تعلیمی سال کے شروع ہوتے ہی ملک
بھر کے دینی مدارس میں زندگی کی نئی لہر دوڑ جاتی ہے۔ قدیم وجدید طلبہ کرام
کی آمد سے مدارس کی بہاریں دوبارہ لوٹ آتی ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں پھیلی
اِن ”دانش گاہوں“ میں گہما گہمی، سرخوشی ووالہانہ پن کی اخلاص سے بھرپور
معطر ونورانی فضا قابل دید ہوتی ہے۔ علوم قرآن وسنت کے یہ شیدائی اللہ کے
پسندیدہ اور انتخاب کردہ لوگ ہوتے ہیں۔ رحمتِ حق ،خیروبھلائی سے اِن کی
جھولیاں بھردیتی ہے۔ جب ہر شخص اپنی ذاتی ونفسانی مرغوبات کے حصول میں مگن
ہوتا ہے تب یہی خوش قسمت ”نور الٰہی اور نور نبوی“ کے شیریں سمندروں میں
غوطہ زن ہوجاتے ہیں۔ دینی مدارس کا اسلامی معاشرے میں اہم اور پاکیزہ کردار....ایک
ایسی اٹل حقیقت ہے کوئی ذی شعور اِس کا انکار نہیں کرسکتا۔ ہاں جو لوگ
روزاول اِس تعلیم اور علم وحکمت کے سرچشموں سے خائف ولرزاں تھے آج بھی اُن
کی ذریت اِن حاملین قرآن وسنت سے لرزاں وترساں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اِسی
نصاب تعلیم اور اِس کے مقتضاءپر عمل کرنے کی بدولت بارگاہِ نبوی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے فیض یافتگان نے تھوڑے ہی عرصے میں عرب وعجم کو زیر
کرڈالا تھا اور آج بھی انہی مدارس کے فیض یافتگان جہاں علم وحکمت کے
میدانوں میں گوئے سبقت لئے جارہے ہیں وہیں عمل کے میدانوں میں بھی انہی
شیروں کا پلہ بھاری جارہا ہے۔ کل روس مقابلے میں ٹھہر سکا تھا نہ آج امریکہ
اور اُس کے اتحادی قدم جما پارہے ہیں۔ اسی لئے وہ ہر وقت اِن مدارس کو میلی
نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ دینی مدارس سے متعلق دو باتیں الگ الگ نوعیت کی
ہیں مگرہیں لازم وملزوم۔ ایک نصاب تعلیم دوسرے اِس تعلیم کا مقتضا۔ دینی
مدارس کیخلاف جتنی سازشیں اور الزامات عائد کئے جاتے ہیں وہ تمام کے تمام
بنیادی طور پر انہی دو نکتوں کے گرد گھومتے ہیں۔ نصاب تعلیم کو ہدف تنقید
وملامت بنا کرترک کرنے کامشورہ دیا جاتا ہے یا ”عصری تقاضوں سے ہم آہنگ“
کرنے کے خوشنما اور مبہم نعرے کی آڑ میں اِس نصاب کی ہیئت کذائیہ اور ماہیت
اصلیہ ہی کو بدلنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ دوسرے درجے میں اِس تعلیم کے
مقتضاء اور عملی نمونے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور قرآن وسنت کے پیروکار کو
ناقابل وقعت گردانا جاتا ہے۔ پھر اس میں کوئی عمل اور مقتضائے علم اِن کی
نظروں میں الگ شناخت کا حامل نہیں ہوتا بلکہ موقع بہ موقع جس عمل کو ہدف
لہولعب اور نشانہ تنقید وملامت بنانا ہو اُس سے گریز نہیں کیا جاتا۔
نصاب تعلیم ہی کو لے لیجئے، اب تک کتنی مرتبہ.... اور کس کس انداز.... سے
اسے نشانہ نہیں بنایا گیا؟ پھر اِس کے مقتضیات کو کیسے کیسے کوسا گیا؟ یہ
سب قریبی عرصے کی تاریخ وحالات سے خبر رکھنے والا ہرشخص بخوبی جانتا ہے۔بش
کی قیادت میں شروع ہونے والی ”صلیبی جنگ“ سے قبل ”دینی مدارس اور دہشت گردی“
کا جوڑ شاید ہی کہیں سننے یا دیکھنے کو ملے ہاں راہ ہموار کرنے کیلئے کسی
کونے کھدڑے سے ٹاں ٹاں کی آواز ضرور آجاتی تھی مگر جس شدت سے اِس عرصے میں
اِن دونوں چیزوں کو لازم وملزوم کرکے دکھایا اور بتایا جارہاہے اُس کی وجہ
یہ ہے کہ اِس وقت اِسی پروپیگنڈے کی راہ ہموار ہے ورنہ نصاب پر جتنے اعتراض
ہوئے ”الحمدللہ“ حضرات اکابر وسرپرستان مدارس نے اُن کے شافی وکافی سے بھی
زائد جوابات دے کر اُن کا دم توڑ دیا ہے اب مزید بحث مباحثہ ضیاع وقت ہی
ہوگا۔
آج ہمیں اگر اِس موضوع کے ایک پہلو ”دینی مدارس اور دہشت گردی“ سے متعلق
گفتگو کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو اُس کی وجہ ایک کثیرالاشاعت روزنامہ میں
اِس حوالے سے شائع ہونے والا ایک ”مضمون“ ہے ۔ مضمون کا عنوان اگرچہ ”عام“
رکھا گیا ہے جس سے بظاہر دینی مدارس کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوتا مگر مضمون
پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سارا مضمون ہے ہی دینی مدارس کے متعلق اور
خاص ان ہی کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ پھر ایک رپورٹ کی بنیاد پر یہ باور
کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اکثر وبیشتر دینی مدارس حکومت کی نظروں سے
اوجھل ہونے کی بناء پر کن منفی ودہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں کسی کو
کچھ معلوم نہیں اور حکومت اس معاملے سے بالکل غفلت میں ہے اور پھر اُن صاحب
کے نزدیک اِس وقت حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں
”بلاشبہ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تمام دینی مدارس تک حکومت کی رسائی اور
ان سے جملہ مطلوبہ معلومات کا حصول ہے۔ یہ کام جنگی بنیادوں پر کرنے والا
ہے“۔
مذکورہ کالم نگار صاحب شاید دینی مدارس سے زیادہ ہی خوف زدہ ہوگئے ہیں یا
خود کسی کی برین واشنگ کے نتیجے میں مدارس دشمنی میں اِس حد تک مبالغہ کر
گئے کہ انہیں خود بھی کوئی احساس باقی نہ رہاکہ میں کیا لکھ رہا ہوں، کیا
آج کوئی ایک دانشور بھی اِن کی اِس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ اِس وقت واقعی
ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مدارس تک رسائی حاصل کرنا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا
دینی مدارس خلائی دنیا میں قائم ہیں یا پہاڑوں کی خوفناک غاروں اور خطرناک
جنگلوں میں؟ جس کی وجہ سے حکومت کیلئے اِن دینی مدارس تک رسائی حاصل کرنا
سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے یا مدارس نے اپنے گرد ایسے آہنی حصار قائم کرلئے
ہیں جو حکومتی رسائی میں سخت رکاوٹ ہیں؟۔
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر حکومت اپنی مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے
دینی مدارس کے نظام وماحول سے بے خبر ہے تو کیا یہ دینی مدارس باقی کروڑوں
عوام کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہےں حالانکہ عوام الناس کی اکثریت انہی مدارس
سے متصل وملحق مساجد ہی میں نمازیں ادا کرتی اور دینی اجتماعات میں شرکت
کرتی ہے۔ اِن مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کسی اور دنیا سے نہیں آتے۔ اِسی
دھرتی پر جنم لیتے ہیں، ان کے والدین، رشتہ دار اور اعزاءواقارب اِسی ملک
کے رہنے والے ہوتے ہیں۔ آئے روز صبح وشام وہ مدارس میں آتے رہتے ہیں۔ اب
اگر یہ مدارس دہشت گردی اوربرین واشنگ کے مراکز ہیں تو کیا ساری قوم اندھی
ہوچکی ہے اُسے کچھ نظر نہیں آتاکہ ہمارے محلوں اور شہروں میں قائم یہ مدارس
کیا پھیلا رہے ہیں اور ہماری نسل نو کو کس ڈگر پہ چلا رہے ہیں؟ اِس
پروپیگنڈے کو مزید طاقتور بنانے کیلئے ابھی کچھ عرصے قبل ہی میاں چنوں اور
ڈیرہ غازی خان کے علاقے شادن لنڈ میں ہونے والے دو واقعات کو دہرا دیا جاتا
ہے حالانکہ مدارس سرپرستوں نے حقائق واقعیہ سے ان الزامات کی حقیقت طشت
ازبام کردی ہے کہ جہاں یہ واقعات ہوئے نہ تو وہ باقاعدہ دینی مدارس تھے اور
نہ ہی اُن کے سرپرست ”مولوی اور عالِم “ تھے۔ پھر بھی ان واقعات کو دینی
مدارس کے ساتھ نتھی کرنا سوائے ہٹ دھرمی اوربدنیتی کے اور کیا ہے۔
دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کیلئے ان مدارس تک رسائی حاصل کرنے میں کیا
چیز رکاوٹ ہے اور خود ”رسائی“ سے کیا مطلوب ہے۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق
ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس تک رسائی کیلئے نہ اہل
مدارس رکاوٹ ہیں اور نہ مدارس کی نمائندہ تنظیمیں اور نہ ہی کوئی بیرونی
طاقت، اہل مدارس نے کب اہلکارانِ حکومت کو مدارس آنے سے روکا ہے اور اُن
کیلئے مدارس کے دروازے بند کئے ہیں۔ مدارس نے ہر چھوٹے بڑے اور عامی وخاص
کیلئے اپنے فراخ وکشادہ دریچے وا کئے ہوئے ہیں۔ بشرطیکہ یہ سب صحیح ارادے
اور درست نیتوں کے ساتھ ہو۔ وگرنہ اگر کسی نے دل میں بغض وعناد چھپا رکھا
ہو،مدارس کو میلی نظروں سے دیکھتا ہو، مدارس میں آمد ورفت اور اُن تک رسائی
سے اپنے مکروہ عزائم کو کامیاب بنانا چاہتا ہو تب اس کو معلوم ہونا چاہئے
کہ اہل مدارس علم ودانش کے امین ہونے کے ناطے جس قدر متحمل اور بردبار ہوتے
ہیں وہیں استغنائی پیکر ہونے کی بدولت انتہائی خوددار بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے
وہ اپنی اور اپنے اداروں کی عزت وآبرو پر ہاتھ ڈالنے والے ہر آمروجابر کے
مقابل سینہ سپر ہوکر میدان میں ڈٹ جاتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی دنیاوی عزوجاہ
کا حامل پراپنی خودداری پر ذرہ برابر آنچ نہیں آنے دیتے اور اہل مدارس کا
یہی وہ خود دارانہ اور مستغنیانہ مقام ہے جو غرور وتکبر سے تنی اہلکاران
تخت وتاج کی گردنوں کو خَم ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ ہاں جو آمن وآشتی کا
ہاتھ بڑھائے اہل مدارس آگے بڑھ کر اُسے سینے سے لگا کر اس کی عزت افزائی
کرتے ہیں۔ رہی دوسری بات کہ ”رسائی“ سے کیا مطلوب ہے؟ اگررسائی کا مطلب
مدارس پر کنٹرول حاصل کرکے وہاں اپنا نظام ونصاب مسلط کرنا ہے تو یقیناً
اہل مدارس اسے کسی قیمت قبول نہیں کرتے کیونکہ ”جس کا کام اُسی کو
ساجھے“اور اگر رسائی سے مقصود وہاں کے نظام ونصاب سے آگاہی حاصل کرنا، وہاں
کے حالات وواقعات سے باخبر رہنا ہے تو اس سلسلے میں اہل مدارس کبھی آڑے
نہیں آئے بلکہ وہ تو خود ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے ہر طبقے کو مدارس کے
نظام ونصاب سے آگاہی ہو۔ وہ لوگ جو مدارس دشمنی پر مشتمل پروپیگنڈے سے
متاثر ہوکر مدارس سے دور ہوگئے ہیں۔ قریب آئیں اور دیکھیں آیا واقعی یہ
مدارس علم وحکمت کے سرچشمے ہیں یافسادیوں کے ڈیرے؟ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک
ایسا کوئی الزام ثابت ہوسکا اور نہ ہی مدارس مخالف کوئی پروپیگنڈہ کامیاب
ہوسکا کیونکہ مدارس کا نظام ونصاب پوری عوام کے سامنے ہے۔ ناواقف شخص بھی
جب بچشم خود اِن کا معائنہ کرتا ہے تو پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کی بجائے اس
کے دل میں مدارس کی عظمت ووقعت پہلے سے زیادہ جاگزیں ہوجاتی ہے۔
یہ تمام گفتگو تو اُس صورت میں تھی جب دہشت گردی کا وہ مطلب لیا جائے جسے
قرآنی اصطلاح میں ”فساد فی الارض“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ بات واضح
ہوچکی ہے کہ مدارس کا ”فساد فی الارض“ سے کوئی تعلق نہیں اور جو لوگ اِس کا
ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ اسلام دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کی راہیں ہموار کرتے
ہیں۔ لیکن اگر دہشت گردی کا وہ مطلب لیا جائے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں
نے متعارف کرایا ہے۔ اُس کے نزدیک ”قتال فی سبیل اللہ“ کی تعلیم بھی دہشت
گردی ہے اور ”قتال فی سبیل اللہ“ کا عمل بھی دہشت گردی ہے۔ تب پوری دنیا سن
لے کہ مدارس قتال فی سبیل اللہ کی تعلیم سے دستبردار ہوسکتے ہیں اور نہ ہی
اہل مدارس قتال فی سبیل اللہ والے عمل کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔ مدارس قرآنی
تعلیمات اور اسوہ نبوی کے محافظ ہیں اور یہ دونوں چیزیں قتال فی سبیل اللہ
سے لبریز ہیں۔ اب بھلا اہل مدارس اِس مقدس تعلیم اور مبارک عمل سے کیسے
روگردانی کرسکتے ہیں اور اگر کوئی مدرسہ یا کوئی نام کامولوی وطالب علم اِس
قرآنی اور نبوی عمل کی تعلیم روک دیتا ہے یا اِس کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو
وہ مدرسہ ”دینی مدرسہ“ نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی اِس مبارک عمل سے روگردانی
کرنے والے ”مولوی یا اللہ والا“ کہلا سکتا ہے۔
دوٹوک بات یہ ہے کہ دینی مدارس کا دہشت گردی بمعنی ”فساد فی الارض“ سے کوئی
تعلق نہیں ہے اور امریکی وصلیبی اصطلاحِ دہشت گردی بمعنی ”قتال فی سبیل
اللہ“ کو دینی مدارس سے دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کرسکتی ہے۔ انشاءاللہ
تاقیام قیامت یہ دینی مدارس ”قتال فی سبیل اللہ“ کی تعلیم دیتے رہیں گے اور
اِس پر عمل کرنے والے ”جانباز “بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہماری ایسے کالم
نگاروں سے گزارش ہے کہ آپ اپنے قلم سے صحیح مسائل کی طرف حکومت کی توجہ
مبذول کرائیے ورنہ اِن چٹانوں سے ٹکرا کر اپنا سرپھوڑنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ
آئے گا۔ |