انصاف مانگتا ہے فوجی جوان

( توجہ طلب )آئی جی صاحب پولیس آزاد کشمیر اور عدلیہ کے لیے ایک توجہ
6مئی 2015ء کو پاک آرمی جوان سید ظہیر حسین کاظمی آف چکہامہ ضلع ہٹیاں بالا ، کی شادی بڑے دھوم دھام سے ہوئی ،والدین اس انتظار میں تھے کہ کب وہ شادی کرا کراپنا فریضہ سر انجام دیں ۔ دوسری طرف لڑکی فضیلت بی بی اور اس کے گھر والے شادی کو سوداگری سمجھتے تھے انہوں نے جب سید ظہیر حسین کاظمی شادی کے بعد 20 مئی کو واپس اپنے وطن کی خاطر محاذ پر گیا اس دوران 22مئی کو فضیلت بی بی کو گھر بلالیا فضیلت بی بی نے توحد کر دی سرال کے گھر سے جو قیمتی چیزیں تھی روپے ،زیور، کپڑے وغیرہ جو شادی میں اس کو دیا زیور وہ بھی ساتھ دوسریوں کے بھی لے گئی اور اپنے خاندانی چور ہونے کا ثبوت دیا ، اور گھر جا کر مطالبہ شروع کر دیا کہ میں اس گھر میں نہیں جاتی مجھے طلاق چاہئے اب میں نے کو ئی اور تلاش کرنا ہے اور اس کو بھی لوٹنا ہے ۔ جناب والا اس کا پو را گاؤں گواہ ہے اور باقاعدہ ثابت ہوا ہے کہ اس نے چوری کی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے اپنے خاندان کے لوگ ان سے اب نفرت کرتے ہیں ۔بات یہاں تک نہیں ہے ۔جب سے رشتہ کی بات چلی تین سال بعد شادی ہو ئی اس دوران سید ظہیر حسین شاہ کی ساری تنخواہ انہوں نے اپنے والدین کو نہیں دینے دی بلکہ وہ ہر ماہ کی یکم تاریخ کو اس کو اپنی فرمائش قیمتی چیزوں کی اور نقد پیشوں کی کر کے لوٹ لیتی تھی ۔ والدین نے کبھی نوٹس نہیں لیا کہ ہمارا بیٹا تنخواہ کی رقم ہمیں کیوں نہیں دیتا اﷲ کے فضل و کرم سے گھر کے حالات بہتر تھے انہوں نے یہ سمجھ کر چھوڑ دیا کہ ہمارا بیٹا خوش رہے اور اس کے سوداگر رشتہ دار اﷲ ہمیں اور دے گا ۔ جناب والا ابھی بھی ان کے گھر مہنگے موبائیل فون جو ظہیر حسین سے منگواتی رہیں ہیں موجود ہیں۔پورا علاقہ اس کا شاہد ہے ۔جب ظہیر حسین کے والد سید یاسین شاہ فضیلت بی بی کے والد منصف شاہ سے شادی کی بات کرتے وہ کہتا کہ میرے پاس جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں جہیز کے بغیر میں نہیں دے سکتا لوگ کیا کہیں گے ۔ آخر کا ر سید یاسین شاہ نے جہیز کے لیے پیسے دیئے اور کارپنٹر اس کے گھر لگوا کر جہیز تیا ر کرایا اور دوسرا سامان بھی ،بات یہاں تک ختم نہ ہو ئی جب ولیمہ کی باری آئی تو پھر اس نے مطالبہ کیا کہ میرے پاس لوگوں کو کھانا کھلانے کے اخراجات نہیں ہیں ، پھر سید یاسین شاہ نے اس کو اور پیسے دئیے تب جا کر رخصتی ہو ئی ، ایک بات اور نقد ایک لاکھ مہر بینک میں جمع کروا کر رسید لے کر پھر رخصتی کی ۔اور اس کا انجام سید منصف شاہ اور اس کی بیٹی نے یہ کیا ایک خاندان کو تین سال تک لوٹ لوٹ کر اور اس کی جمع پونجی ساری خرچ کرا کر اور اس کا گھر تباہ کر کے اب اپنی بیٹی کو لے کر آپ سے انصاف مانگتا ہے جناب والا سوچنے کا مقام ہے آپ بھی ایک خاندان کے سربراہ ہیں اگر آپ کے ساتھ اس طرح ہو کیا آپ انصاف کے طلب گار ہیں یا سوادگر اور چور لوگ جن کو پورا علاقہ جانتا ہے انصاف تو پاک آرمی کے جوان سید ظہیر کو ملنا چاہئے جس کا سرمایہ گیا جس کی زندگی برباد کی جو رات کو کشمیر کے محاذ پر کھڑا ہو کر آپ سے انصاف مانگتا ہے جس کو وہاں آرام نہیں دیا جا رہا ۔ ہر دن نیا کیس تیا ر کیا ہو تا ہے پھر اس کو وہاں سے بلایا جاتا ہے۔جناب والا ان کے ساتھ ایک غنڈوں کا گروہ ہے جو ان لوگوں کے ذریعے ان شریف لوگوں کو سماجی دشمنی اور سیاسی دشمنی کی آڑ میں نیچا دیکھنے کی کو شش کر رہا ہے آپ سے گزارش ہے کہ تھانہ چناری پولیس نے وہاں کے ہر قسم سے بااثر لوگ مذہبی ،سیاسی،سماجی لوگوں کی مدد سے انصاف پسند فیصلہ کیا تھا جو فضیلت بی بی کے حق میں تھا ۔ اس نے طلاق مانگی اور وہ آپ خود جانتے ہیں جو عورت خود نہ رہے وہ شریعت کے قانون کے مطابق طلاق دی جاتی ہے اور اس کو طلاق دی۔ اور سید یاسین شاہ نے جو چیزیں اس نے لوٹی تھیں وہ اپنے بیٹے کی خاطر چھوڑ دی تھیں سب کچھ ختم ہو گیاتھا ۔ جب غنڈوں کو موقعہ ملا انہوں نے اس معاملے کو آگے لے گے اور انصاف مانگننے لگے ۔

جناب والا آپ ان لوگوں پر توجہ نہ دیں بلکہ انصاف کا اﷲ کے نزدیک حقدار سید ظہیر حسین شاہ ہے جس کی تین سالوں کی کمائی اس کی لوٹی ہوئی رقم اس کے زیورات ،باقی چیزیں اور شادی پر آنے والے اخراجات سارے کے سارے جو جھوٹے مقدمے انہوں نے لگائے اس میں ہونے والے اخراجات وہ ان سے لے کر دیں اور تھانہ چناری پولیس کے لوگوں کو انصاف پر مبنی کام کرنے دیں اور ان مکار لوگوں پر توجہ نہ دیں انصاف کا طالبگار سید ظہیر حسین شاہ اس کو انصاف دیں تاکہ آپ کے تعاون سے وہ محاذ پر سکون سے قوم و ملک کی خدمت کر سکے ۔
Syed Abdul Haseeb
About the Author: Syed Abdul Haseeb Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.