نامورفٹبالرز کو روبوٹس سے شکست دینے کا منصوبہ

 سائنس دان ورلڈ کلاس پلیئرز کو 2050میں روبوٹک ساکر ٹیم سے ہرانے کےلئے متحرک

فٹ بال کو دنیا بھر میں مقبول ترین کھیل کی حیثیت حاصل ہے جو کہ دنیا بھر کے دو تہائی ممالک میں کھیلا جاتا ہے۔کھیلوں کے عالمی شائقین کی اکثریت لیونل میسی ، کرسٹینو رونالڈو ، پیلے، جارج بیسٹ، رونالڈو، ڈیوڈ بیکھم ، رونالڈینہو ، زنڈان زیدان ،نیمار،وائن رونی ، گیرتھ بیل ،لوئس سواریز، فلپ لیہم ،مینوئل نیور، کاکا،سرجیو راموس ، بوبی چارلٹن، ایلیکس سانچیز ،رابرٹو کارلوس اور درجنوں ایسے ہی مقبول فٹ بالرز کے ناموںسے آگاہ ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جو دنیابھر میں نہ صرف فٹ بال کے شائقین کے پسندیدہ ہیں بلکہ صرف ٹورنامنٹس میں اس کھیل سے لطف اندوز ہونے والے شائقین بھی ان ناموں سے بڑی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ تاہم اب وہ وقت دور نہیں جب جیتے جاگتے ہیروز کی جگہ روبوٹ فٹ بالرز لے لیں گے۔روبوٹ فٹ بال کا آئیڈیا سب سے پہلے کوریا میں1995میں سامنے آیا جس کے بعد سے ہر سال پابندی کے ساتھ بین الاقوامی چمپیئن شپ کا انعقاد ہوتا ہے۔شائقین فٹ بال کے لئے تشویش کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ روبوٹک فٹ بال میچز کرانے کی ذمہ دار بین الاقوامی تنظیم ” فیڈریشن آف انٹرنیشنل روبوٹ۔ساکر ایسوسی ایشن “ کا مشن یہ ہے کہ2050تک انسانوں کی فٹ بال ٹیم کو شکست دی جائے۔

روبوٹ فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد سنگاپور میں دسمبر2005میں منعقد کرایا گیا تھا جس میں مختلف ملکوں کے سیکڑوں روبوٹس نے فٹ بال گراﺅنڈ میں اس کھیل میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا۔روبوٹ فٹ بال میں کیمپیوٹر پروگرامنگ سے لے کر مکینیکل ڈیزائن تک انجنیئر نگ کے تمام شعبوں کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔روبوٹ فٹ بال ٹیمیں اکثر یونیورسٹیز میں ریسرچ پرجیکٹس کے تحت تخلیق کی جاتی ہیں۔برطانوی روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق آسٹریلیا میں نیو ساﺅتھ ویلز یونیورسٹی پر سائنس اینڈ انجنیئرنگ کے ایک پروفیسر کلاﺅڈ سمیوٹ نے ستمبر2010میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ان کی ٹیم بہت جلد اس قابل ہو جائے گی کہ ان کی بنائی ہوئی خود کار روبوٹ کی ساکر ٹیم مستقبل کے اسٹار کھلاڑیوں کو میچز میں شکست دے سکے گی۔کلاﺅڈ سمیوٹ ایک پروجیکٹ ” روبوکپ“ پر کام کر رہے تھے جس میںروبوٹس کو اس طرح پروگرام کیا گیا تھا کہ فٹ بال کس طرح کھیلی جاتی ہے۔ جرنل ” ولی انٹر ڈسپلنری ریویو آن کاگنیٹیو سائنس “ میں اپنی ریسرچ میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ روبوٹ کو بال پر کنٹرول کرنا سکھانا بہت زیادہ مشکل ہے ۔ تاہم انہیں یقین ہے کہ ایک روزان کے تیار کئے گئے روبوٹس انہی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے جیسے گراﺅنڈ میںوائن رونی اورلیونل میسی جیسے ورلڈ کلاس ساکر پلیئرز کرتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ1968میں جان میک کارتھی اور ڈونلڈ مشی نے اس وقت کے سکاٹش شطرنج چمپیئن ڈیوڈ لیوی سے شرط لگائی تھی کہ صرف10سال میں ایک کمپیوٹر پروگرام انہیں شکست دے سکے گا۔اس شرط کو پورا ہونے میں 10سال کی بجائے30سال لگے تاہم ایسا کمپیوٹر پروگرام تخلیق کر لیا گیا جس نے شطرنج کے عالمی چمپیئن کو شکست دے دی۔

اسی عظیم الشان چیلنج کو دیکھتے ہوئے ” روبوکپ“ کی کامیاب تکمیل کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس پر باقاعدہ ایک مشن کے تحت کام ہو رہا ہے۔ساکر ہیروز کی ٹیم کو 2050تک انسان نما روبوٹس کے ذریعے شکست سے دوچار کرنے کے لئے دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیز میں سائنس دان اور اسٹوڈنٹس روبوٹس کو مختلف داﺅ پیچ سکھانے میں مصروف ہیں۔ سب سے اہم مرحلہ روبوٹس کو سمجھ بوجھ اور کسی عمل کا ردعمل دینے کی تربیت فراہم کرنی ہے۔ گراﺅنڈ میں اترنے والی روبوٹ ٹیم قطعی طور پر خودکار ہوتی ہیں۔ ان کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی روبوٹ پلیئر اپنی جانب آنے والی گیند پر کنٹرول کے لئے اپنی رفتار اور اپنے ساتھی پلیئر کو پاس دینے کے لئے کک کی طاقت کا اندازہ خود لگاتا ہے۔ایمپائر کی وسل سن کر گیند کو واپس زمین پر رکھنا، ڈی میں جا کر پینلٹی یا پینلٹی اسٹروک حاصل کرنے کی کوشش بھی خودکار طریقے سے ہوتی ہے۔روبوٹ ساکر میں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ہوگی کہ یہ روبوٹ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سسٹم کا ملغوبہ ہے۔ اس کو کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچانے کے لئے سنسرز، محرکات، انرجی، اسٹوریج اور میٹرئیلز کو بھی ایڈوانس سطح تک پہنچانا ہو گا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ روبوکپ کی اس دوڑ میں پاکستانی یونیورسٹیز بھی شامل ہو گئی ہیں۔بلا شبہ پاکستانی فٹ بالر عا لمی ٹورنامنٹس میں حصہ لینے کے کئے کبھی بھی کوالیفائی نہیں کر سکے تاہم پاکستان میں بنی روبوٹس کی ایک فٹبال ٹیم نے22جولائی2015کو چین کی زہے جیان یونیورسٹی میں ہونے والا عالمی کپ کھیلنے کے لیے کوالیفائی کرلیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب جنوبی ایشیا سے کوئی ٹیم پہلی بار اس مقابلے میں اتری۔جاپان کی بچوں کے قد والی انسان نما روبوٹ کی ایک ٹیم نے روبوکپ ورلڈ چمپیئن شپ جیت لی۔ جاپان کے چھیبا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی روبوٹک ٹیم ” دی برینز کڈز “ نے چین کی زہے جیان یونیورسٹی کی ٹیم ” زیڈ جے ﺅ ڈانسر“ کو 1-0سے شکست دے کر یہ ٹورنامنٹ جیتا۔ انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ہارٹفورڈ شائریونیورسٹی کی ٹیم ایک سخت مقابلے کے بعد فرانسیسی ٹیم سے دوسرے راﺅنڈ میں 2-0سے ہار گئی۔چین کی ٹیم ” واٹر“نان انسانی روبوٹس کی مڈل لیگ بآسانی جیت گئی۔

امریکی سائنس دانوں اور اسٹوڈنٹس نے” ٹی ایچ او آر “(Tactical Hazardous Operations Robot) روبوٹ اس مقابلے میں میدان میں اتارے تھے جنہوں نے روبوٹ ساکر ورلڈ کپ جیت کر تاریخ رقم کی۔روبو کپ میں 40سے زائد ممالک کی 400ٹیموں نے حصہ لیا ۔یو سی ایل سی اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے اسٹوڈنٹس مشترکہ طور پر5فٹ لمبے اور119پونڈ وزنی انسان نما روبوٹس کی ٹیملے کر آئے تھے۔ان خودکار روبوٹس کو اس طرح پروگرام کیا گیا تھا کہ وہ آزادانہ طور پر کھیلتے ہوئے نقل و حرکت کر سکیں۔ان روبوٹس نے مقابلے میں شرکت سے قبل امریکی حکومت کے زیر انتظام ” روبو اولمپکس “ میں بھی حصہ لیا تھا۔ٹیم ٹی ایچ او آر نے روبوٹ ساکر ورلڈ کپ جیتنے کے علاوہ روبو کپ کے لوئس ویوٹن کپ بیسٹ ہیومنائیڈ ایوارڈ بھی حاصل کیا جو اسے مصنوعی انٹیلی جنس اور روبوٹکس میں ایڈوانس مظاہرہ کرنے کے اعتراف میں دیا گیا۔ بلا شبہ ان مقابلوں میں امریکہ ، آسٹریلیا اور جاپانی روبوٹس نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ امریکہ کو ” روبوٹ ساکر ورلڈ کپ “ جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ انیسویں روبو کپ گیمز میں آسٹریلین روبوٹس نے کامیابی حاصل کی۔ روبوٹ فٹبال ورلڈ کپ میں400 ٹیموں کے روبوٹس نے ساکر میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔۔ شائقین کی بڑی تعداد نے روبوٹ فٹبال ورلڈ کپ کو انجوائے کیا جہاں انسانوں کی بجائے روبوٹس نے گیند کو جال کی راہ دکھائی۔جیتنے والے ٹیم کے ممبر شین ہیرس کا کہنا ہے کہ تمام ٹیموں کے روبوٹ ایک جیسے تھے لیکن ان کے روبوٹ دوسری ٹیموں سے تیز تھے، روبوٹ فٹبال ورلڈ کپ کے علاوہ ایونٹ میں دوطرح کے روبوٹ توجہ کا مرکز بنے رہے۔جس میں تلاش اور بچاو ¿ کے ساتھ انسانی ماحول میں کام کرنے والے روبوٹس شامل تھے۔

یہ امر پاکستانیوں کے لئے باعث اطمنان ہونا چاہئے کہ ہمارے ہم وطن سائنس دانوںا ور اسٹوڈنٹس نے ایک ایسے مقابلے میں حصہ لینے کے لئے کوالیفائی کیا جہاں قبل ازیں صرف یورپ و امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کی اجارہ داری قائم تھی۔پاکستانی ٹیم کو اِس نوعیت کے مقابلے میں شرکت کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی ٹیم کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے ۔ فوج کی نگرانی میں چلنے والی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ کی تیار کردہ روبوٹ فٹبال ٹیم نے ٹیکنالوجی کی دنیا کے سب سے بڑے مقابلے روبوکپ کے لیے کوالیفائی کرکے ثابت کردیا ہے کہ مواقع اور وسائل ملنے پر وہ کِسی سے کم نہیں ہیں۔ اسلام آباد یونیورسٹی کی جانب سے روباٹِکس اینڈ آرٹیفِشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کے شعبے کے اپنے طلبہ کو 6 روبوٹ فراہم کئے تھے جو کہ اسٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کے معیار پر پورے ا ±ترتے تھے۔‘ سٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کی خاصیت روبوٹ کھلاڑی کی خودمختاری ہے۔ ا ±س میں اتنا شعور پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ میدان میں اترنے کے بعد خود فیصلے کر سکے کیونکہ کھیل کے دوران اسے باہر سے کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ توقع ہے کہ اگلے سال ہونے والے روبو کپ مقابلے میں مزید پاکستانی یونیورسٹیز کی ٹیمیں حصہ لے کر وطن عزیز کا پرچم عالمی میدانوں میں بلند کریں گی۔ (یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکا ہے)
 
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77866 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More