کون بنے گا مسیحا ایک معصوم طالب علم کیلئے
(musarrat ullah jan, pesahwar)
تیرہ سالہ سلمان کو سکول سے
نکلنے کے بعد آج دکان پر جانے کی بہت جلدی تھی کیونکہ آج مہینے کا آخری دن
تھا اور اسے پتہ تھا کہ اسے استاد مہینے کے پیسے ادا کریگا اس لئے وہ بہت
خوش خوش دکان جارہا تھا اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جو پیسے سکول کی فیس سے
بچ جائیں گے اس میں وہ اپنی لئے سکول کی نئی یونیفارم بھی خریدے گا - مقامی
پرائیویٹ سکول میں آٹھویں کلاس میں پڑھنے والا سلمان آفریدی اپنے کلاس کے
تیز ترین اور قابل بچوں میںسے تھا- ذہن میں اپنی نئی یونیفارم اور سکول فیس
کی گردان کرتے ہوئے سلمان آفریدی دکان پر گیا جہاں پر اسکے استاد جو کہ اس
کا کزن بھی تھا اور یو پی ایس کا کاروبار کرتا تھا نے اسے بستہ دکاندار پر
رکھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ جلدی آجائو بازار سے روٹیاں لے آئو - تم بھی
تھکے ہوئے ہو کھانا بھی ساتھ کھا لیں گے اور پھر کام بھی کرینگے-
تیرہ سالہ سلمان آفریدی جسے اس کے والد نے اس کی سکول کے اخراجات کم کرنے
اور ہنر سیکھنے کیلئے دکان پر بٹھایا تھا- سلمان نے استاد سے پیسے لئے اور
بازار سے روٹی لینے کیلئے نکل پڑا - دکان سے نکلنے کے ساتھ وہ روڈ کنارے
کھڑا ہوگیا کہ گاڑیوں کا رش کم ہو اور وہ سڑک عبور کرکے روٹیاں لے آئے- ا س
وقت بازار میں آرمی کا ایک قافلہ گزر رہا تھا- قافلہ گزرنے کے ساتھ ہی جیسے
ہی سلمان نے قدم اٹھایاکہ ایک خوفناک دھماکہ ہوا- اور پھر سلمان کو یوں لگا
جیسے اس کے جسم میں آگ لگی ہو اور خون کے فوارے بہ رہے ہوں-
بم دھماکے سے نکلنے والے زور نے سلمان آفریدی کو اس اپنے دکان میں گرا دیا
اور سلمان نے اپنے استاد کو دیکھا اور پھر وہ بے ہوش ہوگیا- استاد نے اسے
اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے حلق سے نکلنے والے خون سے اس کے
استاد کو بھی بدحواس کردیا کیونکہ بم کیساتھ لگے دھات نے معصوم طالب علم
سلمان کی سانس کی نالی بھی کاٹ دی تھی اور زیادہ خون بہہ جانے سے وہ بے ہوش
ہوگیا -اس کا استاد اسے لیکر جلدی سے ہسپتال پہنچانے کی چکر میں تھا لیکن
اس دوران سیکورٹی فورسز نے فائرنگ شروع کردی اور پھر فائرنگ کا نہ ختم ہونے
والا سلسلہ شروع ہوگیا اور تقریبا بیس منٹ سلمان کا استاد نکلنے کی کوشش
کرتا رہا کہ وہ سلمان کو نکال کر ہسپتال پہنچائے -اور آدھ گھنٹے بعد ستاد
سلمان کو لیکر ہسپتال لیکر پہنچ گیا-جہاں پر اسے ابتدائی طبی امداد دی گئی
اور بم دھماکے کے زخمی اور چھلنی جسم رکھنے والے سلمان آفریدی کے آپریشن
کئے گئے لیکن اس کی حلق جوکسی تیز دھار چیز سے کٹ گئی تھی کی سانس کی نالی
کو متاثر کر گئی ہسپتال میں کچھ عرصہ ڈاکٹروں نے علاج کروایا پھر معصوم
سلمان آفریدی کو نکال دیا کہ بہت ہوگیا فری کا علاج اب مزید علا ج نہیں
ہوگا-طالب علم سلمان آفریدی کا واحد رضا خان جو خود بھی ایک دکاندار کیساتھ
بحیثیت مزدور کی حیثیت سے کام کررہا تھا نے اپنی اوقات سے بڑھ کر اپنے بچے
کا علاج کروایا- منت سماجت کرکے لوگوں سے قرض لئے - سلمان آفریدی کے والد
نے اپنے بیٹے کی خاطر اضافی کام بھی کیا تاکہ اس کے بیٹے کا علاج ہو-پشاور
کے پرائیویٹ ہسپتالوں سے لیکر اسلام آباد کے بڑے ہسپتالوں کے چکرلگائے کہ
اس کے بچے کا علاج ہو- اور یوں سلمان کے پندرہ آپریشن ہوگئے جس سے اس کا بم
دھماکے سے متاثرہ جسم جو چھلنی ہوچکا تھا تو ٹھیک ہوگیا لیکن اس کی سانس کی
نالی اور آوازدونوں بند ہو چکے ہیں-
سلمان آفریدی کا والد رضا خان مختلف لوگوں کے در پر حاضری لگا کر تھک چکا
ہے سلمان آفریدی کے جسم پر بنے زخم تو ٹھیک ہوگئے ہیں لیکن اس کی آواز بند
ہیں اور اس کی سانس کی نالی بند ہے-سلمان کے والد نے تبدیلی کا دعوی کرنے
والے عمران خان اور اس کی بیوی ریحام خان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے بنی
گالے کے دورے کئے تاکہ اس کے بچے کا علاج ہو ایک دن اللہ تعالی نے مہربانی
کی اور عمران خان نے اس سے ملاقات کی سلمان کے والد نے اپنے ساتھ پیش
آنیوالے واقعے کی بات کی اور بچے کے علاج کیلئے کہا- جنہوں نے وزیراعلی
خیبر پختونخواہ کو متاثرہ بچے کی امداد کرنے کو کہا- وزیراعلی خیبر
پختونخواہ کی ہدایت پر بچے کے علاج کیلئے کمیٹی بن گئی جنہوں نے اپنی رپورٹ
دی کہ سلمان آفریدی کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور اس کا علاج برطانیہ
یا آسٹریلیا میں ہوسکتا ہے- اس لئے صوبائی حکومت اس طالب علم کو جو بم
دھماکے میں اپنی سانس کی نالی گنوا چکا ہے کو علاج کیلئے بھیجا جائے -
کمیٹی یہ رپورٹ دیکر بری الذمہ ہوگئی - سلمان آفریدی کے والد رضا خان نے
وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے دوبارہ بڑی مشکل سے آپروچ کیا اور بچے کے حوالے
سے بات کی - تو صوبے میں "تبدیلی کے چکر میں گلیوں محلوں میں شہد کی
نہریں"بہانے کے دعویدار نے اسے موبائل فون نمبر دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے
سے جب بھی ضرورت ہو مجھ سے رابطہ کیا جائے- معصوم طالب علم کا والد
وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی یقین دہانی پر واپس آگیا لیکن کچھ نہیں ہوا اور
پھر جب سلمان آفریدی کے والد نے وزیراعلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو
موبائل فون اٹھانے والے شخص نے اسے کہا کہ"بھائی میں وزیراعلی کا ڈرائیور
ہوں" تنگ مت کرو-اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے- وعدے وعید کا سلسلہ جاری ہے
اور معصوم سلمان آفریدی آج پندرہ سال کا اپنے گھر میں پڑا ہے اس کا جرم صرف
اتنا ہے کہ وہ غریب ہے-کیونکہ وہ غریب شہری ہے اور ایسے معاشرے میں جہاں پر
غریب ہونا انسان کا سب سے بڑا جرم ہو وہاں پر اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا
بھی بڑا جرم ہے -
دوسری طرف حال یہ ہے کہ سلمان آفریدی کو مہینے میں ایک مرتبہ گردن میں
مخصوص سٹرپ حلق پر لگانا پڑتا ہے جس سے وہ سانس لیتا ہے-اگر یہ نہ ہو تو
اسے نہ صرف سانس میں تکلیف ہوتی ہیں بلکہ اس کا تڑپنا اس کے والدین کو بھی
پاگل کردیتا ہے - چار بھائیوں اور تین بہنوں میں دوسرے نمبر پر آنیوالا
سلمان سے اس کے والد کو بہت امیدیں تھی کہ میرے بڑھاپے کا سہارا بنے گا اور
بہن بھائیوں کو مشکل حالات میں کندھا دے سکے گا لیکن حال یہ ہے کہ سلمان کے
نہ ختم ہونیوالے دکھ اور درد نے اس کے والد کو بے وقت بوڑھا کردیا ہے زندگی
کے مسلسل امتحان نے جیسے رضا خان کو ہی دیکھ لیا ہے کیونکہ وہ اپنی محنت
مزدوری سے صرف اتنا کما لیتا ہے کہ اپنے بچوں کے حصے کا رزق بمشکل پوری
کرتا ہے جبکہ سلمان کے ایک سٹرپ کا خرچہ پندرہ سو روپے ماہانہ ہے اور
ادویات کا خرچہ اس کے علاوہ ہے-اگر سلمان کو حلق کی جگہ پر سٹرپ نہ لگے تو
نہ صرف اسے سانس میں مشکلات درپیش آتی ہیں بلکہ اسے کھانے پینے میں بھی
مشکلات پیش آتی ہیں-
فوج میں کمیشن لیکر دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا عزم رکھنے والا پندرہ سالہ
قبائلی زخمی حالت میں بھی آج بھی " تبدیل شدہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور"
میں موجود ہیں لیکن اسے سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں- اس کا علاج کرنے والا
کوئی نہیں اس کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں- کیا صوبے میں تبدیلی کے
نام پر"شہد اور دودھ کی نہریں" لانے والے حکمران اپنے "نشے"کا کچھ حصہ
پاکستان کے اس مستقبل پر خرچ کرنے کو تیار ہیں-ویسے بھی یہ ان کی ذمہ داری
ہے بحیثیت ریاست بھی اور بحیثیت حکمران کے بھی - |
|