اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم نے سورہ البقرہ میں
ارشاد فرمایا ہے کہ اور ہم ضرورتمہیں آزمائیں گے خوف ، بھوک ، مالوں ،جانوں
اور پھلوں کے نقصان سے، اور آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔جن پر
کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بیشک ہم بھی اﷲ ہی کا مال ہیں اور ہم بھی
اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے
پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔اسی حوالے
سے حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب ان
لوگوں کو جو دنیا میں مبتلائے مصائب رہے، ان کے مصائب کے عوض جو اجر و ثواب
دیا جائے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں ہمیشہ آرام و چین سے رہے، حسرت کریں گے
کہ کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں اور ہم بھی ایسے
ہی اجر وثواب کے مستحق قرار پاتے۔ جامع ترمذی میں ہی میں حضرت ابو ہریرہ ؓ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا کہ اﷲ کے بعض بندوں پر مصائب اور حوادث
آتے رہتے ہیں ۔ کبھی جان پر، کبھی مال پر اور کبھی اولاد پر ، یہاں تک کہ
مرنے کے بعد وہ اﷲ کے حضور میں اس حال میں پہنچتے ہیں کہ ان کا ایک گناہ
بھی باقی نہیں ہوتا۔ مسند احمد اور سنن ابو داوٗد میں ہے کہ رسول پاک ؐ نے
فرمایا کہ کسی بندہ مومن کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسا بلند مقام طے
ہوتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے نہیں پاسکتا تو اﷲ تعالیٰ اس کو کسی جسمانی
یا مالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا
کردیتا ہے۔ پھر اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے یہاں تک کہ ان مصائب و
تکالیف اور ان پر صبر و برداشت کی وجہ سے اس بلند مقام پر پہنچا دیتا ہے جو
اس کے لیے پہلے سے طے ہوچکا تھا۔
قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کی روشنی میں وہ افراد یا گھر انعامات ز خداوندی
کے مستحق ہوں گے جوخصوصی افراد کی خوش دلی سے نگہداشت، پرورش اور دیکھ بھال
کرتے ہیں۔والدین نے تو اپنے خصوصی بچوں کی پرورش کرنا ہی ہوتی ہے لیکن وہ
لوگ جو خصوصی افراد کو اپنا جیون ساتھی بناتے ہیں ان کی تعریف کے لیے الفاظ
ناپید ہیں۔ یقیناََ وہ اپنے رب کے ہاں اعلیٰ اجرو مقام پائیں گے۔ جسمانی
معذوری ، پیدائشی اور حادثاتی ہوسکتی ہے۔ پیدائشی معذوری وراثتی اثرات ،
جینیاتی وجوہات اور چند دوسرے عوامل کی وجہ سے ہوتیہے اور یہ ایک قدرت کے
قانون کے تحت ہوتا ہے جس میں کسی کا قصور نہیں ہوتا ۔اس کی وجہ کوئی بد دعا،
عذاب ، آسیب یا جادو ٹونہ نہیں ہے ۔ اسلام نے اس جہالت کا بھی قلع قمع کیا
کہ خصوصی افراد منحوس اور کم تر ہیں لیکن اس کے باوجود برصغیرمیں معذور
افراد کے ساتھ عمومی سماجی رویہ بہت نامناسب ہے جو اسلامی تعلیمات اور
اخلاقی اصولوں کے سرا سر منافی ہے۔ شادی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی
معائینہ کیا جاتا ہے اور معمولی سے بھی جسمانی نقص کی وجہ سے رشتہ قبول
نہیں کیا جاتا۔ معذور افراد کے جن ا عضا میں نقص ہو ، اُن کی بنیاد پر اُن
کے نام رکھ دئے جاتے ہیں اور وہ اُن کی پیچان بنا دئے جاتے ہیں۔ اسٹیج شور
، ٹی ٹاک شو اور ڈراموں میں معذوری ، قد ، رنگ اور جسمانی اعضاکا مذاق
اڑایا جاتا ہے اور سب اس سے محظوظ ہورہے ہوتے ہیں۔ جو کہ سراسر انسانیت کی
تذلیل کے مترادف ہے اور قہر خداوندی کو دعوت ہے۔یہ خصوصی افراد جو پہلے ہی
دکھوں اور پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا مذاق اڑایا جائے، تو وہ مزید
ڈپریشن و تنہائی کا شکارہوجاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ الحجرات میں تمام
مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! ایک دوسرے کا تمسخر نہ اْڑاو۔ ہو
سکتا ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہ اُن سے بہتر ہوں۔ اور نہ ہی ایک
دوسرے کے بُر ے نام رکھو اوربے عزت کرو۔ کیونکہ ایمان لانے کے لیے برا نام
رکھنا گناہ ہے ۔ میڈیا پر خصوصی افراد اور جسمانی و ذہنی نقائص کا مذاق
اڑانے والوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ کسی مہذب معاشرے میں یہ سب نہیں ہوتا۔
جو آج صحت مند ہیں انہیں کیا پتہ کہ کل کوئی حادثہ ہو اور وہ بھی معذوری کا
شکار ہوجائیں۔ کسی خبر ہے کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد جسمانی یا
ذہنی نقص کی حامل نہیں ہوگی۔ اہل یورپ پر خدا جو نوازشات ہیں ممکن ہے اُن
میں سے ایک وجہ ان لوگوں اور معاشرے کا معذور افراد کے ساتھ مساوی بلکہ
بہتر اور باعزت رویہ ہے۔ اسلام نے خصوصی افراد کے ساتھ جو سلوک کرنے کا حکم
دیا ہے اُس کا عملی اظہار اہل مغرب کررہے ہیں۔یورپ میں خصوصی افراد کے لیے
مثالی سہولتیں اورعزت و احترام ہے ممکن ہے کہ اسی وجہ سے رب کریم نے وہاں
کے لوگوں پر نوازشات کی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ہدایت پر معذور افرادکو خصوصی افراد قرار دیا گیا ۔ایک
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دس فیصد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں
-اقوام متحدہ نے ۱۹۷۵ء اور ۱۹۸۲ء میں تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ
خصوصی افراد کو صحت، تعلیم اور ملازمت کے مواقع عام افراد کے برابر دیں۔اہل
مغرب نے ان سفارشات پر عمل کیا ہے اور خصوصی افراد کو باعزت مقام دیتے ہوئے
ہر ممکن سہولیات دی ہیں۔ اسلامی ممالک کو تو اس میں سر فہرست ہونا چاہیے
تھا کیونکہ اسلام کسی شخص کے جسمانی نقص یا کمزوری کی بنا پر اْس کی عزت و
توقیر اور معاشرتی رْتبہ کو کم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔بہت سے ایسے
واقعات اور احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر اﷲ اور اس کے رسول صلیٰ اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں کو دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ عزت بخشی
ہے۔ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں رؤسائے
مشرکین کو تبلیغ فرما رہے تھے کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبد اﷲ بن اْم
مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
دوسروں سے مصروف گفتگو ہونے کی وجہ سے آپ صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداﷲ
بن اْم مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ نہ ہو سکے تو اِس عدم توجہی
پر یہ سورہ عبس کی آیات نازل ہوئیں۔خصوصی افراد کسقدر توجہ اور معاشرتی
مقام کے حقدار ہیں، اس کا اندازہ حضرت عمر ؓکے واقعہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔
آپؓ اُسے کہا کہ دائیں ہاتھ سے کھا۔ اْس نے جواب دیا کہ موتہ کی لڑائی میں
میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا اس لیے میں بائیں ہاتھ سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن
کر آپؓ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اْس سے پوچھنے لگے کہ تمہارے کام کون کرتا
ہے اور تمہاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپؓ
نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ
زندگی بھی مہیا کیں۔ خصوصی افراد کے لیے معاونت کی اولین مثال ہوگی جسے
یورپ کے اپنے ہاں اپنایا ہوا ہے۔انفرادی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر ہمیں
خصوصی افراد کے حوالے سے اپنے رویے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بدلنے کی
ضرورت ہے۔ خصوصی افرادکا طنزو مزاح کا موضوع بنانے کی بجائے انہیں عزت و
توقیر اور محبتدیں۔ کسی ایک دکھی دل کو شاد کرنے سے رب کی طرف سے رحمتوں کا
نزول ہوگا جس سے یہاں آسانیاں اور خوشگوار زندگی نصیب ہوگی اور جس کا اجر
آخرت میں بھی مقدر ہوگا۔ |