دونوں خبریں ایک ہی روز اخبار میں چھپیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں ہر خبر کے لیے ’’زینت بنی‘‘ کا محاورہ استعمال کیا جاتا
ہے، لیکن میں کہوں گی کہ ان دو خبروں نے دل دکھی کرتی اور مایوسی پھیلاتی
دیگر خبروں کے ساتھ مل کر اخبار کی سیاہی میں اضافہ کیا۔ ان دونوں خبروں کی
سرخیوں میں ایک لفظ مشترک تھا، اور وہ تھا ’’محروم‘‘ ایک کی سرخی تھی
’’سندھ کے ہائر سیکنڈری اسکول سہولتوں سے محروم‘‘ اور دوسری بتارہی تھی کہ
’’تین برس بھرتی کیے گئے اساتذہ اب تک تنخواہوں سے محروم‘‘، یعنی کُل ملا
کے بات یہ ہوئی کہ تعلیم کا شعبہ حکومت کی توجہ سے محروم، سرکاری اسکول
سرکار کی سرپرستی سے محروم، سرکاری اداروں میں پڑھنے والے طلبہ پڑھنے کے حق
سے محروم۔
محرومی کی یہ داستان کئی عشروں پر پھیلی ہوئی ہے اور روز بہ روز الم ناک سے
الم ناک تر ہوتی جارہی ہے۔ ملک میں انتہاپسندی کا فروغ، مذہب کے نام پر
ہونے والی دہشت گردی، خود کش حملہ آور، بچوں میں جرائم کی شرح کا بڑھنا․․․یہ
ساری سیاہ کہانیاں اسی داستان سے نکلی ہیں۔ ہماری حکومتوں نے تعلیم کے شعبے
کو ایک طرف کم بجٹ کے ذریعے ابتر صورت حال تک پہنچایا ہے دوسری طرف تعلیمی
اداروں، خاص طور پر اسکولوں میں ہر استحقاق اور اہلیت کو نظرانداز کرکے
اپنے پیاروں کو نوازنے کے چلن نے ان اداروں کے حالات مزید بدتر کردیے ہیں،
اور اب صورت حال یہ ہے کہ معاشی حالات سے مجبور والدین ہی اپنے بچوں کو
سرکاری یا بہ الفاظ دیگر پیلے اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں ورنہ جو والدین
ذرا سی بھی استطاعت رکھتے ہیں اپنی اولاد کو نجی اسکولوں کے حوالے کرتے ہیں
اور پھر اسکولوں سے اعلیٰ تعلیم کے اداروں تک فیسیں بھرنے اور دیگر تعلیمی
اخراجات پورے کرنے میں عمر بتا دیتے ہیں۔
یوں تو ملک بھر کے سرکاری اسکول زبوں حالی کا شکار ہیں لیکن صوبہ سندھ میں
ان کی حالت اور بھی خراب ہے۔ ٹوٹی پھوٹی عمارتیں، بنیادی سہولیات ناپید،
گھوسٹ اساتذہ، سفارش پر بھرتی کیے گئے نااہل استاد، اور کہیں کہیں تو اسکول
صرف دستاویزات میں موجود ․․․․․ایسے میں سندھ کے غریبوں، مزدوروں اور کسانوں
کے بچوں کا مستقبل اپنے ماں باپ کے حال کے عکس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔
گذشتہ سال سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’پاکستان وہ دوسرا ملک ہے
جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح، دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ
سندھ ملک کا وہ صوبہ ہے جہاں سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی
کی صورتِ حال ابتر ہے۔‘‘
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جو
اسکول نہیں جاتے، جب کہ ان میں ستّر لاکھ بچے ایسے ہیں جو پرائمری اسکول کی
تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچ چکے۔
اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے رپورٹ کا کہنا ہے کہ ملک
بھر میں پینسٹھ فی صد اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت دست یاب ہے۔ باسٹھ
فیصد میں واش روم ہیں۔ اکسٹھ فی صد اسکولوں کی چار دیواری موجود ہے اور
اْنتالیس فی صد میں بجلی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ملک کے پینتیس فی صد
اسکول پانی جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں، اڑتیس فی صد اسکولوں میں
واش روم تک نہیں، انتالیس فی صد اسکول چاردیواری کے بغیر ہیں، ظاہر ہے ان
میں لڑکیوں کے اسکول بھی شامل ہیں، اور جناب! بجلی تو ہمارے یہاں ہے ہی
عیاشی، تو اگر اکسٹھ فی صد اسکول اندھیرے میں ڈوبے ہیں تو حیرت کیسی اور
مذمت کیسی۔
اس رپورٹ کے مطابق بنیادی سہولتوں یعنی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے ملک بھر
میں سب سے خراب صورتِ حال سندھ میں ہے، جہاں پینتیس فی صد سرکاری اسکولوں
کی عمارتیں موجود نہیں اور اسکول ہیں تو زیادہ تر کی چار دیواری نہیں ہے۔
سہولتوں کی عدم فراہمی کی یہ شرح خیبر پختونخواہ میں تئیس، بلوچستان میں
اٹھارہ اور پنجاب میں دس فی صد ہے۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پورے پاکستان میں تیس ہزار سرکاری اسکول
ایسے ہیں، جن کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں، لیکن ان اسکولوں کو حکومت کی
طرف سے بدستور فنڈز مل رہے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کی یہی حالت ہے جس کے باعث والدین اپنے بچوں کو ان کے اچھے
مستقبل کی آس میں نجی اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں اور پھر ان اسکولوں کی
من مانیاں برداشت کرتے رہتے ہیں۔ حکومت تو گویا تعلیم کی نج کاری کر چکی
ہے، اس لیے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ نجی اسکول کس طرح اور کن کن
طریقوں سے والدین کی کھال کھینچ رہے ہیں۔ حال ہی میں نجی اسکولوں کی جانب
سے فیس بڑھانے کے اقدام پر کچھ واویلا ہوا، لیکن یہ اسکول اپنی منوا کر ہی
رہے۔
نجی ادارے تعلیم فراہم کر رہے ہوں، صحت سے متعلق ہوں یا کوئی اور ایسی
سہولت فروخت کر رہے ہوں جو دراصل حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے، ان سے
گلہ کرنا فضول ہے، یہ ادارے سرمایہ لگاکر دولت کے ڈھیر بڑھانے کے لیے وجود
میں لائے جاتے ہیں، چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ان اداروں کو صرف
کاروباری مقاصد اور فوائد کے لیے قائم کیا جاتا ہے، شکوہ تو حکومت اور
ریاست سے ہے جو عوام کے حقوق کی حفاظت اور ان بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی
ذمے داری سے عملی طور پر سبکدوش ہوچکی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام
آدمی نجی اسکولوں، نجی اسپتالوں، نجی ٹرانسپورٹ، بورنگ کے پانی، منرل واٹر،
جنریٹر اور یوپی ایس کی صورت میں وہ بنیادی سہولتیں جن کی فراہمی ریاست کی
ذمے داری ہے خرید رہا ہے یا اپنے ذرائع سے حاصل کر رہا ہے۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو صرف حکم رانوں کے غیرضروری اخراجات اور تعیشات
کو کم کرکے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہے، لیکن حکم راں
تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تب ہی یہ ممکن ہے۔ جس پاکستان کی
تبدیلی اور جسے انقلاب سے آشنا کرنے کے نعرے لگائے جاتے ہیں، اس کا سنہرا
مستقبل اچھے سرکاری اسکولوں ہی میں تشکیل پاسکتا ہے، چار دیواری اور بجلی
سے محروم اسکول تو غیرمحفوظ مستقبل اور اندھیرے ہی جنم دے سکتے ہیں۔ |