نظام تعلیم،تعلیمی بورڈز کی کارکردگی اور طلبہ کا مستقبل

قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی حکومت نے تعلیمی نظام اور نصاب کوقومی امنگوں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میںمرتب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ تعلیمی اداروں میں نرسری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک جو نصاب پڑھایا جاتا ہے ، اس کا عملی زندگی کی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ۔انگلش اور اُردو میڈیم کے چکر میں بچوں کو انگریزی آتی ہے اور نہ ہی اُردو اچھی طرح پڑھ پاتے ہیں ۔دینی تعلیم بھی ایک مناسب حد تک ہی دی جاتی ہے ۔آج انہی خرابیوں کی بدولت ہماری کئی نسلیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں ۔ بچے اعلیٰ تعلیم تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن انہیں دین اسلام اور اخلاقی اقدار سے آگاہی نہیں ہوتی ۔بڑی بڑی ڈگریوں کے حامل نوجوان تعلیم سے بے بہرہ اور شعور سے ناآشنا نظر آتے ہیں ۔ ادب و آداب اور سلیقہ تعلیم کی بنیادہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں دیگر شعبہ ء ہائے زندگی کی طرح تعلیمی میدان میں بھی باقاعدہ ''ایجوکیشن مافیا '' نے پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں ۔ ملک بھر میں فروغ تعلیم کے نام پر اپنے کالے دھن اور غیرملکی امداد کے سہارے ایسے افراد اور ادارے جن کا تعلیم سے سرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں ، بڑے بڑے ''گروپ آف کالجز'' کے نام پر نونہالوں کا بیڑا غرق کرنے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں ۔اس مافیا کو حکومت میں شامل بعض ذمہ داران کی مکمل آشرباد حاصل ہے اس لئے انہیں کوئی ہاتھ ڈالنے کی جراء ت ہی نہیں کر سکتا ۔ ۔ یہی''ایجوکیشن مافیا'' تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیوںکی سطح پر ملی بھگت کے ذریعے اپنے اپنے اداروں کے شاندار تعلیمی نتائج حاصل کرکے قوم کی آنکھوں میںدھول جھونکتے ہیں اور انہی نتائج کو بنیاد بنا کر بھاری فیسوں کے عوض اپنے اپنے اداروں میں داخلے دیتے ہیں ۔ تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیوں کے ذمہ داران کے مابین ہونے والی ''ڈیل'' کی بدولت ایسی ایسی قباحتیں جنم لے رہی ہیں کہ انہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور اس کے اثرات مستقبل قریب میں نمایاں طور پر محسوس کئے جا سکیں گے ۔

فی الوقت تعلیم حاصل کرنے کا مقصد محض ڈگریاں لینا اور پھر روزگار کا حصول ہی رہ گیا ہے ۔ بچے ڈگریاں ہونے کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔ ایم اے کی ڈگری کے حامل اکثر افراد اپنے ہاتھ سے حصول ملازمت کی ایک درخواست بھی لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور کمپیوٹر کورسز کی ڈگریاں رکھنے والے کمپیوٹر بارے مکمل معلومات سے بے نیاز ہیں۔

نصاب میں باربار تبدیلی ، طریقہ ء امتحان اور داخلوں کے سلسلے میں مرتب کردہ تبدیلیاں اپنی جگہ کسی المیے سے کم نہیں۔گذشتہ چند برسوں سے طلبہ کو یہ شکایات پیدا ہو رہی ہیں کہ اچھے پیپرز دینے کے باوجود انہیں کم نمبر دئیے جاتے ہیں یا ایک دو مضامین میں جان بوجھ کر فیل قرار دے کر مزید کمائی کا راستہ نکالا جاتا ہے ۔ایسے ایسے ذہین بچوں کو فیل کئے جانے کی شکایات معمول بن چکی ہیں کہ جواپنا ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔


حال ہی میں پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز نے 9ویں کلاس کے نتائج کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق طلبہ وطالبات کی اکثریت کو ''فیل ''قرار دے دیاگیا ۔بیشتر بچوں کو ایک یا دو مضامین میں فیل کیاگیا ہے ۔ راولپنڈی تعلیمی بورڈ کے 9ویں کلاس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو تقریباً44فیصد طلبہ و طالبات کامیاب جبکہ 56فیصد کو انتہائی معمولی معمولی نمبروں سے ''فیل ''قرار دیا گیا ہے ۔ایسا نظر آتا ہے کہ پنجاب بھر میں نونہالوں کے ساتھ جان بوجھ کر یہ زیادتی کی گئی ہے کیونکہ ایسے ایسے تعلیمی ادارے جن کا دسویں جماعت کا نتیجہ ہمیشہ 80سے 85فیصد تک آنے کا تسلسل کے ساتھ ایک ریکارڈ موجود ہے اُن اداروں کا نتیجہ بھی 4سے8فیصد تک آیا ہے ۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر سید حامد علی شاہ، راجہ شاہد مبارک ، ساجد مسعود عباسی، طاہر محمود راجہ ، سید انوار شاہ، راجہ اورنگ زیب ، ملک ظہیرالدین و دیگر نے پنجاب ایجوکیشن بورڈز کے جماعت نہم کے نتائج کو ''بوگس''قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ پنجاب حکومت کی ہدایات کے مطابق نتائج میں جان بوجھ کر گڑ بڑ کی گئی ہے اور روپیہ جمع کرنے کے لئے طلبہ کو ایک یا دو مضامین میں ''فیل ''قرار دیا گیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سکول کا دسویں کا نتیجہ تو80فیصد سے زائد ہو اور اُسی سکول کا جماعت نہم کا نتیجہ صرف 4فیصد ہو اور پھر انہی نتائج کو ریکارڈ کا حصہ بنا کر اساتذہ کرام کو سزائیں بھی سنائی جائیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کے ساتھ بھی سراسر زیادتی ہے جس کا ازالہ کیا جانا چاہئے ۔

ہمارے پنجاب بھر کے ایجوکیشن بورڈز کے اس کارنامے کی بدولت یوں تو ہمارے بہت سے نونہالوں کو والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کرام کی تند و تیز باتیں سننا پڑیں ہیں لیکن بچوں کا یہی اصرار رہا کہ ہم نے بہت اچھے پیپرز دئیے تھے ۔ ادھر جوہر آباد سرفراز کالونی کے رہائشی صدام حسین نامی طالب علم نے نویں کلاس میں فیل ہونے کی وجہ سے والدین کی سرزنش سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی ہے اور یہ صورتحال شاہدہمارے تعلیمی نظام اورمعاشرتی ناہمواریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم سے عدم دلچسپی کا شاخسانہ بھی ہوسکتا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خان سمیت تمام تعلیمی بورڈز کے چیئرمین نویں جماعت کے ناقص نتائج کا نوٹس لیں کہ آخر کیونکر اتنی بڑی تعداد میںطلبہ و طالبات کو فیل قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس روش کی وجہ سے ذہین طلبہ و طالبات میں بھی مایوسی اور اضطراب بڑھا ہے ،خصوصاً اساتذہ کرام کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔ضروری ہے کہ معمارانِ قوم بھی اپنی اپنی سطح پر اس تعلیمی انحطاط پر غور فرمائیںاور طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں ۔ تعلیمی بورڈز کے ذمہ داران اور ''ایجوکیشن مافیا''کی ملی بھگت سے من پسند نتائج حاصل کرکے تعلیمی اداروں کی ''ریٹنگ''بڑھانا ملک و ملت کا تعلیمی لحاظ سے جنازہ نکالنے کے مترادف ہے جس کا تدارک بہر حال حکومت کو ہی کرناہوگا ۔اس سارے سسٹم نے نونہالوں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔ کاش!ہم ان خرابیوں کو دور کرنے کی راہ نکالنے پر توجہ دے سکیں ۔
syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130369 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.