ہر شخص اپنا احتساب کرے!
(عابد محمود عزام, karachi)
خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین
کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت کیمطابق خود کو خامیوں سے پاک
سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔ خود کو جانچنا،
اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کرنا اور
اپنے ہر عمل کا خود حساب رکھنا ”خود احتسابی“ کہلاتا ہے۔ یہ عمل انسان میں
اپنے اندر پیدا ہونیوالے منفی و مثبت رجحانات کا تعین کرنے کی صلاحیت پیدا
کرتا ہے اور یہ صلاحیت انسان کو اپنا اخلاق و کردار سنوارنے کے قابل بناتی
ہے۔ خود احتسابی کی بدولت انسان اپنے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو برآمد
کرتا ہے۔ یہ بات چڑھتے سورج کی طرح ظاہر ہے کہ دنیا میں وہی اقوام اور
افراد بلند مراتب حاصل کرتے ہیں، جو ہمیشہ اپنا احتساب کرتے رہیں۔
جن قوموں اور افراد نے ترقی کی ہے، ان کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ اپنے ہر
عمل کا احتساب کر کے آیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ دنیا ایسے لوگوں
کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے، جنہوں نے اپنا وقت دوسروں کی خامیوں اور غلطیوں پر
بحث مباحثہ کرتے ہوئے گزارنے کے بجائے اپنی ذات کا احتساب کیا، سابقہ
خامیوں سے نجات حاصل کر کے بہتری کا سفر جاری رکھا اور خود کو ذمے دار
سمجھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے لیے وقف کیا۔انسان جتنی بار اپنا
احتساب کرتا ہے، اتنی بار ہی اس کے کام میں مزید بہتری آتی ہے۔ جو لوگ خود
احتسابی کو اپنا وطیرہ بنا لیں، وہ ہمیشہ کامران ٹھہرتے ہیں۔
مشہور ہے ”یونان کے ایک مصور نے ایک تصویر بنائی، جس میں ایک آدمی کو انگور
کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں لٹکا دیا۔ جو بھی
تصویر کو دیکھتا، اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست کہنے لگے ”تم نے
انگوروں کا خوشہ اس قدر بہترین بنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ
کر چونچ مارتی ہیں۔“ مصور نے اپنی تعریف پر واہ واہ کرنے کی بجائے تصویر
میں اپنی غلطی کو ڈھونڈا اور کہنے لگا ”اس کا مطلب ہے۔ میری تصویر میں کچھ
خامی رہ گئی ہے۔ آدمی کو بنانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، ورنہ چڑیاں اگر
آدمی کو بھی اصل سمجھتیں تو اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ
کرتیں۔“ مصور نے وہ تصویر اتاری اور پہلی سے بھی بہتر دوسری تصویر بنائی۔
اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا۔ انگور کا خوشہ
دوبارہ اس قدر شان دار بنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس
آتیں، مگر اب انھیں چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی، جو آدمی انگور کا خوشہ لیے
ہوئے تھا۔ اس کی آنکھوں میں اس قدر غصہ بھرا تھا کہ چڑیاں اسے دیکھتے ہی ڈر
کر اڑ جاتیں..! ! اب مصور بہت خوش تھا، کیونکہ اس نے پہلی تصویر میں خود ہی
اپنی خامی کی نشاندہی کی اور اس کی اصلاح کر کے پہلے سے شاندار تصویر بنائی
تھی اور یہ کامیابی اسے خود احتسابی کے نتیجے میں میسر آئی تھی۔
اگر زندگی کی روانی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ انسان کی ہر ناکامی میں کہیں نہ کہیں اپنی کوتاہی پوشیدہ ہوتی
ہے، جسے خود احتسابی کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے نقصانات کے بعد
خود کا احتساب کر کے بڑے نقصانات سے بچا سکتا ہے۔ جو لوگ کبھی اپنا احتساب
نہیں کرتے اور ہمیشہ ہر معاملے میں دوسروں کو ہی قصور وار ٹھہرانے کی کوشش
کرتے ہیں، ان کو کامیابی مشکل ہی ملتی ہے۔ آج حالات پر تبصرہ کرنا،
حکمرانوں اور سیاستدانوں کو برا بھلا کہنا اور معاشرے کی خامیوں اور
محرومیوں پر بحث مباحثہ کرنا بحیثیت مجموعی ہم سب کا محبوب مشغلہ بن چکا
ہے۔ ایک بڑی تعداد ڈرائینگ رومز، چائے خانوں، دفاتر، تقریبات اور سوشل
میڈیا پر گھنٹوں گھنٹوں اجتماعی المیوں اور بے حسی کی داستانیں دہراتے ہوئے
گزار دیتی ہے۔ ہم نقائص کی تشخیص کرنے کے بعد ان کی بہتری کے لیے کام کرنے
کے بجائے اپنی عمر محض نقطہ چینی کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
ہم میں سے اکثریت اپنی صلاحیتوں کو اسی طرح خرچ کرنے میں مصروف ہے، لیکن اس
کے باوجود معاشرے کے شب و روز جوں کے توں ہیں، کیونکہ کوئی بھی اپنا احتساب
کر کے خود کو بدلنے پر تیار نہیں ہے، بلکہ ہر کوئی دوسروں کو بدلنے کی فکر
میں ہے۔ ہر کوئی دوسروں کو غلط ثابت کرنے پرتلا ہوا ہے، حالانکہ دوسروں کی
خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث بنا کر سارا دن اپنا دماغ کھپانے
سے کہیں بہتر ہے کہ ہر فرد اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے
اور اپنا احتساب کرے، کیونکہ معاشرے میں تبدیلی خود سے شروع ہوتی ہے اور
خود میں جو تبدیلی انسان خود لا سکتا ہے، کوئی دوسرا نہیں لا سکتا۔
انسان خود کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ جس طرح آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا،
اسی طرح انسان خود سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اسی لیے ہر فرد اپنی ذات کے
متعلق اپنے دل سے سوال کرے، تو اپنے آئینہ دل میں اپنی ذات کا عکس واضح نظر
آئے گا۔ خود احتسابی کا عمل خود سے شروع ہو کر خود پر ختم ہوتا ہے۔ خود
احتسابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بارے میں گاہے بگاہے خود سے رائے
دریافت کریں، اپنے ہر عمل اور اپنے ہر عمل سے پیدا شدہ نتائج کا خود جائزہ
لیں۔
بہت سے سماجی، معاشی، اقتصادی، اجتماعی و انفرادی مسائل صرف لاپرواہی کے
نتیجے میں جنم لیتے ہیں، خود احتسابی سے ہم ایسے تمام معاشرتی مسائل سے
چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ معاشرے میں بہت سے مسائل کو ہم خود جنم دیتے
ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں اور ہم یہی کہتے
ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں، یہ تمام مسائل ملک کے خراب نظام کا نتیجہ ہیں۔ حالانکہ
یہ نظام بھی ہم سب نے خود بنایا ہے۔ اپنی ذمے داریوں سے پہلوتہی، کام چوری،
رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ڈیوٹی میں غفلت اور اس قسم کے نجانے کتنے کام
ہم خود کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم بہت سی خرابیاں ہماری اپنی ہیں۔ سو دوسروں کو
بدلنے کے بجائے خود کا احتساب کریں اور خود کو بدلیں۔
خود احتسابی ہر فرد کا دینی، قومی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی فریضہ ہے، اس
ضمن میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ عام شہری سے اعلیٰ منتخب حکمران،
ماتحت عدالت کے اہل کاروں سے عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان، سیاسی جماعت کے گلی
کوچے کے کارکن سے پارٹی کے سربراہ تک سب کو اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ جن
معاشروں میں خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہاں لاقانونیت،
افراتفری، بد امنی، بے ضابطگی، بے قاعدگی، بد عنوانی اور انارکی فروغ پاتی
ہے۔ ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب بھی خود احتسابی سے
دوری ہے۔ ایک مثالی معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے ہمیں خود کا احتساب کرنا ہو
گا۔
اگرچہ خود احتسابی کا عمل اپنے آپ سے شروع ہو کر اپنے آپ پر ختم ہونے والا
عمل ہے، لیکن جب ہر فرد یہ عمل کرتا ہے تو اس عمل سے پیدا ہونے والے نتائج
و ثمرات کا دائرہ اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہوتا ہوا پورے معاشرے تک وسعت
اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا آئیں سب مل کر خود احتسابی کے عمل سے اپنی
شخصیت میں وہ نکھار پیدا کریں، جو ہماری ذات اور گھر سے ہوتا ہوا پورے
انسانی معاشرے تک وسعت اختیار کر جائے اور ہم ایک مثالی معاشرہ تعمیر کر
سکیں۔ |
|