شہادت حسینؓ٬ ایک سانحہ بھی ، جادہ و منزل بھی
(Raja Muhammad Attique Afsar, )
اقوام وامم کی زندگیوں میں
سانحات نئے اسباق اور نئی راہیں لے کر آتے ہیں اور زندہ اقوام ان سانحات سے
حاصل کردہ سبق سے اپنے لئے منزل اور نشان منرل کا تعین کرکے اپنی راہ متعین
کرتی ہیں مگر افسوس کہ ہم ایسے ڈگر پہ رواں ہیں کہ مخصوص ایام کو کسی شخصیت
یا واقعہ سے منسوب کرکے بڑے ہی جذبے اورعقیدت و احترام سے مناتے ہیں ایک
نئے عزم کی تجدید کی جاتی ہے مگر دن گزرتے ہیں ماہ گزرتے ہیں اور گردش لیل
و نہار ہمیں اگلے برس پھر اسی مقام پر لے آتی ہے اور ہم پرانے عہد کی تجدید
کرتے رہ جاتے ہیں
ماضی کی طرح اس برس بھی محرم الحرام مذہبی عقیدت اورجذبے کے ساتھ منایا جا
رہاہے ۔10 محرم الحرام 63 ء ہجری کو پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں
تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔سیاسی، مذہبی ،سماجی تعلیمی اور کاروباری حلقوں
کی سرگرمیوں کامرکز و محور ذکر ِشہادت ِحسین ؓ ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی سے
تعلق رکھنے والے افراداپنے اپنے انداز میں آلِ رسولﷺ سے اپنی عقیدت
کااظہارکررہے ہیں دراصل سانحہ کربلا اپنی نوعیت کا منفردواقعہ ہے جس نے امت
مسلمہ کو ایسا زخم لگایا ہے جو 14 صدیاں بیتنے کے باوجود تاحال رستا ہے
اوراس کی تکلیف آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔یہ اس لحاظ سے ایک بڑا المیہ ہے کہ
نواسہ رسولﷺ اور جگر گوشہ بتول ؓ امام حسین ابن علیؓ کو اپنے مٹھی بھر
رفقاء واہل بیت کے ہمراہ فرات کے کنارے پیاس سے تڑپا یا گیا اورکیل کانٹے
سے لیس فوج کے ہاتھوں بے دردی سے شہید کر دیاگیا۔ اگر یہ واقعہ کسی غیر
مسلم حکومت یا فرد کی کارستانی ہوتی تواس واقعے پرامت کو صبر آجاتا لیکن اس
زخم کی سنگینی اس لئے زیادہ ہے کہ یہاں زخم لگانے والی تیغ و سناں
خودمسلمانوں ہی کی نیاموں سے نکلی تھیں اورواقعے کے ذمہ دارخود مسلمان
حکمران تھے گویا۔
خنجر نے میرے میرا ہی جگر چاک کر دیا
تکلیف چارہ سازی ٔزخم ِجگر گئی
اگر گہرائی سے اسلام کامطالعہ کیا جائے تو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے
پیچھے ایک ہی مقصد کار فرما ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو مخلوق خدا کی
بندگیوں سے رہا کرا کے اﷲ رب العباد کی بندگی میں دے دیا جائے، اسی لئے
اسلام میں داخل ہوتے وقت ہر طاغوت کاانکار لازمی ہے اور جوکوئی بھی لاالہ
الا اﷲ کااقرار کر لیتا ہے توہر طاغوت کا انکار کر دیتاہے اور بندگی
کامستحق صرف رب العباد کو ہی قراردیتا ہے اس اقرار کے بعد مخلوق خداکی
بندگی خواہ عبادت اصنام کی شکل میں ہو ، عبادت نجم و قمر و شجر کی صورت میں
ہو، ملک قوم برادری قبیلہ و رشتہ داری کے تقاضوں کی صورت میں ہو یا اپنی ہی
نفسانی خواہشات کی پیروی کے عفریت کی صورت میں ہو، کوپاؤں کی ٹھوکر سے اپنی
راہ سے ہٹا دیتا ہے اور صرف اﷲ رب العالمین کے احکامات کی پیروی کو مقصد
حیات بنا لیتاہے یہی وجہ ہے کہ اس اقرارکے بعد بندگی کے قرینے بدل جاتے ہیں
تفریق رنگ و نسل مٹ جاتی ہے ،دوستی و دشمنی کامعیار بدل جاتا ہے ، رشتے و
ناطے کا معیار نسب و خون کے بجائے اس اقرارکا ماننا اور نہ مانناقرارپاتا
ہے، مال و دولت کے حصول کے لئے حلال و حرام کے معیارات قائم ہو جاتے ہیں
ظلم و انصاف میں حد فاصل کھینچ لی جاتی ہے غرض لاالہ الا اﷲ کااقرار کر
لینا محض ایک نعرہ یاایک قول ہی نہیں رہتا بلکہ انسان کی انفرادی واجتماعی
زندگی کو اﷲ رب العزت کے احکام کا پابندبنا دینے کا ایک معاہدہ طے پاتاہے
جس کی پاسداری کے لئے اپنی راہ میں مزاحم کسی بھی رکاوٹ سے ٹکرانے سے گریز
نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اپنی جان مال عزت اور اہل و عیال کے نقصان و
قربانی کوخاطر میں لایا جاتاہے۔
اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں میں انقلاب پیدا کرتاہے
انہیں حوصلہ و ہمت عطا کرتا اور انہیں شجاعت کا درس دیتا ہے تاکہ وہ اپنی
راہ میں آنے والے ہر طاغوت کا مقابلہ کر سکیں ، دوسری طرف وہ شیطانی قوتیں
جو انسان کو مخلوق خداکی غلامی کا پابند کرتی ہیں اس انقلاب کے خلاف مزاحم
ہوجاتی ہیں اور ترغیب و ترہیب کا ہر حربہ استعمال کیاجاتا ہے یہیں سے رزم
حق و باطل کاآغازہوتا ہے اواہل ایمان کے سامنے دوہی راستے رہ جاتے ہیں۔
1) پہلا راستہ یہ کہ طاغوت کے جبرو استعداد کا مردانہ وارمقابلہ کیا جائے،
مصائب کو برداشت کیاجائے اور وقت آنے پر جان کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا
جائے۔
2) دوسرا راستہ اہل ایمان کے لئے یہ ہے کہ اگر وہ سمجھیں کہ اس معاشرے میں
رہتے ہوئے حالات ایسے بنادیئے گئے ہیں کہ اسلام کے احکامات پرعمل پیرا ہونا
محال ہو تو ایسی صورت میں اپنے مال و اسباب وعزیز واقارب کو چھوڑ کر ایسے
قطعہ ارض کی جانب سے ہجرت کر لی جائے جہاں احکام الہٰی پر کار بند رہنا
آسان ہو۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے مکہ میں کفار کے مظالم کے
سامنے سینہ تانے رکھا اور استقامت کا مظاہر ہ کیا پھر مدینہ منورہ کی طرف
ہجرت کی گئی کفار مکہ کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں جان و مال کا نذرانہ بھی
پیش کیااور مدینہ منورہ میں ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں حاکم ومحکوم
کا فرق مٹا دیا گیا رنگ و نسل کا امتیازختم ہوا اور حقوق و فرائض ، عدل و
انصاف علم و عمل کے دروازے ہرخاص و عام پرکھول دیئے گئے مدینہ منورہ میں
حاصل ہونے والی قوت اور غلبے کو دین کی سربلندی کے لئے بطور امانت خداوندی
استمال کیا گیا ہے حکومت کو ایک ذمہ داری تصورکیا گیا اور حکمران خدا اور
مخلوق خدا کے سامنے جوابدہ ٹھہرا، درحقیقت اس معاشرے میں حکمران نہیں ہوتا
تھا بلکہ وہ ریاست کے اجتماعی امور کا نگران و ذمہ دار ہوتا تھا گویا رسول
اﷲﷺ نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو نہ جغرافیائی حدودپر قائم تھی نہ
رنگ و نسل کی کسی بنیاد پر بلکہ یہ ریاست قرآن و سنت کے وضع کردہ اصولوں پر
قائم تھی جس کی ایک سمت اور ایک رخ متعین کر دیا گیا جس کا ہر فرد اوراور
ریاست اجتماعی طور پر انسانت کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خداکی بندگی میں
دینے کے لئے سرگرم و کوشاں تھے۔
عہدرسالت اور عہد خلافت راشدہ میں کئی ہزار مربع میل کے علاقے پر پھیلی
اسلامی حکومت نے بندگان خداکواﷲ کے احکام کے سوا کسی چیز کا پابند نہیں کیا
ریاست کے انتظامی امور شوریٰ کے ذریعے طے کئے جاتے ہر شخص کسی بھی ذمہ دار
پر بے لاگ تنقید کر سکتا تھا تنازعے کی صورت میں حکام خود عدالت میں فریق
کی حیثیت سے حاضرہوتے اور قاضی کے فیصلے کو دلی طور پر تسلیم بھی کیا جاتا
، بیت المال کو امانت کے طور پر فلاح امت پر خرچ کیاجاتا اور اپنے ذاتی
تصرفات میں استعمال نہ کیا جاتا کئی ہزارمربع میل پرحکمرانی کرنے والے
خودکو قانون کاپابند سمجھنے اور قانون کی حکمرانی قائم رکھتے یہی وجہ ہے کہ
حکمران عوام کے ہر مسئلے میں ان کے پاس موجود ہوتا ہے اور ان کے مسائل ان
کی دہلیز پرحل ہوتے، خلفاء راتوں کو گشت کرکے عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل
کرتے اورلوگوں کے مسائل حل کرتے ، تنازعات میں ان کے فیصلے کرتے اور اگر ان
کے ساتھ کسی کا تنازعہ ہوتا تو عدالت میں بطور فریق حاضر ہوتے ۔ ریاست کا
کوئی بھی فرد کسی بھی محفل میں سرعام انکا احتساب کر سکتا تھا ۔
صدافسوس کہ خلافت راشدہ کے بعد یہ سلسلہ برقرار نہ رہ سکا اسکی وجہ یہ تھی
کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کو ملوکیت میں تبدیل کر دیاگیا اور یہ مقدس
ادارہ ایک گروہ ، قبیلے اور شخص کے ہاتھوں یرغمال ہو گیا ۔ملوکیت کی ابتداء
یزید کی تخت نشینی سے ہوئی جسے حضرت امیر معاؤیہ رضی اﷲ عنہ نے اپنے بعد
ولی عہد نامزد کر دیا ۔یزید عامۃالناس میں اچھی شہرت کا حامل نہیں تھا اور
اسکا انتخاب شوری کے بجائے مورثی بنیادوں پر ہوا تھا یہ تخت نشینی دراصل
اعلان تھا بنوامیہ کی حکومت کا حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے اس مقصد کو بھانپ
لیا۔حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ ملوکیت کے قیام سے
فردواحد کی حکمرانی کا قیام عمل میں آئے گا اور انسانیت ایک بار پھر
انسانوں کے ہاتھوں غلام بن جائے گی ۔یزید کی تخت نشینی محض حکمران کی
تبدیلی نہیں تھی بلکہ اسکے نتیجے میں اسلام کی بنیاد یں کھوکھلی ہو رہی
تھیں ۔حضرات امام حسین رضی اﷲ عنہ نے وقت کے اس جبر کے خلاف آواز بلند کی
اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے اصلاح احوال کی کوشش کی تاکہ جاہلیت جو
مردہ ہو چکی تھی دوبارہ زندہ نہ ہو نے پائے کیونکہ اب نبوت کا دروازہ بند
ہو چکا اور مخلوق خدا کو جاہلیت سے نکالنے کی ذمہ داری علماء اور صالحین پر
عائد ہوتی ہے اس لئے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے اس طاغوت کے سامنے سر تسلیم
خم کرنے کے بجائے اپنے مطالبات پیش کئے جو یہ ہیں ۔(1 ) یزید کا انتخاب
شورائی انداز میں ہو نہ کہ موروثی بنیاد پر، (2) فردواحد کو ریاستی امور کے
فیصلوں کا اختیار دینے کے بجائے نظام حکومت شورائی انداز میں چلایا جائے
۔(3) ہر شخص کو حکومتی نظم و نسق پر بے لاگ تنقید کی آزادی دی جائے ، (4)
کوئی بھی شخص خدا اور مخلوق خدا کے سامنے جوابد ہی سے بری الذمہ نہ ہو
،(5)بیت المال کو ذاتی جاگیر بنانے کے بجائے امانت سمجھ کر استعمال کیا
جائے ، (6)شخصی حکومت کے بجائے قانون کی حکمرانی ہو ،(7)تمام لوگوں کے لئے
قانون کے نفاذ میں مکمل مساوات ہو ۔
اگر مطالبات کو بنظر غائر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان مطالبات کی
کوئی ذاتی غرض نہیں تھی بلکہ حکومت کو اصولوں کی طرف دعوت دینا مقصود تھا ۔
یہ مطالبات خالصتاً دینی غرض اور اصلاح احوال کے لئے پیش کئے گئے تھے ۔اگر
یزید اور اسکے مشیران ان مطالبات کو تسلیم کر لیتے تو امت مسلمہ خلافت علی
منہاج النبو ۃ کے ثمرات تادیر سمیٹتی اور یہ عظم سانحہ رونما نہ ہوتا لیکن
طاقت کے گھمنڈ میں آکر حکومت وقت نے نہ صرف مطالبات کو ماننے سے انکار کیا
بلکہ ترغیب و ترھیب کے اوچھے ہتھکنڈوں سے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو
دبانے کی کوشش کی اور بالآخر دریائے فرات کے کنارے بھوک اور پیاس کی حالت
میں آپؓ کو اپنے 72ساتھیوں سمیت بے دردی سے شہید کر دیا ۔ اناﷲ و انا الیہ
راجعون۔
سانحہ کربلانے جہاں ایک گہرے زخم کی صورت میں امت مسلمہ کوایک صدمے سے
دوچارکیاہے وہیں امت کے مستقبل کے لئے جادہ و منزل بھی متعین کردیا ، اسلام
کو نئی روح عطاء کی اور مسلمانان عالم کو سیاست ، معاشرت ، معیشت اور مذہب
کے حوالے سے نئی راہ دکھائی۔ حضرت حسین ؓ نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی
قربانی دے کر بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لئے راستے کا تعین کر دیا اور
اپنے پیچھے امت کے لئے و ہ سبق چھوڑ گئے جو امت مسلمہ کے لئے جادہ ومنرل کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔ سب سے بڑا سبق جو ہمیں اس قربانی سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ
ظلم و جبر کا ارتکاب خواہ غیر مسلم کریں یا مسلم حکمران اسکے خلاف کمر بستہ
و صف آراء ہونا امت مسلمہ خصوصاً علماء کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ ثانیاً
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کی تعلیمات پر ہے مسلمان
حکمران کی ہر روش کواسلامی تعلیمات پر پرکھنا چاہئے ۔اگر وہ اس کے مطابق ہے
تو قابل اتباع ہے ورنہ اصلاح کی کوشش کی جائے ۔ ثالثاً اصلاح احوال کی کوشش
دینی فریضہ سمجھ کر کرنا چاہئے نہ کہ اپنی کسی غرض و غایت اور مفاد کو
سامنے رکھتے ہوئے رابعاً اصلاح احوال سے باز رکھنے کے لئے عزت و مرتبے اور
مال و دولت کی پیشکش بھی ہوتی ہے لیکن ایک مصلح کو کسی بھی قسم کی مفاہمت
نہیں کرنا چاہئے اور اجتماعی مفادات اور دینی تعلیمات کو اولیت دینا چاہئے
۔ خامساً اصلاح احوال سے روکنے کے لئے مصائب و آلام سے بھی سامنا ہو سکتا
ہے ان مصائب کا دلجمعی اور استقامت سے مقابلہ کرنا چاہئے اور کسی بھی
قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے سادساً اصلاح احوال کی کوشش میں صبر و تحمل
کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس کے
نتیجے میں فساد برپا ہونے کا امکان ہو اور مسلمانوں کے گروہ آپس میں دست و
گریباں ہو جائیں ۔ کسی بھی صورت میں بے گناہ اور غیر متحارب افراد کہ اذیت
کا نشانہ نہ بنایا جائے نہ قتل کیا جائے دین کے غلبے کے لیے کوئی ایسی
تدبیر اختیار نہ کی جائے جو شریعت اسلامیہ کی بنیادی تعلیمات سے متصادم
ہوجیسے تکفیر ِمسلم ، قتل مسلم ، لوٹ گھسوٹ وغیرہ ۔ سابعاً ہر صورت جنگ سے
گریز کرنا چاہیے لیکن اگر یہی آخری چارہ ہو تو جان کی پرواہ کئے بغیر اس
راہ سے گزر جانا چاہئے ۔ثامنا امت کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ وہ ہر اس قوت کا ساتھ دے جو حق کی علمبردار ہو اور ایسی صورتحال میں
خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے ۔لیکن کسی ایسی تحریک کا حصہ نہ
بنا جائے جس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ دشمن ِاسلام کو فائدہ پہنچتا ہو اور
مجموعی طور پہ ملت اسلامیہ کا نقصان ہوتا ہو ۔دانستہ یا نادانستہ دشمن کا
آلہ ٔکار نہیں بننا چاہیے۔
اگر ہم امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال کا موازہ سانحہ کربلا کی صورت حال سے
کریں تو یہ بات عیاں ہے کہ امت مسلمہ سے وابستہ ہر ملک میں ایسے حکمران
مسلط ہیں جو امت مسلمہ کے اجتماعی مزاج کے خلاف اس امت کی تقدیر کو ہانک
رہے ہیں کہیں فوجی کہیں سول اور کہیں جمہوری آمریت کے ذریعے اقتدار اعلیٰ
پر قابض ان حکمرانوں نے امت کورنگ ونسل زبان و وطن کی لکیروں سے تقسیم کر
رکھا ہے ۔اصلاح احوال کے حوالے سے کی جانے والی کسی بھی کوشش کے ساتھ وہی
سلوک کیا جاتا ہے جو لشکر حسینی کے ساتھ کیا گیا تھا ۔ ان حالات کی نزاکت
امت مسلمہ کے ہر مصلح کو دعوت دے رہی ہے کہ حضرت حسین ؓ کے اسوہ کو اپنا تے
ہوئے یزیدیت جدیدہ کے ہر چیلنج کو قبول کیا جائے اور رسم شبیری ادا کرتے
ہوئے امت مسلمہ کو درپیش مصائب سے نجات دلائی جائے ۔ یہ حالات اسلامی ممالک
میں بسنے والے ہر فرد سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسوہ حسینی کی پیکر
تحریکات کا ساتھ دیا جائے اور محض تماشائی کا کردار ادا نہ کیا جائے ۔ اگر
امت مسلمہ کے علماء ، سیاست دان اور عام افراد اسوہ حسینی پر عمل پیرا ہو
کر جبر واستداد کا مقابلہ کریں تو امت مسلمہ اس بحران سے نکل سکتی ہے اور
خلافت علی منہاج البنوۃ کے ثمرات اس دور میں بھی سمیٹے جا سکتے ہیں ۔ اﷲ
تعالی امت مسلمہ کو ان کے اصل مقصد سے آشنا کر کے اسکے حصول میں کامیاب
کرے۔آمین
|
|