منتشر یا مشکلات کے شکار گھرانوں
کے بچے اکثر بیمار رہتے ہیں۔ انہیں اپنے ہم عمر دیگر بچوں کی نسبت زیادہ
نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس تناظر میں ماہرین اطفال نگرانی کے
بہتر نظام کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
کیون اور جیکلین کا تعلق جرمن شہر بوخم سے ہے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتے
ہیں، جہاں کثیر منزلہ رہائشی عمارتیں ہیں اور یہ ایک غریب علاقہ تصور کیا
جاتا ہے۔ اس طرح کے علاقوں میں رہنے والے بچوں میں نفسیاتی مسائل کا شکار
ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب لیا صوفیا اور میکسی ملین ہیں۔
یہ دونوں ہیمبرگ کے پرتعیش مکانات والے ایک علاقے میں پروان چڑھ رہے ہیں۔
عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اِن دونوں بچوں کے نفسیاتی مسائل میں
مبتلا ہونے کے امکانات کیون اور جیکلین سے کم ہیں۔ جرمنی میں بچوں اور
نوعمروں کے حوالے سے قائم طبی سوسائٹی اس شرح کو تشویشناک قرار دیتی ہے۔
اس سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری کارل جوزف ایسر ’ Karl Josef Esser ‘ کے بقول
انتشار کے شکار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں میں مختلف طرح کی علامات
ظاہر ہوتی ہیں۔ ’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ چلنا دیر سے شروع کرتے ہیں، ان
کے رویے میں مسائل ہوتے ہیں مثال کے طور پر چیخنا چلانا۔ یا تو ان کا انداز
بہت جارحانہ ہوتا ہے یا وہ انتہائی خاموش طبیعت کے مالک ہوتے ہیں‘‘۔ جوزف
ایسر مزید کہتے ہیں کہ نا مناسب ماحول میں پروان چڑھنے والے اکثر بچوں کا
وزن بڑھ جاتا ہے کیونکہ والدین دیگر مسائل کی وجہ سے صحت مند غذا پر توجہ
نہیں دے پاتے۔ ان کے بقول مشکلات کے شکار گھرانوں کے بچوں میں اکثر وٹامن
ڈی اور آئرن کی بھی کمی ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب کوئی خاندان مالی
مشکلات کا شکار ہو یا گھر کے ارکان کے درمیان اختلافی مسائل موجود ہوں تو
اس کا اثر بچوں پر ضرور پڑتا ہے۔
ایک اجلاس میں اس شعبے کے ماہرین نے بچوں کو صحت مند رکھنے کے حوالے سے ایک
نیا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے کارل جوزف ایسر کہتے ہیں
کہ بچوں کے سلسلے میں ڈاکٹر بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
ڈاکٹروں کو کافی پہلے ہی سے بچوں میں پیدا ہونے والے مسائل کا پتہ چل جاتا
ہے۔ ’’ڈاکٹروں کو حفظ ما تقدم کے طور پر کیے جانے والے طبی معائنوں میں ان
مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ والدین سے بات کریں یا پھر
تھیراپی کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں نفسیاتی
ماہرین اور پیشہ ور تربیت کنندگان کی بھی مدد لی جا سکتی ہے اور ضروت پڑنے
پر بچوں کی تربیت کے حوالے سے قائم مشاورتی مراکز سے بھی رابطہ کیا جا سکتا
ہے‘‘۔
کارل جوزف ایسر کے بقول ہیلتھ انشورنس کمپنیاں تواتر سے بچوں کے طبی
معائنوں کے مواقع مہیا کرتی ہیں۔ ان میں یہ جانچا جاتا ہے کہ بچے کی نشو و
نما ان کی عمر کے مطابق ہو بھی رہی ہے یا نہیں۔ جرمنی کے کچھ صوبوں میں تو
ایسیچیک اپ کرانا لازمی ہیں۔
متعدد جائزوں میں ان موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ بہتر ماحول بچوں کی
پرورش پر کس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے، والدین کا سماجی مرتبہ کس قدر اہم
ہے اور خوشحالی ان کے لیے کس حد تک ضروری ہے۔ روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کی جانب
سے کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق واضح طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار
دکھائی دینے والے 32 فیصد بچوں کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہوتا ہے، جن میں
والدین کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کی آمدنی بھی محدود ہوتی ہے۔ دوسری
جانب خوشحال گھرانوں کے بچوں میں یہ شرح اس سے آدھی یعنی صرف 16 فیصد ہے۔ |