میدان کربلا -ایک عظیم دانشگاہ

سانحہ کربلا - آج کے کشمیر کے لئے کیا سبق چھپا ہیں
مکتوب حجاز--تحریر ڈاکٹر شوکت الاسلام حاجن سوناواری کشمیر حال جدہ سعودی عرب
بے شمار فضلیت والا محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے –اسلامی تاریخ میں اس مہینے کو قربانی اور ایثار کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے –محرم کی یکم تاریخ سنہ ٢٤ ہجری کو ایک عظیم سانحہ رونما ہوا –خلیفہ ثانی سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ -٢٦ ذی الحجہ ٢٣ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی ابو لولوہ فیروز جو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا آپ پر حملہ آور ہو گیا -آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد جامِ شہادت نوش فرماگئے آپ نے دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دیئے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان كے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔خلافت راشدہ کا پورا دور ایک سنہری دور تھا لیکن اشاعت اسلام اور توسیح خلافت کا تابناک دورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہی دور رہا - دوسرا سانحہ ١٠ محرم الحرام ٦١ ھ کو پیش آیا –نواسہ رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اہل خانہ کی شہادت کا سانحہ – حضرت حسین رضی اللہ عنہ نا صرف ایک صحابی رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے-بلکہ خانوادہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے چشم چراغ بھی تھے - ولادت باسعادت کے بعدجب آپ کو اپنے نانارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم بہت مسرور ہوئے۔ بے پنا ہ محبت کااظہار فرمایا،دہن مبارک سے کجھور چبا کر حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں ڈالا۔ نام مبارک ’’ حسین ‘‘بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رکھا ، حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے کانوں میں توحید ورسالت ،فلاح وکامیابی،اطاعت وعبادت کاپہلادرس اذان واقامت بھی اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا- حلق عقیقہ اور ختنہ بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ہی کروایا ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : کان جسد الحسین یشبہ جسد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم:حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا جسم مبارک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے بہت مشابہت رکھتاہے- اور یہ مشہابت صرف جسمانی طور نا تھی بلکہ اس کے اثرات روحانی اور عملی طور بھی دیکھے گئے –آپ کا کردار ،حسن سلوک،صلہ رحمی .فہم فراست ،شجاعت بہادری ،علم عمل ،تقویٰ اور دیکر خصائل واضح طور سنت رسول کے مطابق تھا -جامع الترمذی میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے: حسن وحسین نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔" غرض اگر ہم عظمت و فضلیت حسنین کریمین بیان کرنا شروع کریں تو یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر ہزارور کی تعداد میں کتابیں لکھی گئیں ہیں اور لکھی جاسکتی ہیں –سانحہ کربلا کی یاد میں اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت ادا کرنے کے لئے مختلف محفلوں ، مشاعروں ، سیمناروں ، کا انقعاد کیا جاتا ہے سینہ کوبی کی جاتی ہے – جلسہ جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور شہادت حسین کا ماتم کیا جاتا ہے- خراج عقیدت کے نام پرنہایت ہی اوچھے اور گھناونے کام کئے جاتے ہیں - یہ خراج عقیدت ادا کرنے کا کون سا طریقہ ہے کہ عظیم صحابہ کو گالیاں دیں جائیں –خاکم بدہن لعن طعن کیا جائے –مختلف قسم کے خود ساختہ خرافات کا ارتقاب کیا جائے –ان لوگوں کے خلاف محاذ جنگ کھولا جائے جو دین اسلام کے اولین راوی ہیں –جنہیں سانحہ کربلا سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا –اور سب سے بڑی بات جن کے بارے میں قرآن کے واضح احکامات موجود ہیں --- رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلہ :۲۲)؛ "اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں ) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں ) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے".
- لَقَدْ رَضِیَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِینَةَ عَلَیْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا} (الفتح/ 18). (بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا) ، بیشمار احادیث میں بھی صحابہ کی عظمت ظاہر کردی گئی ہے – اور یہ کیسی محبت ہے اہل بیت کے ساتھ جس میں لوگ ان احادیث سے منہ موڑتے ہیں -
{لا تسبوا أصحابی، فوالذی نفسی بیده لو أنَّ أحدكم أنفق مثل أحد ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نصیفه}۔ (مسلم: 2540.)؛ ترجمہ: میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو، اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد( مٹھی) غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر
“لعن الله من سبَّ أصحابی” [حسَّنه الألبانی 5111 فی صحیح الجامع [ (ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہے۔ )
۔

معرکہ کربلا نا ذاتی لڑائی تھی نا یہ خاندانی رنجش تھی اور نا ہی یہ اقتدار کی جنگ تھی - یہ اصولوں پر قایم و دائم رہنے کا سبق تھا – یہ حق پر ڈٹے رہنے کی مثال تھی – یہ کمزور کو طاقتور کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کا واعظ تھا میں تو کہتا ہوں میدان کربلا ایک عظیم دانش گاہ تھی – ایک عظیم یونیورسٹی تھی ایک فلسفہ تھا –ایک سوچ تھی-اور شہدائے کربلا کو خراج تحسین ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم فلسفہ کربلا کو عام کریں اس کی پیروی کریں اس کی تقلید کریں کیونکہ جو جنگ کربلا میں بپا ہوئی ہوئی تھی – وہ جنگ ختم نہیں ہوئی – وہ جنگ ابھی بھی جاری اور ساری ہے – اب یہ جنگ کربلا کے حدود سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے – یہ جنگ کشمیر فلسطین ،شام ،عراق؛شیشان،افغانستان ،پاکستانی علاقوں وانا ، وزیرستان ،ہنوستان ، برما اور دوسرے مقامات پر پر جاری ہے -آج بھی وقت کا علی اصغر (برہان بشیر) کشمیر کے چوکوں اور چوراہوں میں جام شہادت نوش فرما رہا ہے-سانحہ کربلا نے عالم انسانیت کو ایک اور عظیم سبق دیا – جس کو یاد کرنے کی اتنی ضرورت آج سے قبل شاید کھبی نا تھی – جس سبق کو بھلانے سے صغیر پاک ہند میں خصوصی طور ظلم اور بربریت کا راج قائم ہے – جس سبق کے بھلانے سے ہمارے کشمیر کے مسائل میں خاصا اضافہ ہوا ہے – یہ سبق ہے -ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری خون آشامی اور موروثی نظام سیاست کے خلاف بغاوت – موروثی نظام سیاست نے ہمارے سیاسی اقدار کو پامال کرکے رکھا ہے - مین سٹریم سیاست تو تھی ہی چند گھرانوں کی پراوئٹ لمیٹڈ یعنی عبدللہ شیخ کے بعد اس کا بیٹا فاروق عبدللہ اس کے بعد عمر عبدللہ - ، مفتی سید کے بعد محبوبہ مفتی- وغیرہ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے یہی حال حریت کانفرنس کا بھی ہے -میرواعظ کشمیرشہید مولانا محمد فاروق کے بعد ڈاکٹر عمر فاروق صاحب – سید علی شاہ گیلانی صاحب کے بعد ان کے داماد اور ان کا فرزند ارجمند حریت کانفرنس کی قیادت کرنے کیلئے بلکل تیار ہیں –خواجہ عبدالغنی لون شہید کے بعد ان کے گھر کا چشم چراغ بلال غنی لون بھی اسی کشتی میں سوار ہیں - حالانکہ حسینیت کے نام پر جھوٹ موٹ کا رونا رونے والے عباس انصاری نے بھی اپنے بیٹے مسرور عباس انصاری کو اپنا ولی عہد مقرر کیا ہے –اوریہی حال آغا صاحبان کا ہے- کشمیری قوم کیلئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے – اگرہم آج یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ حق اور صرف حق کی خاطر لڑی گئی ، اور ہم حسینیت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں- تو ہمیں ان موروثی لیڈران سے جان بخشی کروانی چایئے - ہمارے مسائل کے حل کی یہ ایک ہی چابی ہے -
 
Dr.Showkat Ul Islam
About the Author: Dr.Showkat Ul Islam Read More Articles by Dr.Showkat Ul Islam : 9 Articles with 9510 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.