دنیا میں جتنی بھی ریاستیں قائم
ہوئی ہیں خواہ خون کے دریا عبور کرنے اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار قائم
کرنے کے بعد ہوئی ہوں یعنی ظلم وجور جن کی بنیاد ہو یا کسی نظریئے یا مذہب
کی انشاء کیلئے انصاف کی بنیاد پر قائم ہوئی ہوں ہمیشہ دو قسم کے گروہ اس
کی تعمیر و ترقی اور بقاء میں ممدومعاون رہے ہیں ایک گروہ جو اس کی بنیادی
اساس کے علم کو بلند کئے رکھتا ہے، دوسرا گروہ جو سیاست مدنی کے مختلف
شعبوں میں ترقی کیلئے کوشاں رہتا ہے گویا یہ دو گروہ ریاست کی ترقی وبقاء
کیلئے لازم وملزوم ہیں دونوں کے راستے بظاہر جدا ہیں لیکن منزل ایک ”ریاست
کی بقا“ دونوں کی افادیت مسلّم ہے، اگر ریاست پر کوئی افتاد آپڑے تو ان
دونوں گروہوں کو مل کر ریاست کی بقاء کی جنگ لڑنا پڑتی ہے، ایسا نہیں
ہوسکتا کہ سیاست مدنی کے شعبوں میں کام کرنے والا گروہ دوسرے گروہ سے کہے
کہ چونکہ ریاست کی بنیادی اساس کا علم تمہارے ہاتھ میں ہے لہٰذا دفاع کا
فریضہ بھی تمہارا ہے یا بنیادی اساس کا علم اٹھانے والا گروہ دوسرے گروہ کو
یہ فریضہ سونپے، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ ریاست کی بقاء اسی میں مضمر
ہے کہ دونوں گروہ یک جان ہوکر یہ فریضہ انجام دیں تب ریاست قائم رہ سکتی ہے
ہاں اگر ریاست کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہر طرف امن و چین ہے تو پھر ہر ایک
گروہ اپنی اپنی ڈیوٹی پوری کرے کیونکہ اس وقت ان میں سے ہر گروہ کا اپنے
اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ریاست وقوم کی خدمت ہے۔
ایسا آج تک ہوتا آرہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا، نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو چونکہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا اس لئے
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایسے ساتھی عطا کئے
جو ان دونوں گروہوں کی صلاحیت سے مالا مال تھے، سیرت کی کتب میں آپ کو کچھ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین صفہ کے چبوترے پر اسلامی ریاست کی
بنیاد یعنی شریعت مطہرہ کو سنبھالتے نظر آئیں گے اور کچھ صحابہ کرام رضوان
اللہ علیھم اجمعین دیگر امور میں مصروف نظر آئیں گے۔ خود نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم اسلامی ریاست کیلئے ایسے رجال کار تیار فرما رہے تھے جو
ریاست کو ہر شعبے میں خودکفیل بناسکیں، ایک غزوہ کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر
کیا گیا کہ وہ کچھ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین جو ناخواندہ تھے کو
پڑھائیں، کسی صحابی کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم فرما رہے ہیں کسی کو حکم
فرما رہے ہیں کہ فلاں قبیلے والوں سے تیر و تلوار بنانا سیکھ لو کیونکہ ان
کی تلواریں عمدہ ہوتی ہیں غرض اس طرح کے احکامات اسلامی ریاست کو خودکفیل
اور مضبوط بنانے کیلئے دیئے گئے تاکہ اسلامی ریاست کسی بھی شعبے میں اغیار
کی محتاج نہ ہو لیکن جیسے ہی اس اسلامی ریاست کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق
ہوا سب صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اس کے سدباب کیلئے اکٹھے کوشاں
نظر آتے ہیں۔ کامیاب اسلامی ریاست کا قیام اسی طرح ہوا کرتا ہے کہ جب اس کے
پاس ہر فن کے رجال کار ہوں۔ سیاست مدنی کے عقدے سلجھانے والی شخصیات ہوں،
ریاست کی حفاظت اور اس کی سالمیت کی بقاء کیلئے فن حرب کے ماہر ہوں، غرض
ایک کامیاب اسلامی ریاست کیلئے یہ دو گروہ لازم ملزوم ہیں۔ ایک گروہ جو
حقیقی علم حاصل کرے حقیقی علم وہ جو ذات حق تک پہنچائے اس کے اوامرونواہی
سے روشناس کرائے۔ ایسے گروہ کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے ”
لیتفقھوافی الدین“ اس آیت میں صاف فرما دیا کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو
جو دین کا علم حاصل کرے، شریعت کو سیکھے پھر یہ گروہ اُن افراد کو یہ دین
سکھائے جو ریاست کی بقاء کیلئے مصروف ہیں خواہ وہ میدان جنگ میں ہوں یا ملت
کے دوسرے اجتماعی کاموں میں مصروف ہوں، کیونکہ مسلمان دنیا میں آیا ہی اسی
مقصد کیلئے ہے، یعنی اللہ کے دین کو سربلند کرنے کیلئے،گھروں میں بے کار
بیٹھنے کیلئے نہیں آیا۔ بعض مفسرین نے اس آیت کنتم خیرامة اخرجت للناس کے
یہ معنی بھی لئے ہیں کہ ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی
صلاحیتوں کو ملت کیلئے وقف کرے یعنی اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذات
اپنی صلاحیت کوملت کے حوالے کردے تاکہ اس کی ذات وصلاحیت سے لوگوں کو نفع
پہنچے، اپنے آپ کو بند خول میں محصور نہ رکھے بلکہ اپنا ذہن وسیع رکھتے
ہوئے بلند مقاصد کو مدنظر رکھے، اگرعلم دین کیلئے وقف نہیں ہوسکتا تو اپنے
آپ کو دوسرے گروہ میں شامل کرلے جو ریاست کیلئے اور انسانیت کی فلاح کیلئے
مختلف فنون حاصل کرنے میں مصروف ہیں جب کسی فن میں کمال حاصل کرلے کوئی
صلاحیت اپنے اندر پیدا کرلے تو بے کار مت بیٹھے، تھوڑے سے دنیوی منافع کو
پیش نظر رکھ کر اپنے آپ کو اجتماعیت ملی سے دور نہ رکھے ورنہ موج ہے دریا
میں بیرون دریا کچھ نہیں
مسلمانوں میں ایسے دو گروہ شروع سے چلے آرہے ہیں اور دونوں گروہوں نے اپنی
اپنی عظمت کا سکہ چہار دانگ عالم چمکایا، علم کے ایسے ایسے جبال پیدا کئے
جن کی عظمت کی بلندی کو دیکھنے والوں کے سروں سے ٹوپیاں گرجایا کرتی تھیں،
کفر بھی جن کی عظمت کے گُن گانے پر مجبور ہوگیا اسی طرح فنون لطیفہ خواہ وہ
سائنس ہویا ریاضی ہر فن میں ملت اسلامیہ نے ایسے ایسے گوہر روشناس کرائے جن
کی نظیریں پیش کرنے سے اقوام عالم معذور ہیں۔ یورپ کی چکاچوند ترقی اسلام
کے انہی ستاروں کی چمک اور ان کے علم سے خوشہ چینی کی بدولت ہے، انہی دونوں
گروہوں کو آجکل عرف عام میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے اور عصری علوم حاصل
کرنے والا کہا جاتا ہے کیونکہ ہمیشہ ریاست اسلامیہ کو اپنی بقاء و ترقی
کیلئے انہی میں سے رجال ملتے رہے ہیں خواہ کسی شعبے میں بھی ضرورت پڑی۔ گر
وہ اول یعنی دینی علم رکھنے والے گروہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گروہ ثانی
کی رہنمائی کرے۔ معاشرت کا شعبہ ہویا معیشت کا، انتظام ملکی ہو یا خارجی،
شریعت کی تعلیم کردہ راہ کی نشاندہی کرنا گروہ اول پر فرض ہے اور پھر گروہ
ثانی کا اس راہ پر بلاچون چرا گامزن ہوجانا بھی فرض ہے بظاہر دونوں گروہوں
کے میدان الگ الگ ہیں لیکن مقاصد ایک ہیں دونوں ایک ہی ملت کے افراد ہیں
لیکن بدقسمتی سے انگریز ملعون نے برصغیر میں دونوں کے درمیان اتنی بڑی خلیج
پاٹ دی ہے جسے پُر کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے حالانکہ ان کے درمیان
اخوت ومودّت کا تعلق بہت مضبوط ہونا چاہئے تھا کیونکہ ان کی منزل ایک ہے
لیکن ناس ہو گورے انگریز کا عصری علوم والوں سے ان کی منزل ہی اوجھل کردی،
پروپیگنڈہ اتنا زور شور سے کیا گیا کہ چھ سال کی عمر سے لے کر ان فنون سے
فراغت تک بچے کے ذہن میں یہی بات راسخ کی جاتی ہے کہ تم ان فنون کو روٹی
کپڑا مکان کیلئے حاصل کررہے ہو، تمہاری کوٹھی بڑی ہو، کھانا فائیوسٹار ہوٹل
کا ہو، تم ڈاکٹر بنو یا انجینئر مقصد پیسہ بنانا ہے تاکہ دنیا کی تمام
آسائشوں کو حاصل کرسکو، کنتم خیرامة اخرجت للناس کا مقصد ان کے ذہنوں سے
محو کر دیا گیا کہ اگر ایسا کرو گے کہ ان درویشوں کے کہنے پر چل نکلے تو
مذکورہ آسائشوں سے محروم رہ جاﺅ گے، اب جس بچے نے ان فنون میں مہارت تامہ
حاصل کر کے گروہ اول کی رہنمائی میں ملک وملت اور انسانیت کی فلاح کا عظیم
کام سرانجام دینا تھا اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اپنے مقصد کو ہی بھلا چکا
ہے، ماں کی گود(جو اس کی پہلی درسگاہ تھی اور جہاں اسے دین وملت کی محبت کا
درس ملنا تھا) سے جو سبق شروع ہوا کہ بیٹا ڈاکٹر انجینئر بن کر پیسے کمانا،
بڑا گھر بنانا،سکول کالج تک یہی سبق رٹایا گیا جبکہ دینی علوم کا متلاشی
ناظرہ قرآن کریم کی ابتداء ہی سے یہ سبق پڑھتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ
کی رضا کیلئے حاصل کرنا ہے اور پھر اس کی رہنمائی میں فلاحِ انسانی کے عظیم
مقصد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے خواہ اس کے لئے کتنی تکلیفیں اٹھانا
پڑیں، فاقے برداشت کرنا پڑیں اپنے مقصد کو نہیں بھلانا، کنتم خیرامة کی آیت
اسے مقصد اصلی کی نشاندہی کراتی رہتی ہے۔ قرون اولیٰ میں یہ گروہ تعاونِ
باہمی کے ذریعہ ملک وملت کی ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور
ان خدمات کے ذریعہ ریاستِ اسلام کا سکہ دنیا کے بیشتر حصے پر چلاچکے ہیں،
ماضی قریب میں بھی یہ گروہ اپنے بُعد کے باوجود کارہائے نمایاں سرانجام دے
چکے ہیں، تحریک پاکستان ہو یا کوئی اور تحریک جب یہ دونوں گروہ اپنی دوریاں
مٹا کر اکٹھے ہوئے تو قوم کی تقدیر بدل ڈالی، دشمن کو منہ کی کھانا پڑی
لیکن حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ کئی بار کے تجربات اورٹھوکروں کے
باوجود کچھ نااندیشوں کی بدولت یہ گروہ اپنے درمیان بعدالمشرقین جتنی
خلیجیں پیدا کرچکے ہیں جس میں زیادہ قصور گروہ ثانی کی سربرآورد شخصیات کا
ہی رہا، دینی گروہ کے سرخیل تو ہمیشہ اس گروہ کو صحیح رخ پرگامزن کرنے کی
سعی کرتے رہے۔ حضرت تھانوی علیہ الرحمة اور ان کے رفقاء کرام کی کوششیں اس
ضمن میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور تاریخ ہندوستان کے صفحات اس کے گواہ،
گروہ ثانی نجانے کیوں گروہ اول کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی
رہنمائی کا فریضہ اسی دینی گروہ کو سونپا گیا ہے۔ العلماءورثة الانبیاءکی
حدیث واضح طور پر بتلارہی ہے کہ علماءہی انبیاءعلیہم السلام کے بعد قوم کی
رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اب ہر شخص کو خواہ وہ سیاست مدنی کے
کسی شعبہ سے بھی منسلک ہو انہی علماءسے رہنمائی لینا ہوگی ۔دونوں گروہوں
کوتو آپس میں ریشم کی طرح نرم ہونا چاہئے بقول شاعر
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
آج کل معاملہ برعکس ہے کہ حلقہ دشمناں میں تو بریشم کی طرح نرم اور اپنے ہی
مسلمان بھائی کیلئے فولاد سے بھی سخت، طاغوتی طاقتوں نے مسلمانوں کے ان
دوگروہوں میں نفرتوں کی فصیلیں کھڑی کردی ہیں تاکہ نہ یہ اکٹھے ہوں نہ کسی
شعبہ میں ہمارا مقابلہ کرسکیں، میدانِ کارزار میں تو یہ طالب دین اپنے جذبہ
حریت وللہیت سے کفر کا سر توڑ لیتے ہیںاگرچہ کفر کی طاقت کتنی زیادہ کیوں
نہ ہو،اس کے پاس ٹیکنالوجی کتنی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوکیونکہ مومن ہے تو بے
تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اللہ تعالیٰ بھی اسی مرد مجاہد کی مدد ونصرت فرماتے
ہیں اسے کسی ٹیکنالوجی کی حاجت نہیں ہوتی، تاریخ اسلامی اس کی گواہ ہے کہ
کفر خواہ کتنی تعداد وقوت میں ہو مردانِ حُر نے ہمیشہ اس کی کھوپڑی پاش پاش
کی ہے لیکن بہت سے شعبے ایسے بھی ہیں جن میں ان مردانِ حُر یا ریاست اسلامی
کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان شعبوں میں جو رجال کار ملت کے کام
آسکتے تھے کفر نے انہیں روپیہ بنانے کی مشین بنادیا ہے اس مقام پر ملت کو
محتاجی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خلافت اسلامی افغانستان کی مثال سامنے ہے
اگرچہ بہت سے سچے مسلمان دوسرے ملکوں سے طالبان کی مدد کیلئے وہاں پہنچے ،
مختلف شعبوں میںاپنی خدمات پیش کیں، کتنے ڈاکٹر، انجینئر جذبہ ایمانی سے
سرشار امارت اسلامی کی آغوش میں آئے لیکن جتنی ضرورت افراد کی ان شعبوں میں
تھی اس کے مقابلے میں وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
ایسے افراد کو ان کا مقصد اصلی یاد دلایا جائے کنتم خیرامة کا مطالبہ ان کے
سامنے رکھا جائے اور ان دوگروہوں کے درمیان محبت و انس کا ایسا علاقہ پیدا
کیا جائے کہ یکجان دوقالب والی بات صادق آجائے پھر ایک ایسی قوت اسلامی
ریاست کو ملے گی جس سے
دریاﺅں کے دل دہل جائیں وہ طوفان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہووہ شبنم
المرابطون کا مقصد یہی ہے کہ کالج ویونیورسٹی اور مدارس کے طلبہ کے درمیان
حائل دیواریں گرادی جائیں ان میں انماالمومنون اخوة کی صفت پیدا کرکے ایسے
افراد ملت کو پیش کئے جائیں جو ملت کے زخمی لاشے میں نئی روح پھونک سکیں،
انہیں جہاد جیسے اہم فریضہ اور اس کی ضروریات سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ
اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے کفر کا ہر میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں، وقت
کے راجہ داہر کو محمد بن قاسم جیسا سبق سکھاسکیں اور ملت اسلامیہ کی بقاء
کی جنگ میں کندھے سے کندھا ملا کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں جس سے کفر
اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر پھوڑ تو سکے پرملت اسلامیہ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ |