ نے پکڑے ہوئے لُوطی چھوڑے تو مظاہرین نے ان کے سر پھوڑے۔۔۔ قصور لاہور روڈ میدان حساب بنائی۔۔وہاں حشر بپا کردیا۔۔ایوان والے بُکل مار کر سو رہے تھے۔۔ لیکن زنجیر عدل پر بھونچال تھا۔میڈیا نے ہوا دی تو وہی زنجیر روکے نہ رُکے جو ہلائے نہ ہلتی تھی۔۔فریادی کی داد رسی کے لئے اب دربار قصور میں لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔کیونکہ اب پگڑیاں اچھلنے والی تھیں۔۔عمامے سرکنے و الے تھے ۔۔ دستاریں بیڑیاں بننے والی تھیں۔۔۔منڈاسے۔مُنڈھے گئے تھے۔۔اور کئی بغل بچے راہ قصور پر نکل پڑے۔۔ہاروں میں اب صرف جوتے باقی بچے تھے۔۔ دل غصے سے بھرے تھے۔۔زبان بے لگام ہو چکی تھی۔۔اب سنانے والے کھری کھری پر اترے تھے۔۔۔سننے والوں کے لئے صرف کوسنے تھے۔۔قانون کی آنکھوں پر کالی پٹی تھی۔۔پولیس کی وردی بھی کالی تھی۔۔لوگوں کے کرتوت بھی کالے تھے۔۔اور عوامی نمائندوں کے دل بھی۔۔احمد رضا، خورشید محمود اور فوزیہ کی طرح میں قصوری تو نہیں لیکن قصور سے مجھے ہمیشہ اُنسیت رہی ہے۔۔اس پیار کا محور بابا بلھے شاہ ہیں۔۔ میں نے قصور کو تصور میں بابا جی کی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش کی ہے۔۔یہ تصور مجھے کئی بار تصوف کی سوچ سے جوڑ دیتا ہے۔۔راہ سلوک کی سات منازل(وادیاں) طے کرنے کا تصور۔۔فنا کے بعد بقا کی منزل حاصل کرنے لینے والی ہستیوں کا تصور۔۔۔وہی لوگ جنہوں نے طلب و جستجو کی پہلی، عشق کی دوسری، معرفت کی تیسری، استغنا کی چوتھی، توحید کی پانچویں، خودی کی چھٹی اور فنا کی ساتویں منزل کا کٹھن سفر طے کیا۔۔میں راہ سلوک پر شریک سفر کبھی نہیں رہا۔۔اگرچے بزرگان دین کے عکس پا۔۔نشان منزل بن کر ہمیشہ مجھے انہی راہوں پر پکارتے رہے۔۔۔جن راہوں پر بابا بلھے شاہ نے اپنے مرشد شاہ عنایت کو پکارا۔۔۔
جنے سانوں پوائے چولے ساوے تے سوھے
جامے ماری اڈی سانوں مل گیا پیا !!!
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا۔۔۔
ہجر اور فراق کا یہ کلام بلھے شاہ کی پہچان بنا۔وحدت الوجود کا کلام۔ فنا کے بعد بقا کا فلسفہ۔۔فلسفہ واحدت الوجود۔۔۔بلھا کی جاناں میں کون۔۔ والا فلسفہ
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی۔۔ اپنی ذات کی نفی کرنے والا فلسفہ۔۔۔تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا۔۔۔۔ جستجو کرنے والا فلسفہ
بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں۔۔۔۔۔۔ عشق حقیقی کا فلسفہ۔۔۔میری بُکل دے وچ چور۔۔ نی میری بُکل دے وچ چور۔۔۔ استغنا کا فلسفہ
علموں بس کریں او یار۔۔۔ اکو الف تیرے درکار۔۔۔۔ خودی کا فلسفہ۔۔۔ایک پکے وحدت الوجودی کا فلسفہ
یہ سارا کلام بابا سے منسوب ہے۔۔۔قصور کے بابا سے۔۔ جس کے دربار پر قوال صبح شام چوکیاں بھرتے ہیں۔۔بڑے دہن والے،پھولی رگوں والے قوال۔۔۔ کچے، پکے راگوں میں۔۔
سانوں گھائل کر کے پھیر خبر نہ لئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
سوز و گداز وہاں مسلسل جاری رہتا ہے

قوالوں کی اونچی لے،چوکی بھرنا، ہارمونیم اور طبلے کا طال میل۔۔سعامین کا حال کھیلنا، بیٹھے بیٹھے مست ہو جانا۔۔ماحول برپا کئے رکھتا ہے۔۔قصور کی فضاووں میں۔۔بلھے شاہ کے کلام کی وجہ سے ہمیشہ چاشنی گونجتی ہے۔۔۔کیونکہ قصور تو ہے ہی بلھے شاہ کا۔۔لیکن اس میں بلھے شاہ کا کیا قصور۔۔۔؟

یہ وہی قصور ہے جہاں گذرے کئی سال سے قوم لوط کے کچھ پیروکار آکر ٹھہر گئے ہیں۔۔حیرت تو یہ ہے کہ جب اللہ نے بستی پلٹی تھی تو سب مر گئے تھے آج ان کے Jeans یہاں کیسے پہنچے۔۔یہ بچ کیسے گئے؟ یہ فرشتوں پر بری نگاہ رکھنے والے درندے۔۔۔زندہ گوشت کھانے والے۔۔۔حرام خور۔۔۔۔غیرفطری گناہ کی تکمیل کرنے والے گدھ۔۔۔جن کی اپنی پشت پر کئی بڑے ہیں۔۔۔اقتدار کے غلام
گڈ گورننس کے نعرہ لگانے والے لا پرواہ حکمران۔۔۔پانچ دریاووں پر پانچویں بار حکمرانی کرنے والے بادشاہ۔۔۔سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری سے بچ نکلنے والا وزیر قانون۔۔۔
زیادتی کی چار سو سے زائد ویڈیوز کے باوجود معاملے کو زمین کا تنازعہ قرار دینے والا وزیر۔۔۔اور کالی وردی میں ملبوس اندھے اہلکار۔۔ رشوت خورے، بڑی توند والے۔۔۔عزتیں لوٹنے والوں کے سرکاری حصہ دار۔۔۔مجرموں کو ناک کا بال بنا کر رکھنے والے اہلکار۔۔۔مدعیان کی ویڈیو بنا کر ملزمان کو دینے والے بگھیاڑ۔۔۔کالے کرتو توں والوں کے محافظ کالی وردی والے۔۔سکولوں جاتے بچوں کو اغوا کرکے بدفعلی کی چھوٹ دینے والے وردی والے۔۔۔۔بقول غالب
؎ حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
لیکن یہ کیا گورکھ دھندہ ہے۔۔۔
کیا بچے پھول نہیں ہوتے انہیں مسلنے کی اجازت کیوں۔۔؟ کیا امیر اور غریب کا بچہ ایک سا نہیں ہوتا۔۔؟ کیا ممتا ایک سی نہیں ہوتی۔۔؟ کیا بچوں کے جذبات ایک جیسی چیز کے لئے نہیں مچلتے ۔۔۔ کیا قانون سب کے لئے ایک سا نہیں ہوتا۔۔۔ کیا صرف وزرا، ممبران اسمبلی، بیورو کریٹس اور امرا کے بچوں کے لئے کوئی نیا قانون ہے۔۔؟کیا قصور میں ہونے والا ظلم بچے اپنے مقدر میں لکھوا کر لائے تھے۔۔۔ کیا ماتھے پر محراب سجانے کے خواہش مند والدین کلنک کا ٹیکہ لگوا کر آئے تھے۔۔ کیا قانون ہمیشہ اندھا، لولا اور لنگڑا رہے گا۔۔جوڈیشل کمیشن کب تک ملزموں کی زبان بولتا رہے گا۔۔مظلوم کب تک ملٹری کورٹس کی باتیں کریں گے۔۔ فوج سے انصاف کا مطالبہ کب تک ہو گا۔۔اداروں پر عوام کا اعتماد کبھی بحال بھی ہو گا۔۔اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر
پشاور اسکول میں شہید ہونے والے بچوں اور قصور میں ذلیل ہونے والے بچوں میں تفریق کیوں ہے۔۔۔؟
کیا ویڈیوز غیر ملکی فحش ویب سائٹس کو بیچ دی گئی ہیں۔۔۔؟۔جنس کے درندے اگر قصور سے ہیں تو اس میں بلھے شاہ کا کیا قصور۔۔۔؟
میں قصور کو ہم جنس پرستی سمیت کسی اور نسبت سے جاننا نہیں چاہتا۔۔کاش یہ واقعہ حافظے سے نکل جائے۔۔memory lost ہو جائے۔۔ یہ نظام کب بدلے گا۔۔رکھوالےکب تک لٹیرے بنے رہیں گے۔۔ کب تک وہ رسہ گیروں سے جڑے رہیں گے۔۔ والدین کب تک بدنام ہجرت پر مجبور ہوتے رہیں گے۔۔ باتوں سے ہم بستری کرنے والے کب تک گناہ بے لذت میں پڑے رہیں گے، زبان کب تک ان کے گناہ اگلتی رہے گی۔۔؟۔۔جنسی درندوں کا قصور۔۔ ناں بابا ناں۔۔ مجھے تو بلھے شاہ کا قصور چاہیے۔۔کیونکہ قصور بلھے شاہ کا ہی ہے۔۔
ایس عشقے دی جھنگی وچ مور بولیندا
سانوں قبلہ تے کعبہ، سوہنا یار دسیندا
سانوں گھائل کر کے، پھیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 104567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.