اللہ تعالیٰ کمی بیشی معاف
فرمائے، غالباً حضرت محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری (رض) کا قول پڑھا
تھا کہ کسی بھی دینی کام کو مضبوط بنیادیں اور ترقیات وکامرانیاں فراہم
کرنے کیلئے چار چیزیں ضروری ہیں۔
1) اخلاص
2)جہد مسلسل
3)صالح رفقا
4) مناسب اسباب ووسائل
خود حضرت بنوری (رح) نے ان چار نکات کو سامنے رکھ کر ایک تعلیمی ادارے کی
بنیاد رکھی اور پھر اس ادارے نے ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی اور علوم
دینیہ کی حفاظت ونشرواشاعت میں جو کلیدی اور کثیرالجہتی کردار ادا کیا اس
کی اہمیت وافادیت سے کون انکار کرسکتا ہے ....؟نظر انصاف سے دیکھا جائے تو
حضرت بنوری (رح) کا یہ ارشاد سوفیصد مبنی بر حقیقت نظر آتا ہے۔ اس لئے
قافلہ حق کے شرکاء کو ہر گام پر ان چار نکات کو سامنے رکھ کر میدان عمل میں
قدم زن ہوجانا چاہئے۔ مایوسی، بددلی ،سستی، بے یقینی، احساس کمتری، غفلت
شعاری، ذوق عمل سے محرومی اور علمی مزاج کی کمی یہ وہ زہریلے ناسور ہیں اگر
کوئی فرد ان کا شکار ہوجائے تو وہ شخص بے کار اور اپنی قوم کا عضو معطل
قرار پاتا ہے اسی طرح اگر یہ بیماریاں کسی قوم میں سرایت کرجائیں تو وہ قوم
دیگر اقوام وملل کے مقابلے میں مردہ اور معاشرتی کردار میں جزوناکارہ قرار
پاتی ہے۔ اس کے بالمقابل ایک زندہ فرد اور زندہ قوم ہر آن وہر لمحہ نئے جوش
وجذبے اور تازگئی افکار وخیالات سے نہ صرف خود کو تازہ دم رکھتی ہے بلکہ
دیگر اقوام و ملل کو بھی حیات نوکی جاں فزا ودلنواز بہاروں سے آشنا کر کے
ملک وملت کے معاشرے کو رواں دواں اور صحت افزا بنائے رکھتی ہے۔ بقول اقبال:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح وشام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق ومروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
زندہ اقوام ہمیشہ علم وعمل سے اپنا دامن سجائے رکھتی ہیں۔ محض علمی فراوانی
جو جذبہ عمل سے خالی ہو وہ انفس و آفاق میں کسی نمایاں تبدیلی کا پیش خیمہ
ہرگز نہیں بن سکتی اسی طرح اگر جذبہ عمل ذوق علمی سے محروم وتہی دامن ہوتو
اس کے تمام اقدامات، تعمیرواصلاح کے کم اور تخریب وفساد کا زیادہ باعث بنتے
ہیں۔ عمل وعمل میں چولی دامن کا ساتھ ہے یہ ایک معروف ضرب المثل اور حقیقت
واقعہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں کا میدان الگ
نوعیت اور ہر ایک اپنے خاص خاص ظروف واحوال اور ضروریات و متعلقات کا
متقاضی ہے جو بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ومتصادم ہیں، ایک یکسوئی وتنہائی
اور میل جول کی کمی کا خواہاں ہے۔ دوسرا ہنگامہ آرائی، شوروشغب اور میل جول
سے وابستگی رکھے بغیر اپنا کام ہی نہیں کرسکتا، علم تو ببانگ دہل یہ اعلان
کرتا ہے۔
العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک
ترجمہ:علم اس وقت تک اپنا بعض حصہ بھی نہیں دے گا جب تک تم خود کو مکمل طور
پر اس کے سپرد نہ کردو۔
اور عمل کارزار دنیا کے جھمیلوں میں انتھک محنت اور جان جوکھوں میں ڈالنے
کا دوسرا نام ہے۔ اس لئے اس موقع پر بجا طور یہ سوال ابھرتا ہے کہ علمی ذوق
کا حامل شخص عمل کے میدانوں میں اپنی خدمات کس طرح پیش کرے، خاص کر اس دور
میں جب جہادی تحریکات عالمگیریت کا روپ دھار رہی ہیں۔ ہر سو شہداء کے معطر
لہو کی مہک سے اہل ایمان کے جسم وجاں تروتازہ ہورہے ہیں۔ عشاقانِ موت اور
طلبگاران شہادت کو سودائے عشق ومحبت قربان کیلئے نئے سے نئے میدان میسر
آرہے ہیں۔ ولولہ انگیز جہادی صدائیں، ذہن وقلب اور کام ودہن کی ہرلذت سے
بیزار کرکے جذبہ سرشاری و بے خودی سے آشنا کررہی ہیں۔ اُدھر یلغار باطل
اپنی تمام فتنہ سامانیوں کے ساتھ مسلم معاشرے کی اخلاقی اقدار کو نگلنے پر
تلی ہوئی ہے ۔ لحادودہریت نئی شکلوں سے بن سنور کر امت مسلمہ کے ایمان کو
تباہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔
ان حالات میں ”طالبان علم“ کی کیا ذمہ داری بنتی ہے اور وہ اپنی دوہری ذمہ
داریوں سے کس طرح عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ اسلام کی نظریاتی سرحدات کی حفاظت
کیلئے علمی اسلحہ کی ضرورت ہے تو جغرافیائی حدود وقیود کی نگہبانی و وسعت
کیلئے عملی طور پر مسلح ہونا انتہائی ناگزیر ہے تو آخر یہ دونوں فرض کیسے
نبھائے جائیں۔ یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے مگر اس کا جواب
مشکل نہیں....
المرابطون! ایک ایسے ہی قافلے کی تشکیل ہے ، ”المرابطون“ انہی نقوش راہ کو
اجاگر کرنے کی پرجوش حکیمانہ روش کا نام ہے۔ ”المرابطون“ ایسے ہی افراد کے
مجموعہ محاسن کا گلدستہ ہے۔ ”المرابطون“علم وعمل کے دوپلڑوں سے ترکیب پانے
والا ترازو اور میزان ہے۔
”المرابطون“علم وعمل کو ویسے جمع کرنا چاہتے ہیں جس طرح اصحاب صفہ نے اپنے
کردار وگفتار کی جامعیت پیش فرمائی، جب خارجی وداخلی حالات علمی مشغولیت کے
متقاضی ہوں تب علمی مزاج اور علمی انہماک پیدا کرنا کمال اور جب خارجی
وداخلی عوارضات رسم شبیری ادا کرنے کیلئے پکاریں تب شہید کربلا سیدنا حسین
رضی اللہ عنہ کی طرح میدان میں ڈٹ جانا کمال ہو گا پھر اگر جان چلی جائے تو
مقام شہادت کی رفعت وسرفرازی اور اگر فتح وکامرانی قدم چوم لے تب فاتح
وغازی۔
آج علم کو ”لذت علمیہ“ کے طور پرحاصل کرنے کا وقت نہیں کیونکہ وہ زمانہ اور
حالات الگ نوعیت کے تھے جب اسلامی سلطنتیں بحفاظت تھیں، مسلمان عزت
وسربلندی کے مقام پر فائز تھے، کفار ذلت وخواری اور سرتسلیم خم کرکے
سازشانہ کردار سے رخ موڑے ہوئے تھے تب لیلائے علم کے عاشق مسلم نوجوان شہر
بہ شہر، قریہ بہ قریہ، ملک بہ ملک تشنگی قلب وذہن بجھانے کیلئے سینکڑوں
اساتذہ ومحدثین کی خدمت میں جا جا کر زانو ئے تلمذتہہ کرتے تھے اور ایک
کثیر تعداد علمی لذت سے سرشار ہوکر اسی کام کیلئے خود کو وقف کردیتی تھی
مگر آج کے حالات یکسر مختلف ،آج تو ضرورت اس امر کی ہے کہ تفصیلی علم جو
فرض کفایہ ہے ایک جماعت تو اس میں مشغول رہے جبکہ نسل نو کے دیگر افراد
ضروری وواجبی علم حاصل کرنے کے بعد ایک منظم و مضبوط جماعت کے ساتھ مل کر
جو کسی صحیح العلم والعمل قائد و امیر کی قیادت و امارت میں اسلام اور ملت
اسلامیہ کی نشاة ثانیہ کیلئے مصروف بہ جدوجہد ہو۔ اگر آج ملت اسلامیہ کے
ہونہار افراد ضروریات کو ضرورت کی حد پر رکھتے ہوئے مقاصد کو دو حصوں میں
تقسیم کرلیں، اول علمی استعداد سے بہرہ ور ایک مضبوط جماعت اور دیگر افراد
ضروری و واجبی علم کے حصول پر اکتفا کرلیں۔ ثانیاً اس حصول علم کے بعد اپنی
زندگی کی ڈور اپنے امیر وقائد کے ہاتھ میں دے کر اخلاص کے ساتھ کام میں جت
جائیں تب انشاءاللہ کامیابیاںامتِ مسلمہ کے قدم چومےں گی ورنہ اگر آج ہم
”ساز تسکین اور داستان پرسکوں“ میں مگن رہے تو ناکامیوں کی آگ نشیمن ہی کیا
چمن کو بھی راکھ بنا ڈالے گی۔
حکیم میری نواﺅں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
|