بزرگوں کی دعائیں اور بزرگوں کی روحیں جب برکت دیتی ہیں
تو ہماری زندگی میں رحمتیں برسنے لگتی ہیں.بزرگوں کی دعائیں اور بزرگوں کی
روحیں جب برکت دیتی ہیں تو ہماری زندگی میں رحمتیں برسنے لگتی ہیں. زمین پر
ہمارے بزرگوں اور آسمان سے ہمارے نسب ہماری زندگی کو روشن کرنے کے لئے دعا
کرتے ہیں. ان دعاؤں-روشن خیالی سے ہی مکمل گھر چمکتا ہے. کلکاریوں سے
گونجتا ہے اور زندگی بھی ہمارے ساتھ مہک اٹھتی ہے. زندگی روشنی سے بھر جاتا
ہے، راستے روشن ہو اٹھتے ہیں اور کائنات مسکرانے لگتی ہے.
یہ فلسفہ اتنا آسان نہیں ہے. روح سے دعا کر دیکھئے، یا اسپرٹ کی دعائیں لے
کر دیکھئے. یہ تبھی محسوس کرے گا. روح کے اندر اندر ایک اعتماد، ایک آنچ
اور جذبہ آہستہ آہستہ اترتا چلا جاتا ہے. وہ اعتماد اعتماد کی شکل لیتا ہے،
اور آپ کو وہ کچھ بھی کر ڈالتے ہیں جس کے بارے میں آپ نے سوچا نہ تھا.
کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ آپ کے ساتھ بڑوں کی دعائیں ہیں.
ان گھروں کی رونق کو دیکھئے جن میں بزرگ بھی ہیں اور بچے بھی. ایک نسل سے
دوسری نسل کو ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھئے. ان بات چیت اور بے انتہا محبت کو
دیکھئے. یہی نسلوں کی بات چیت ہے. تجربات اور روایات کا ایک نسل سے دوسری
نسل میں منتقل ہے. ہمارے بزرگ آنے والی نسل کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. اس کے
بیٹا نہیں، پوتے زیادہ پیارا ہوتا ہے، بیٹی نہیں- اس کی بیٹی زیادہ پیاری
ہوتی ہے. نسلیں یوں ہی بنتی ہیں. اسی طرح روح کو اجر-امر ماننے والی ثقافت
کے ایمان کیا یہ مانیں گے کہ ہمارے نسب ہمیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ یہ دیکھ رہے
ہیں کہ ہم نے کس طرح خاندان کو جوڑ کر رکھا ہے؟ ہم کس طرح ترقی کر رہے ہیں؟
کس طرح ہم نے اپنی ورثے کو سنبھالا ہوا ہے؟ اگر ہم سارا کچھ pitripaksh
بہتر کرتے ہیں تو وہ ہمیں برکت دیتے ہیں. کچھ بہتر ہونے پر خدا کی طرف سے
کی جانے پشپورشا کو صرف کہانی نہ مانئے. ہمارے نسب بھی اپنی اشیشو کے،
دعاؤں کے پھول ہم پر برساتے ہیں. وہ خوش ہوتے ہیں اور ہماری ترقی کے راستے
کھولتے ہیں.
وہ ہم سے دور پر خدا سے قریب ہیں، فطرت سے ان براہ راست بات چیت ہے، ان
دعائیں ہی ہم میں طاقت بھرتی ہیں کہ ہم کچھ کر سکیں. پترمویش کے یہ دن
ہمارے احترام درخواست کے دن ہیں. یادوں کے دن ہیں. ان کو یاد کرنے کے دن
ہیں جن روایت کے پیچھے ہم ہیں. جن چلتے ہم اس دنیا میں ہیں. اس یاد ہی ہمیں
جڑوں سے جوڑتا ہے. یہ بتاتا ہے کہ کس طرح مکمل تخلیق ایک اقتباس سے ہمیں
یکجا ہے اور کس طرح ہم سب ایک باپ کے ہی حصہ ہیں. اس تہوار بتاتا ہے کہ کس
طرح ہم ایک خاندان ہیں، بندھو-بادھو ہیں اور ہم سفر ہیں. ایک ایسی روایت کا
حصہ ہیں جو اوناشی ہے اور چرتن ہے، سناتن ہے.
کروموجومس کے ذریعے سائنسی یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ نوزائیدہ
میں کتنے خصوصیات دادا اور پردادا اور کتنے خصوصیات نانامیں اور نانا کے
آتے ہیں. اس معنوں یہ ہیں کہ باپ دادا کو ہم وابستگی رہتا ہے. شراددھ کے
سائنسی بنیاد تک پہنچنے میں شاید دنیا اب وقت لگے لیکن ہمارے پران اور کتاب
ان کے راز خوب مانند ظاہر کرتے ہیں. ہماری روایت میں شراددھ ایک سائنس ہی
ہے، جس کے پیچھے منطقی بنیاد ہیں اور روح کی امرتا کا یقین ہے. شراددھ
اعمال کرکے اپنے باپ دادا کو مطمئن کرنا، اصل میں نسلوں کی باہمی بات چیت
ہے. یہی روایت ہمیں بیٹے کہلانے کا حق دیتی ہے اور ہمیں ہماری ثقافت کی اصل
جانشین بناتا ہے. باپ دادا کا احترام اور ان برکت ہمیں ہر قدم پر آگے
بڑھاتا ہے. ان کا ہمارے پاس آنا اور مطمئن ہوکر جانا، کپول تصور نہیں ہے.
یہ بتاتا ہے کہ کس طرح ہم اپنے باپ دادا سے جڑ کر ایک روایت کے متعلق جانتے
ہیں، معاشرے کے فی داتوبودھ سے جڑتے ہیں اور اپنی ثقافت کے تحفظ اور اس کی
جڑوں کو پانی دینے کا کام کرتے ہیں. یہی پترر ہے. جس آزاد ہونے کے لئے ہم
سے جتن کرتے ہیں.
موت کے وقفے کے بعد بھی ہمارے نسب ہم منسلک رہتے ہیں. یہ میموری ہی ہمیں
جڑوں سے یکجا ہے، خاندان کے ساکرامنٹ سے جوڑتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا
کتنی بھی بدل جائے، ہم لوگ اپنی روایت کے سچے جانشین ہیں. شراددھ اعمال کے
بہانے ہمارے نسب ہم منسلک رہتے ہیں، ہماری یادوں میں قائم رہتے ہیں. بھارت
کی ثقافت صحیح معنوں میں یادوں کا ہی لوک ہے. اس عوام میں ہمارے باپ دادا
کی یادیں، ان سانسیں، ان کی باتیں، ان کی زندگی کی قیمت، ان کے طرز زندگی
تمام محرکات ہے. ہمیں ہماری جڑوں سے منسلک کا یہ اپکرم بھی ہے اور ماں مٹی
کا قرض ادا کرنے کا موقع بھی. احترام اور اعتماد سے منطق کی کتابیں بے معنی
ہو جاتی ہیں. اس وقت ہمیں لوک سے جوڑتا ہے، جس میں ہماری مٹی، مکمل فطرت،
مختلف مخلوق اور دیو (گائے، کتا، rook، خدا، چھٹا، برامک) تک کا خیال ہے.
یہ ہمیں بتاتا ہے کہ لوک کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہے. فطرت اور اس میں بسنے
والے جاندار سب ہمارے لئے یکساں طور پر عزت کے مستحق ہیں. ان کا تحفظ اور
پوجن ہی ہماری ثقافت ہے. یہ متن ہے لوک کے ساتھ رہنے کا اور اس فرض کرنے کا.
اس ایک symbiosis ہے جس میں مکمل نوعیت کی عبادت کا احساس ہے. اس لوک رچنا
ہی پتر خوش ہوتے ہیں. وہ ہمیں دعائیں دیتے ہیں، جس کا پھل ہماری زندگی کی
تمام راؤنڈ ترقی کے طور پر سامنے آتا ہے.
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ موت کے بعد بھی اپنے بزرگوں کا اتنا تادیر غور کرنے
والی ثقافت کا انحراف کیوں ہو رہا ہے؟ حالات یہ ہیں کہ روح کے ترپ کی بات
کرنے والا سماج آج خاندان کے بزرگوں کو عزت سے جینے کی حالات بھی بحال نہیں
کر پا رہا ہے. جہاں والدین کو خدا کا درجہ حاصل ہے، وہاں پرانا ہومز یا
ورددھاشرم بن رہے ہیں. یہ کتنے افسوس کا موضوع ہے کہ ہماری روایت کے برعکس
ہمارے برجگ گھروں میں ذلیل ہو رہے ہیں. ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا
ہے. مارکیٹ اور اپسسکرت کا خاندان نام کے ادارے پر براہ راست حملہ ہے. اگر
ہمارے معاشرے میں ایسا ہو رہا تو پترمویش کے معنی کیا رہ جاتے ہیں. ایک
گمراہ ہوا معاشرے ہی ایسا کر سکتا ہے.
جو سماج آپ بزرگوں کے تئیں شرددھابھاو رکھتا آیا، ان یادوں کو محفوظ کرتا
آیا، اس کا ہی زندہ روح کو تکلیف دینے کی کوشش کئی سوال کھڑے کرتا ہے. یہ
سوال، یہ ہیں کہ کیا ہمارا فلسفی اور اخلاقی بنیاد درہم برہم گیا ہے؟ کیا
ہماری یادوں پر مارکیٹ اور حسی کی اتنی گرد چڑھ گئی ہے کہ ہم اپنی ساری
اخلاقیات اور ضمیر گنوا بیٹھے ہیں. اپنے باپ دادا کی نجات کے لئے نماز میں
شامل ہونے والے ہاتھ کس طرح بزرگوں پر اٹھ رہے ہیں، یہ ایک بڑا سوال ہے.
پترپیش کے بہانے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کس طرف بڑھ
رہے ہیں؟ کون سا ٹیکسٹ پڑھ رہے ہیں اور اپنی جڑوں کی نفرت کس طرح کر پا رہے
ہیں؟ متن یہ بھی ہے کہ آخر ہم اپنے لئے کیسا مستقبل اور کیسی رفتار چاہتے
ہیں. آپ بزرگوں کا نفرت کر ہم جیسی روایت کر رہے ہیں کیا وہی ہمارے ساتھ
دہرائی نہیں جائے گی. والدین کا نفرت یا نظر انداز کرتی نسلیں آخر کس منہ
سے اپنی ستتیو سے سودھارتھ کی توقع کر سکتی ہیں، اس پر سوچے گا ضرور. یہ
بھی سوچئے کہ موت کے بعد بھی اپنے باپ دادا کو یادوں میں رکھ کر ان کا پوجن،
ارچن کرنے والی فطرت زندہ والدین کی توہین کو کیا کم پائے گی؟ ٹوٹتے
خاندانوں، مسائل اور بدامنی سے گھیر لیا سماج کا چہرہ کیا ہمیں یہ بتاتا کہ
ہم نے اپنے خاندانی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے. اپنی روایات کا اللدھن
کیا ہے. اقدار کو بسراکا ہے. اسی پھل ہم سب کو اٹھانے پڑ رہے ہیں. آج پھر
ایک ایسا وقت آ رہا ہے جب ہمیں اپنی جڑوں کی طرف جھانکنے کی ضرورت ہے.
بکھرے خاندانوں اور انسانیت کو ایک کرنے کی ضرورت ہے. بھارتی ثقافت کے ان
اجلے صفحات کو پڑھنے کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے بڑوں کا احترام سکھاتے ہیں.
جو مکمل فطرت سے عبادت اور ہم آہنگی کا رشتہ رکھتے ہیں. جہاں اختلاف، کلش
اور موقع پرستی کے بجائے محبت، سد روح اور تدفین ہیں. پترر سے نجات اسی میں
ہے کہ ہم ان مثالی روایات نعرہ کا استقبال کریں، اس راستے پر چلیں جن پر چل
کر ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو وشوگرو بنایا تھا. پوری دنیا ہمیں امید کے
ساتھ دیکھ رہی ہے. ہماری خاندان نام کے ادارے، ہمارے تعلقات اور ان
سدھنتا-سب کچھ دنیا میں اشچرکلوہ ہی ہیں. ہم ان سے نہ سیکھیں جو مغربی
بھوگواد میں ڈوبی ہیں، ہمیں مشرق کے جنان- نظم و ضبط کی بنیاد کے ایک نئی
دنیا بنانے کے لئے تیار ہونا ہے. شرون کمار، بھگوان رام جیسی کتھائے حوصلہ
افزائی کرتی ہیں، اپنوں کے لئے سب کچھ اخراج میں کرنے کی ترغیب دیتی ہیں.
ماں، وطن، والد، پتربھوم اس فی ہم اپنا سب کچھ عقیدت پیش کرنے کی ذہنیت
بنائیں، یہی اس وقت کا پیغام ہے. اس بھوگوادہ وقت میں اگر ہم ایسا کرنے کی
ہمت پاتے ہیں تو یہ بات ہمارے خاندانوں کے لئے خوش قسمتی کا ٹیکہ ثابت ہوگی. |